کاریز زیر زمین آبپاشی کی نقل و حمل کا نظام جو بلوچستان میں استعمال ہوتا آ رہا ہے۔

کاریز کی بناوٹ ترمیم

اس کی بناوٹ اس طرح ہے کہ کسی اونچی جگہ پانی کا چشمہ تلاش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد مناسب فاصلے پر گڑھے کھود کر انھیں سرنگ کے ذریعے ملا دیا جاتا ہے اور اس طرح پانی آہستہ آہستہ بہتا ہوا زمین کی سطح تک آپہنچتا ہے۔ جبکہ آرڈی اولڈھم (R.D.Oldhem) جو محکمہ جیولوجیکل سروے آف انڈیا سے منسلک تھا‘ اس نظریے کے برعکس کہتا ہے کہ کاریز میں پانی کسی ایک ذریعے سے نہیں آتا بلکہ اس میں بارشوں کا وہ سارا پانی بھی شامل ہوتا ہے جو چٹانوں کی شکست و ریخت کی وجہ سے دراڑوں میں گھس کر زیر زمین جذب ہو جاتا ہے اور جب کنویں کھودے جاتے ہیں تو رس رس کر باہر نکلتا ہے اور پھر اکٹھا ہو کر نہر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

تاریخ ترمیم

ایک بلوچی کہاوت ہے کہ اس مسجد کو ڈھادو جو کاریز کا راستہ روکے۔ کاریز کی کھدائی پہلے پہل عربوں نے کی‘ لیکن مکران میں خسروی اور کاؤسی کاریزوں کا وجود اور نام اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ آبپاشی کا یہ طریقہ کار عربوں کی آمد سے پہلے بھی موجود تھا۔
کاریز کی لمبائی بعض اوقات میلوں تک جا پہنچتی ہے اور کئی کئی سال اس کو کھودنے میں لگ جاتے ہیں۔ بعض کنوؤں کی گہرائی ایک سو پچاس فٹ تک ہوتی ہے اس کی لاگت اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی فرد واحد اس کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا چنانچہ اہل دیہہ یا قبیلے کے افراد مل کر یہ بوجھ اٹھاتے ہیں پھر پانی کی تقسیم بھی سرمایہ کاری کے تناسب سے ہوتی ہے۔ کاریز کی ابتدا ایک نسل کرتی ہے اور تکمیل ان کی اولاد کرتی ہے‘ اس لیے نئی کاریز کھودنے سے اکثر گریز کیا جاتا ہے۔ صرف پرانی کاریزوں کی صفائی اور مرمت ہی پر اکتفا کیا جاتاہے۔ پیشہ ور کاریز کھودنے والے (کاشت) بھی عموماً دستیاب نہیں ہوتے۔ چونکہ کاریز کھودنے کا عمل اجتماعی کاوش کا مرہون منت ہے اس لیے اکثر وہی لوگ شریک ہوتے ہیں جن کی زمینوں سے کاریز گزرتی ہے یا جنہیں اس سے استفادہ کرنا ہوتا ہے۔

انتظامی تقسیم ترمیم

ہر کاریز کو انتظامی سہولت کے لیے بارہ اکائیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے‘ جن کو ’’ہنگام‘‘ کہتے ہیں۔ ہر حصے دار اپنے حصے کی نسبت سے مزدور ’’نفر‘‘ مہیا کرتا ہے۔ مکران میں ہر ہنگام کے لیے کم سے کم دو مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کام کی نگرانی کے لیے ایک مینجر مقرر کیا جاتا ہے جس کو بلوچی زبان میں سرشتہ کہتے ہیں۔ اسے اس کام کی نگرانی کا باقاعدہ معاوضہ دیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ ہر فصل پر گندم‘ جو وغیرہ کی ایک خاص مقدار بھی دی جاتی ہے۔ یہ عہدہ موروثی ہوتا ہے۔ اگر کوئی حصے دار اپنے حصے کے مزدور بھیجنے میں تساہل سے کام لے تو سرشتہ اسے جرمانہ کر سکتا ہے اور اس طرح وصول شدہ رقم مزدوروں میں بانٹ دی جاتی ہے۔ جرمانے کی اس رقم کو اشکنہ کہتے ہیں۔ کوئی شخص منہدم کاریز کے راستے میں مکان یا دکان نہیں بنا سکتا۔ بالفرض ایسا ہو جائے تو کاریز کا رخ موڑنے کے تمام اخراجات اس کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اس زمین کو جو کاریز سے سیراب ہوتی ہے‘ بلوچی میں‘ رتیت‘ کہتے ہیں۔ اور یہ حصے داروں میں قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کر دی جاتی ہے۔ حکومت ہر کاریز سے دوہنگام پانی اور اسی نسبت سے زمین لینے کی مجاز ہوتی ہے۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. "اجنبی اپنے دیس میں،سید شوکت علی شاہ"۔ 17 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017