کرپان: وہ چھوٹی تلوار جس سے قربانی کی جائے بھینٹ چڑھائی جائے یہ عموماً سکھوں کے پاس ہوتی ہے نیز تلوار، شمشیر۔ سکھوں کی مذہبی علامت
کرپان: خنجر جو اپنے دفاع کے لیے رکھا جاتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ سکھ کرپان کے بغیر، بنگالی پان کے بغیر اور شاعر دیوان کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتے۔
سکھ مت میں جہاں پگڑی اور داڑھی کو بے حد اہمیت حاصل ہے وہیں تلوار کی طرح کی کرپان نیام میں رکھنا بھی ان کی مذہبی روایات و اقدار کا حصہ ہے ہر سکھ اپنے ساتھ ہمیشہ کنگھا ،کیس، کڑا،کچھا اور کرپان ضرور رکھتا ہے۔
سکھوں کے دسویں گرو، گرو گوبند سنگھ نے 1699ء میں تمام سکھوں کو کیش گڑھ کے قریب اکٹھا کیا اورپانچ ککے یا پانچ ککار جنہیں اردو میں پانچ کاف کہتے ہیں سکھوں کو اپنی زندگیوں کا لازمی حصہ بنانے کا حکم دیا جسے سکھ مت ایک مذہبی حکم سمجھ کر استعمال کرتا ہے
’’ککھادھاران نہ کرنے والا تنخواہیا قصوروار ہے‘‘[1] اگر سکھ دھارن نہ کرے تو وہ سکھ نہیں رہتا۔ پلت ہوجاتا ہے‘‘ ۔[2] ایک اور جگہ ہے’’کرپان کے بغیر سکھی ادھوری اور نامکمل ہے‘‘ [3] سکھوں کے رسالے پریت لڑی مئی 1966ء میں لکھا ہے بٹوارے کے وقت خواہ کوئی بھی سبب ہوبے گناہ مسلمان آدمیوں عورتوں اور بچوں پر کرپان اٹھانا سکھی شان کے مطابق نہیں تھا سکھ مذہب میں سکھ کی کرپان مستورات،بچے ،بوڑھے پرنہیں اٹھتی اور بے ہتھیار دشمن پر اس کا استعمال جائز نہیں

کرپان

حوالہ جات ترمیم

  1. سکھ قانون ص 230
  2. خالصہ کا چار یکم مئی 1947ء
  3. اکالی 2؍ مئی 1947ء