کشف کے معنی کھولنے اور پردہ اٹھانے کے ہیں۔ کشف علم کے پانچ غیر مادی ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جو حواس خمسہ کے بغیر حاصل ہو تا ہے پہلا درجہ ” فراست “ دوسرا ” حدس “ تیسرا ” کشف “ چوتھا ” الہام “ اور پانچواں درجہ ” وحی “ کا ہے۔

  • حدس کے بعد کشف کا درجہ ہے انسان کے نیک اعمال اور حسن اخلاق کے باعث مادیت کے ظلمانی پردہ چاک ہوجاتے ہیں اور مادی اشیاء روحانی عالم میں مشاہدہ کے طور پر نظر آنے لگتی ہیں زیادہ تر ان کا حصول رؤیا اور خواب میں ہوتا ہے لیکن ایک حالت سونے اور جاگنے کے درمیان بھی ہوتی ہے جس میں صاحب کشف کے حواس سونے والے کی طرح بیکار ہوجاتے ہیں اور رؤیا کی حالت بیدار ہوجاتی ہے اور حواس کا تعطل بلاریب اختیار نہیں ہوتا اگرچہ اس کو حاصل کرنا کسبی اور اختیاری امر ہے۔[1]
  • روحانیت میں کشف ایک ایسی صلاحیت ہے، جس کی بدولت اس صلاحیت کا حامل کائنات میں کسی بھی جگہ طیر و سیر کر سکتا ہے۔ کشف کے ذریعے، کشف کرنے والے فرشتوں، پیغمبروں اور ولیوں سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ کشف کرنے والے کو کھلی یا بند آنکھوں سے کشف کرنے پر قادر ہوتا ہے، تاہم یہ کشف کرنے والے کے مراتب و مقامات پر منحصر ہے۔ کشف کی سو سے زائد اقسام ہیں۔ کشف کرنے والے کا مادی جسم دنیا میں اپنی جگہ پر متمکن ہوتا ہے جبکہ تخیل کی پرواز، اُس کو کسی بھی جگہ لے جا سکتی، اس عمل کے دوران کشف کرنے والے کو اپنا مادی جسم بھی نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر روحانی جسم کے ذریعے سفر کر رہا ہے۔ کشف کی مشہور اقسام میں کشف القبور، کشف الصدور اور کشف الحضور زیادہ مشہور ہیں۔
  • تاہم کشف کے صحیح ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے، کشف شیطانی اور رحمانی دونوں طرح کا ہو سکتا ہے کیونکہ کشف میں شیطانی یا رحمانی واردات میں تمیز وہی لوگ کر سکتے ہیں جو صاحب مرتبہ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو غیر ارادی طور پر کشف ہونے لگتا ہے لیکن روحانیت کشف کی مرتبہ کی ضمانت یا باعثِ عروج صلاحیت نہیں سمجھا جاتا۔
  1. تفسیر عروۃ الوثقی علامہ عبد الکریم اثری