کپِل فلسفیانہ نظام فکر کا بانی اور سانکھیہ سوتر کا مصنف تھا۔ اس کا زمانہ حیات چھٹی قبل مسیح کے اواخر اور پانچویں صدی قبل مسیح اوائل میں گزارا ہے۔

کپل
کپل
رِشی کپِل کی مصوری
ذاتی
مذہبہندو مت
فلسفہسانکھیہ

سوانح حیات ترمیم

کپل فلسفیانہ نظام فکر کا بانی اور سانکھیہ سوتر کا مصنف تھا۔ عام یقین کے مطابق اس کی پیدائش 550 قبل مسیح میں ہوئی۔ سانکھیہ سوتر زمانہ کی نظر ہو گئی۔ اب اس پر لکھی گئی تفاسیر ہی کپل کے فلسفہ تک پہنچنے کا ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ ان تفاسیر میں ایشور کرشن کی سانکھیہ کاریکا (تیسری تا چوتھی صدی عیسوی) اور واکسپتی مشرا کی سانکھیہ تتوکومدی (نوی صدی عیسوی) وغیرہ شامل ہیں۔ ہندو افسانوں میں کپل کے متعلق بیان تضادات سے بھرے ہوئے ہیں۔ کہیں کپل کو داستانی قانون دہندہ منو کی اولاد بتایا گیا ہے۔ کہیں خالق دیوتا برہما کے بیٹے کے طور پر پوجا گیا ہے۔ بھگت گیتا میں کپل کو ایک تارک الدنیا مرتاض کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ بودھی کتب کے مطابق کپل ایک مشہور معروف فلسفی کپل منی ہے جس کے شاگردوں نے کپل وستو شہر تعمیر کیا (جہاں بدھ پیدا ہوا تھا)۔ کپل نے اپنے نظریات کی نہ ہی تبلیغ کی اور نہ ہی کوئی اپنی مذہبی برادری بنائی۔ کپل کا نظام فکر ہندو سوچ اور روایات پر مجموعی طور پر زیادہ اثر نہیں ڈال سکا لیکن اس کے باوجود گذشتہ اڑھائی ہزار سال کے دوران فلسفیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے طور پر اہمیت کا حامل رہا ہے۔ کپل کے سنہ وفات کے متعلق بہت سے اقوال ہیں لیکن قابل یقین سنہ وفات 500 قبل مسیح مانا جاتا ہے۔

کپل کے نظریات ترمیم

کپل کے نظریات میں درج ذیل نکات شامل تھیں۔

  1. دنیا مادی ہے۔ مادہ (پراکراتی) جو ہر شے کی علت ہے۔ یہ ہر جگہ موجود، ہمہ گیر اور واحد ہے۔ پراکرتی کی حرکت بھی خود پراکرتی جیسی ہے۔ ابتدا میں مادہ کی کوئی خارجی علت نہیں تھی کیونکہ مادہ بے ابتدا و بے اختتام ہے۔ کپل کے نظریہ کے مطابق چونکہ دنیا کوئی مخلوق نہیں ہے اس لیے کوئی خالق بھی موجود نہیں۔ دنیا خود ہی اپنی علت ہے۔ دنیا در بدرجہ وجود میں آئی۔
  2. کپل کے نظریہ نے فطرت میں علت و معلول کے روابط کی شناخت کی۔ اس کے مطابق فطرت کم تر سے اعلی تر کی جانب خودرو انداز میں ترقی کرتی ہے۔ دنیا کی کم تر سے اعلی تر کی جانب ترقی میں ایک تسلسل موجود ہے۔ جو چیز موجود ہی نہیں اس میں سے کچھ بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ علت اور معلول کے درمیان ایک مضبوط بندھن موجود ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کسی بھی لمحے کہیں بھی کچھ بھی واقع ہو سکتا ہے۔ ہر علت ایک مخصوص معلول پیدا کرتی ہے اور معلول کے بغیر کوئی علت نہیں ہو سکتی۔ معلول ہمیشہ علت سے ناقابل علیحدگی ہوتا ہے۔
  3. کپل نے اپنے الحاد کو باؤقعت بنانے کے لیے علت و معلول کا مادیت پسندانہ عقیدہ استعمال کیا اور برہمن مت پر تنقید کی۔ کپل کے نظریہ کے مطابق اگر علت اول خدا (برہما) ہے اور معلول دنیا ہے تو علت اور معلول کے درمیان ایک عدم مطابقت پائی باتی ہے۔ تاہم علت اور معلول کے درمیان کوئی عدم مطابقت نہیں ہو سکتی۔ کپل کے مطابق اس دنیا کی علت مادہ (پراکرتی) ہے اور کائنات مادے میں ترامیم کا نتیجہ ہے۔

سانکھیہ مسلک کے نظریات ترمیم

سانکھیہ مکتب فکر کے نظریات میں ایم نکات درج ذیل ہیں۔

  1. سانکھیہ کے مطابق ہر چیز (مظہر) کی ایک مادی علت ہے۔ علت اور معلول کے درمیان تعلق کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ مؤخر الذکر ہمیشہ اول الذکر میں موجود ہوتا ہے۔ سانکھیہ کے مطابق علت دو قسم کی ہوتی ہے۔ اول مادی (جس میں معلول غیر محترک ہوتا ہے) اور دوم مستعد یا پیداواری (جو معلول کو اپنا آپ آشکار کرنے میں مدد دیتا ہے)۔ اگر ہم تسلیم کر لیں کہ مادی علت معلول پر مشتمل نہیں ہوتی تو پیداواری علت کا تصور بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں سرگرمی کا تصور باقی نہیں رہتا۔ معلول کی فطرت بھی عین علت جیسی ہوتی ہے اور ان کی بنیادیں یکساں ہوتی ہے۔ یعنی کپڑا صرف دھاگے سے ہی بن سکتا ہے دودھ سے نہیں۔ علتوں کے بغیر معلولات نہیں ہو سکتے۔ فطرت میں ہر ایک چیز کی اپنی علت ہے۔
  2. سانکھیہ مسلک کی نظر میں مادہ (پراکرتی) تین گنوں یا قوتوں (خواص) پر مشتمل ہے۔ اول ستو ، دوم رجس اور سوم تمس۔ کوئی روشن اور درخشاں چیز ستو، متحرک کرنے والی قوت رجس اور تمس بھاری اور باعث تحدید ہے۔ سانکھیہ کاریکا کا تجزیہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ کسی معروض یا مظہر کی بنیاد میں موجود یہ تین گن ناقابل علیحدگی طور پر باہم مربوط اور مشروط ہیں۔ ان کا تعلق ایسے ہی ہے جیسے شعلے تیل باتی کا۔

تنقید ترمیم

شعور کا سوال سانکھیہ مکتبہ کے اہل فکر کے لیے بہت چکرا دینے والا تھا۔ رام رائے موہن کو یقین تھا کہ کپل نے شعور کا ماخذ کی توضیح پیش کرنے کے لیے پرش کا تصور واضح کیا۔ کپل کے مطابق پرش علیم و خبیر اور نہایت رقیق عنصر ہے جو پراکرتی کے برعکس شعور کا مالک ہے۔ پراکرتی مادہ یا معروض اور پرش شعور یا موضوع ہے۔ یہ یقین کرنے کی وجوہ موجود ہے کہ کپل کو خوف تھا کہ کہیں اس کا یہ قضیہ ایک عینیت پسندانہ تعبیر کی جانب نہ لے جائے۔ اس نے کہا کہ آتما کے برعکس پرش کچھ بھی تخلیق نہیں کرتا۔ شعور کے مآخذ اور جوہر کے حوالے سے سانکھیہ مکتب فکر کی ناموافقتوں اور غلطیوں سے مذہبی رجعت پرستی کے نمائندوں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ وسطی ادوار میں گودپاد، واکسپتی مشرا اور کپل کے دیگر شارحین نے ،عنییت پسندی کو مزید رعائتیں دیتے ہوئے روحوں کو مادے سے آزاد تسلیم کر لیا۔ اگر کپل اور سانکھیہ مکتب فکر کے پیروکاروں نے یہ کہا ہوتا کہ دنیا کی ترقی کے ایک مخصوص مرحلے پر اشیاء میں سے شعور کا ظہور ہوا جبکہ کمیتی تبدیلیاں ایک خاص موقع پر کیفیتی تبدیلیاں بن گئیں تو ساری بے ربطی دور ہو جاتی۔ کپل اور سانکھیہ مکتب فکر کی آراء اور خیالات باہم گھتے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود کپل نے ہندوستانی فکر کے دھارے کو منطقی انداز میں پرکھا اور آنے والے زمانوں کے مادیت اور عینیت پسند دونوں فلسفیوں کو غور و فکر کی بنیادیں فراہم کیں۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. فلسفیوں کا انسائیکلوپیڈیا مولف یاسر جواد صفحہ 42 تا 45