کیکڑا

کیکڑا پالنے کا طریقہ
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف
Crab
دور: Jurassic–Recent

اسمیاتی درجہ ذیلی طبقہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P105) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت بندی
مملکت: جانور
جماعت: Malacostraca
طبقہ: دسپا
ذیلی طبقہ: Pleocyemata
الرتبة الفرعية: Brachyura
لنی اس, 1758
سائنسی نام
Brachyura[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P225) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لنی اس  ویکی ڈیٹا پر (P225) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Sections and subsections[3]


کیکڑا، السَرَطَانْ (عربی) مشہور جانور ہے۔ اس کا دوسرا نام عقرب الماء (پانی کا بچھو) ہے اس کی کنیت ابو بحر ہے، اس جانور کی پیدائش اگرچہ پانی میں ہوتی ہے لیکن اس کے اندر صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ خشکی میں بھی زندگی گزار سکتا ہے۔ یہ نہایت زود رواں ہوتا ہے تیز دوڑتا ہے۔ اس کے دو تالو ہوتے ہیں پنجے اور ناخن بہت تیز ہوتے ہیں، دانت بہت ہوتے ہیں، اس کی کمر سخت ہوتی ہے۔ اگر کوئی انجان شخص اس کو دیکھے تو یہ خیال کریگا کہ اس جانور کے نہ سر ہے اور نہ دم۔ اس کی آنکھیں اس کے شانوں میں اور اس کا منہ اس کے سینہ میں ہوتا ہے۔ اس کے تالو دونوں طرف سے چرے ہوئے ہوتے ہیں اور آٹھ پیر ہوتے ہیں۔ یہ ایک جانب سے پانی کو چیرتا ہوا چلتاہے۔ کیکڑا سال میں کئی مرتبہ اپنی کھال بدلتا ہے اور اپنے رہنے کے مقام میں دور دراز رکھتا ہے، ایک دروازہ پانی کی طرف اور ایک دروازہ خشکی کی طرف، جب یہ اپنی کھال بدلنے کے لیے اتارتا ہے تو پانی کی طرف والا دروازہ بند کرلیتا ہے تاکہ پانی کے جانوروں کے شر سے محفوظ رہے اور خشکی کی طرف کا راستہ کھلا رکھتا ہے تاکہ ہوا پہنچتی رہے اور اس کے بدن کی رطوبت خشک ہوکر اس میں سختی آجائے، جب اس کے بدن میں خشکی آجاتی ہے تو غذا حاصل کے لیے پانی کی طرف کا دروازہ پھر کھول دیتا ہے۔ حکیم ارسطا طالیس نے اپنی کتاب "النعوت" میں لکھا ہے کہ لوگوں کا گمان ہے کہ اگر کسی گڑھے میں مردہ کیکڑا چت پڑا ہواملے تو جس شہر یا جس زمین میں وہ اس حالت میں ہے تو وہاں کے لوگ آفات سماویہ سے محفوظ رہیں گے۔ اگر کیکڑے کو پھل دار درخت پر لٹکا دیاجائے تو ان پر پھل بکثرت آویں گے۔ دیکھتے وقت دیکھنے والوں کو پورا نظر آتا ہے اور جب چلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ نصف ہے۔ کہتے ہیں کہ بحر چین میں کیکڑوں کی بہت کثرت ہے جب وہ دریا سے نکل کر خشکی پر آتے ہیں تو پتھروں میں گھس جاتے ہیں۔ حکیم حضرات ان کو پکڑ کر سرمہ بناتے ہیں جو بینائی کو تقویت دینے میں مفید ہے۔ کیکڑا نر مادہ کی جفتی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ سیپ سے نکلتا ہے

کیکڑے کے طبی فوائد: 

کیکڑے کے کھانے سے کمر کے درد میں نفع ہوتا ہے اور کمر مضبوط ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص کیکڑے کا سر اپنے بدن پر لٹکائے تو اگر رات گرم ہوئی تو اس کو نیند نہیں آوے گی اور اگر گرم نہ ہوئی تو نیند آجاوے گی۔ اگر کیکڑے کو جلاکر اس کی راکھ بواسیر پر مل دی جائے تو بواسیر جاتی رہی گی خواہ وہ کیسی ہو۔ کیکڑے کا گوشت سل کے مریضوں کو بہت نفع دیتا ہے، اگر کیکڑے کو تیر کے زخم پر رکھ دیا جائے تو تیر کی نوک وغیرہ کو زخم سے نکال دیتا ہے، سانپ اور بچھو کے کاٹے پر اگر اس کو رکھ دیا جائے تو بھی بہت نفع ہوتا ہے، اگر اس کی ٹانگ کسی درخت پر لٹکا دی جائے تو اس درخت کے پھل بغیر کسی علت کے جھڑ جائیں گے۔ کیکڑا کھانے کا شرعی حکم: کیکڑے کا کھانا درست نہیں ہے کیوں کہ یہ نجس ہوتا ہے اور فقہا رحمہم اللہ نے اس کو مضر قرار دیا ہے بقول رافعی کیکڑے کا کھانا اس وجہ سے درست نہیں کہ اس کے کھانے سے نقصان ہوتا ہے، (**فقه شافعی اور فقہ حنفی میں اس کا کھانا صاف حرام ہے۔ تمام فقہاے شوافع نے اس کی صراحت کی ہے۔ ابھی قریب میں کیکڑے کی حرمت پر ایک تحقیقی اور مفصل رسالہ مولانا محمد طارق اکرمی ندوی شافعی کا شائع ہوا ہے۔ جس میں اس کی علت اور صریح حکم اور قرآن و حدیث کے نیز کتب معتمدہ کے حوالے موجود ہیں۔**)

امام مالک رح کے مسلک میں اس کا کھانا حلال ہے۔

کیکڑا خواب میں دیکھنے کی تعبیر: 

: کیکڑا خواب میں دیکھنا ایک نہایت باہمت مکار اور فریبی شخص کی دلیل ہے۔ اس کا گوشت کھاتے دیکھنا اس بات کی علامت ہے کہ دیکھنے والے کو کسی دور دراز ملک سے مال حاصل ہوگا،اور کیکڑے کو خواب میں دیکھنا مال حرام کی علامت بھی ہے۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ربط : ITIS TSN  — اخذ شدہ بتاریخ: 22 اکتوبر 2013 — عنوان : Integrated Taxonomic Information System — شائع شدہ از: 2004
  2.    "معرف Brachyura دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ"۔ eol.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مارچ 2024ء 
  3. Sammy De Grave، N. Dean Pentcheff، Shane T. Ahyong، وغیرہ (2009)۔ "A classification of living and fossil genera of decapod crustaceans" (PDF)۔ Raffles Bulletin of Zoology۔ Suppl. 21: 1–109۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (پی ڈی ایف) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2016 
  4. حیاةالحیوان اردو جلد دوم ص 458-459