ہند بنت عتبہ

صحابیہ رسولﷺ

ہند بنت عتبہ ابن ربیعہ (وفات: 14 محرم الحرم 14ھ/ 9 مارچ 635ء) ام المومنین رملہ بنت ابوسفیان کی والدہ۔ ان کے دو بھائی ابو حذیفہ ابن عتبہ اور ولید بن عتبہ تھے۔ ان کے باپ عتبہ بن ربیعہ کو حضرت حمزہ نے غزوۂ بدر میں قتل کیا تھا۔ جس کے انتقام کی خاطر انھوں نے وحشی بن حرب کے ہاتھوں حمزہ کو شہید کرایا اور اس کے بعد اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان کی نعش کی بے حرمتی کی۔غزوۂ احد میں حمزہ بن عبدالمطلب کا جگر کھانے کی وجہ سے ہند بنت عتبہ "ہند جگر خور" مشہور ہو گئیں۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ نے مکہ میں موجود اپنے دشمنوں کو "طلقاء" (آزاد کردہ غلام) کا نام دیا اور انھیں معاف کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں آزاد کر دیا ۔[3][4][5] حضرت حمزہ کے جسم کی بے حرمتی کرنے کے بعد ان کے اعضا جسمانی سے بالیاں، ہار، کنگن اور پازیب بنالی اور انھیں حمزہ بن عبد المطلب کے کلیجے کے ہمراہ مکہ لے گئیں۔[6]

ہند بنت عتبہ
صحابیہ ہند بنت عتبہ
ہند بنت عتبہ بن ربيعہ
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 584ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جزیرہ نما عرب   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 635ء (50–51 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مکہ مکرمہ، خلافت راشدہ، حجاز، موجودہ سعودی عرب
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر ابو سفيان بن حرب اموی قرشی
حفص بن مغيرہ مخزومی قرشی
فاکہ بن مغيرہ مخزومی قرشی
اولاد معاويہ بن ابی سفيان
مريم ام حكم
ابان بن حفص
جویریہ بنت ابوسفیان
عتبہ بن ابی سفيان
والد عتبہ بن ربیعہ   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
ابو حذیفہ ،  ولید بن عتبہ   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رشتے دار باپ: عتبہ بن ربيعہ
ماں: صفيہ بنت اميہ سلميہ
عملی زندگی
تاریخ قبول اسلام فتح مکہ (11 جنوری 630ء)
پیشہ شاعرہ [2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ احد ،  جنگ یرموک   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فتح مکہ کے دن ابوسفیان کے اسلام کے بعد آپ اسلام لائیں،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کا نکاح قائم رکھا،بڑی عاقلہ فہیمہ تھیں،کبھی زنا کے قریب نہ گئیں،جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بیعت کے وقت فرمایا کہ زنا نہ کرنا تو آپ بولیں کیا کوئی شریف عورت بھی زنا کرسکتی ہے۔ عمرؓ کی خلافت میں عین ابوقحافہ کے وفات کے دن فوت ہوئیں ام المومنین عائشہ نے آپ سے روایات لیں۔(مرقات)عہدِ فاروقی میں غزوہ قادسیہ و یرموک میں بڑی مجاہدانہ شان سے شریک رہیں بڑی خدمت اسلام کی۔[7] اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب تمام ایسے واقعات جو ان کی اعلی و ارفع حیثیت و مقام کے خلاف ہیں الواقدی،محمد بن سائب کلبی،سیف بن عمر تمیمی جیسے کذاب اور وضاع اشخاص نے بیان کیے ہیں اور ان حضرات پر علما اسما الرجال کی طرف سے مستند کتابوں میں سخت جرح بھی موجود ہے اور ان باطل قسم کے واقعات تمام حضرات صحابہ کرام کی توثیق و عدالت پر بالکل بھی اثرانداز نہیں ہو سکتے۔تمام صحابہ کرام کے جنتی ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جو قرآن اور تمام صحیح اور مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے جن کے راوی اہل سنت والجماعت میں عادل اور ثقہ تصور کیے جاتے ہیں

نام و نسب ترمیم

ہند نام، قبیلہ قریش سے تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے ہند بنت عتبہ ابن ربیعہ بن عبد شمس ابن عبد مناف، ہند کا باپ قریش کا سب سے معزز رئیس تھا۔

نکاح ترمیم

فاکہ بن مغیرہ مخزومی سے نکاح ہوا، لیکن پھر کسی وجہ سے جھگڑا ہو گیا، تو ابوسفیان ابن حرب کے عقد میں آئیں جو قبیلہ امیہ کے مشہور سردار تھے۔

عام حالات ترمیم

عتبہ، ابوسفیان اور ہند تینوں کو اسلام سے سخت عداوت تھی اور وہ اسلام کی غیر معمولی ترقی کو نہایت رشک سے دیکھتے تھے، حتی الامکان اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے تھے، ابوجہل ان سب کا سردار تھا۔ لیکن جب غزوہ بدر کے معرکہ میں جو اسلام و کفر کا پہلا معرکہ تھا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور ابوجہل اور عتبہ وغیرہ بھی قتل ہو گئے تو ابوسفیان بن حرب نے جو عتبہ کے داماد تھے۔ اس کی جگہ لی اور ابوجہل کی طرح مکہ میں ان کی سیادت مسلم ہو گئی، چنانچہ بدر کے بعد سے جس قدر معرکے پیش آئے، ابوسفیان سب میں پیش پیش تھے، غزوہ احد انہی کے جوش انتقام کا نتیجہ تھا۔ اس موقع پر ان کے ساتھ ان کی بیوی ہند بھی آئی تھیں، جنھوں نے اپنے باپ کے انتقام میں سنگدلی اور خونخواری کا ایسا خوفناک منظر پیش کیا جس کے تخیل سے بھی جسم لرز اٹھتا ہے، حمزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، انھوں نے عتبہ کو قتل کیا تھا، ہندہ ان کی فکر میں تھیں، چنانچہ انھوں نے وحشی کو جو جبیر بن مطعم کے غلام اور حربہ اندازی میں کمال رکھتے تھے، حمزہ کے قتل پر آمادہ کیا تھا، (یہ وحشی کے قبل از اسلام کا واقعہ ہے) اور یہ اقرار ہوا کہ اس کارگزاری کے صلہ میں وہ آزاد کر دیے جائیں گے، چنانچہ حمزہ جب ان کے برابر آئے تو وحشی نے حربہ پھینک کر مارا جو ناف میں لگا اور پار ہو گیا، حمزہ نے ان پر حملہ کرنا چاہا لیکن لڑکھڑا کر گر پڑے اور روح پرواز کر گئی۔ خاتونان قریش نے انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کی لاشوں سے بھی بدلی لیا تھا۔ ان کے ناک کان کاٹ لیے۔ ہند نے ان پھولوں کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈالا حمزہ کی لاش پر گئیں اور اور انکا پیٹ چاک کر کے کلیجا نکالا اور چبا گئیں۔ لیکن گلے سے اتر ن ہسکا، اس لیے اگل دینا پڑا،( ابوسفیان اور ہند کے یہ سب واقعات اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فعل سے جس قدر صدمہ ہوا تھا، اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے لیکن ایک اور چیز تھی جو ایسے موقعوں پر بھی جبینِ رحمت کو شکن آلود نہیں ہونے دیتی تھی۔

قبول اسلام ترمیم

چنانچہ جب مکہ فتح ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے بیعت لینے کے لیے بیٹھے، تو مستورات میں ہند بھی آئیں، شریف عورتیں نقاب پہنتی تھیں، ہند بھی نقاب پہن کر آئیں جس سے اس وقت یہ غرض بھی تھی کہ کوئئ ان کو پہچاننے نہ پائے بیعت کے وقت انھوں نے نہایت دلیری سے باتیں کیں جو حسب ذیل ہیں۔ ہند! یا رسول اللہ! آپ ہم سے کن باتوں کا اقرار لیتے ہیں۔ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ ہند: یہ اقرار آپ نے مردوں سے تو نہیں لیا، بہرحال ہم کو منظور ہے۔ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) چوری نہ کرنا۔ ہند: میں اپنے شوہر کے مال میں سے کبھی کچھ لے لیا کرتی ہوں معلوم نہیں یہ بھی جائز ہے یا نہیں؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)اولاد کو قتل نہ کرنا۔ ہند:ربینا ہم صغاراوقتلھم کبارافانت وھو اعلم، ہم نے تو اپنے بچوں کو پالا تھا، بڑے ہوئے تو جنگ بدر میں آپ نے ان کو مار ڈالا، اب آپ اور وہ باہم سمجھ لیں، (اس دیدہ دلیری کے باوجود) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند سے درگزر فرمایا، ہند کے قلب پر اس کا بہت اثر ہوا۔ اور ان کے دل نے اندر سے گواہی دی کہ آپ سچے پیغمبر ہیں انھوں نے کہا یا رسول اللہ! اس سے پہلے آپ کے خیمہ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی مبغوض خیمہ نہ تھا لیکن اب آپ کے خیمہ سے زیادہ کوئی محبوب خیمہ میرے نزدیک نہیں ہے، [8]

ہند مسلمان ہو کر گھر گئیں تو اب وہ ہند نہ تھیں، ابن سعد نے لکھا ہے کہ انھوں نے گھر جا کر بت توڑ ڈالا اور کہا کہ ہم تیری طرف سے دھوکے میں تھے، [9] (اسد الغابہ میں ان کے حسن اسلام سے متعلق لکھا ہے کہ اسلمت یوم الفتح و حسن اسلامھا)[10]

غزوات ترمیم

فتح مکہ کے بعد اگرچہ اسلام کو علانیہ غلبہ حاصل ہو گیا تھا اور اس لیے عورتوں کو غزوات میں شریک ہونے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی، تاہم جب عمر کے عہد میں روم و فارس کی مہم پیش آئی تو بعض مقامات میں اس شدت کا رن پڑا۔ کہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی تیغ و خنجر کا کام لینا پڑا۔ چنانچہ شام کی لڑائیوں میں جنگ یرموک ایک یادگار جنگ تھی، اس میں ہند اور ان کے شوہر ابوسفیان دونوں نے شرکت کی اور فوج میں رومیوں کے مقابلہ کا جوش پیدا کیا۔

وفات ترمیم

ہند نے عمر فاروق کے عہد خلافت میں انتقال کیا۔ اسی دن ابوبکر کے والد ابوقحافہ نے بھی وفات پائی تھی۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ ان کی وفات عمر کے زمانہ میں نہیں بلکہ عثمان کے زمانہ میں ہوئی، کتاب الامثال سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ اس میں مذکور ہے کہ جب ابو سفیان نے وفات پائی (ابوسفیان نے عثمان کے زمانہ خلافت میں وفات پائی ہے) تو کسی نے امیر معاویہ سے کہا کہ مجھ سے ہند رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح کردو۔ انھوں نے نہایت متانت سے جوابدیا کہ اب ان کو نکاح کرنے کی ضرورت نہیں۔[9]

اولاد ترمیم

اولاد میں امیر معاویہ زیادہ مشہور ہیں۔

اخلاق ترمیم

ہند میں وہ تمام اوصاف موجود تھے جو ایک عرب عورت کے مابہ الامتیاز ہو سکتے ہیں، صاحب اسد الغابہ نے لکھا ہے۔ "ان میں عزت نفس، غیرت رائے و تدبیر اور دانشمندی پائی جاتی تھی،"[10] فیاض تھیں، ابوسفیان ان کو ان کے حوصلہ کے مطابق خرچ نہیں دیتے تھے اسلام لانے کے وقت جب آنحضرت ﷺ نے ان سے عہد لیا کہ چوری نہ کریں تو انہو ں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابوسفیان مجھے پورا خرچ نہیں دیتے اگر ان سے چھپا کر لوں تو جائز ہے؟ آپ نے اجازت دی۔[11]

حوالہ جات ترمیم

  1. وی آئی اے ایف آئی ڈی: https://viaf.org/viaf/90063515/ — اخذ شدہ بتاریخ: 25 مئی 2018 — ناشر: او سی ایل سی
  2. عنوان : Dictionary of Women WorldwideISBN 978-0-7876-7585-1
  3. طبری،جلد 3 صفحہ 61۔
  4. ابن ہشام،جلد 2 صفحہ 412
  5. ابن سعد، الطبقات، جلد 3، صفحہ12۔
  6. الواقدی، المغازی، جلد 1، صفحہ 285 تا 286
  7. مرآۃالمناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ،مفتی احمد یار خان ،جلد6 صفحہ307
  8. صحیح بخاری
  9. ^ ا ب الإصابہ فی تمييز الصحابہ،مؤلف: أبو الفضل أحمد بن حجر العسقلانی ناشر: دار الكتب العلمیہ - بيروت ج 8ص346
  10. ^ ا ب : أسد الغابہ المؤلف: أبو الحسن علی عز الدين ابن الأثير ناشر: دار الفكر - بيروت ج6ص292
  11. صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1984


<link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:14ھ_کی_وفیات" /> <link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:چھٹی_صدی_کی_پیدائشیں" />