ہیسٹیہ، ہیستیہ، ہیستیا یا ہستیا، قدیم یونانی علم الاساطیر میں ایک دوشيزہ دیوی تھی۔ ہیسٹیہ کو چُولہوں اور آتش دانوں کی دیوی مانا جاتا تھا اور چونکہ قربانی کی رسموں میں آتش دانوں کا اہم کردار ہوتا تھا، اِس لیے پہلی قربانی اِسی ہی کے نام چڑھائی جاتی تھی۔ اور جس طرح چُولہا ہر گھر کی زینت بھی ہوتا تھا، اِس کو خاندان اور عام گھریلو کیفیت میں سُدھار لانے کے لیے پُوجا جاتا تھا۔ یونانی اساطیر میں یہ کرونس اور ریہہ کی پہلی بیٹی تھی۔ اِس کے تین بھائی تھے جن کا نام پوسائڈن، ہادس اور زیوس تھا۔ اِس کی دو بہنیں بھی تھیں جن کا نام ڈیمیٹر اور ہیرہ تھا۔

ہیسٹیہ
گھر، خاندان، ریاست اور رہائش کی دیوی
ذاتی معلومات
والدینکرونس و ریہہ
بہن بھائیDemeter، ہیرہ، Hades، پوسائڈن، زیوس، Chiron
رومی مساویVesta

اساطیر کے مطابق، ہیسٹیہ ایک لکڑی کے تخت پر اُون کا تکیہ لے کر بیٹھتی تھی اور اپنی آجزی میں اِس نے اپنے لیے کسی علامت کا امتیاز بھی نہیں کیا۔ چُنانچہ اِسے ایک رحَم دل، مہَربان اور عاجز دیوی سمجھا جاتا ہے۔ یونانی لوگ جہاں بھی ایک نئی بستی بساتے تھے وہاں اپنی سابقہ بستی کے عوامی آتش دان کے کچھ حصّوں سے سب سے پہلے ہیسٹیہ کے نام ایک قربان گاہ کھڑی کرتے تھے۔

علم اشتقاق ترمیم

ہسٹیا کے نام کا مطلب "چولھا ، چمنی ، قربان گاہ" ہے [1] ۔ یہ پروٹو انڈین زبان کے مادے *wes سے نکلا ہے جس کی تعریف ("رہو ، رات گزارو ، ٹھہر جاؤ") کی جاتی ہے [2] [3] [4]۔ سنسکرت میں اس کے لیے لفظ "او واسا" بھی ہ،۔ اسی طرح انڈین ایرانی میں "ہو واسا" بھی۔ جس اس سے مشتق معنی "جلنا" ، "آتش"، "جہنم" بھی ہیں۔ اس طرح اس سے مراد خانگی، گھر، گھریلو ، مکان یا کنبہ ہے۔ مندر کی ابتدائی شکل آتشدان ہے: ڈریروس اور پرنسیاس کے ابتدائی مندر اس نوعیت کے ہیں جیسا کہ ڈیلفی میں واقع اپولو کا مندر جس میں ہمیشہ ہسٹیہ موجود رہی [5] ۔


زندگی ترمیم

پیدائش ترمیم

ہیسٹیہ، کرونس اور ریہہ کے ہاں پیدہ ہونے والی پہلی اولاد تھی۔ اِس کی پیدائش کے وقت، کرونس کو اِس بات کا علم ہو چلا تھا کہ اِس ہی کی اولاد میں سے ایک اِس کا تخت اُلٹ دے گی۔ اِسی وجہ کو بُنیاد بنا کر کرونس نے یہ ٹھان لی کہ آئندہ پیدہ ہونے والی ہر اولاد کو وہ مار ڈالے گا البتہ کرونس نے یہ مُناسب سمجھا کہ وہ اپنے بچوں کو کھا جائے تاکہ یہ اُس کے پیٹ میں ہی ہمیشہ جیوت رہیں اور یوں عُمر بھر کی قید میں اپنی سزا کاٹیں۔

کرونس کے پیٹ سے رہائی ترمیم

قِسمت نے بازی تب پلٹی جب کرونس کی بیوی ریہہ نے زیوس کو اِس درندگی سے بچانے کے لیے اُسے ایک غار میں جنم دیا۔ زیوس نے بڑے ہو کر کرونس کو ایک ایسی عقِیق دَوا دے ڈالی جس سے اُس کے پیٹ میں پڑی ہر چیز باہر آ گئی۔ ہیسٹیہ کرونس کے پیٹ میں جانے والی پہلی اولاد تھی لیکن نکلنے والی آخری؛ اِس لحاض سے اِسے کرونس کی پہلی اولاد اور آخری اولاد بھی تصّور کیا جاتا ہے۔ پیٹ سے اُگلے جانے کے بعد کرونس کے تمام بچوں نے اپنے باپ سے اُس کی درندگی کا اِنتقام لیا۔ بدلہ لینے کے بعد ہیسٹیہ کو دو شادی کی درخواستیں آئیں، ایک پوسائڈن کی طرف سے اور ایک اپالو کی طرف سے ؛ ہیسٹیہ نے اِن دونوں کو ہی ٹھُکرا دیا اور زیوس کے سر کی قسم کھا کر ہمیشہ دوشیزہ رہنے کا اعلان کیا۔

ہیسٹیہ کی اساطیری پہچان ترمیم

کرونس اور ریہہ کی پہلی (اور کرونس کے پیٹ سے اُگلے جانے کے اعتبار سے آخری) بیٹی ہونے کے ناتے، گھر کی ہر دعوت میں ہیسٹیہ کے نام شراب کا پہلا اور آخری پیالہ لیا جاتا تھا۔ ہر یونانی بستی میں ایک عوامی آتش گاہ ہوا کرتی تھی جو ہیسٹیہ کی نذر دی جاتی تھی۔ اِس مرکزی عوامی آتش گاہ کی یہ اہمیت تھی کہ بستی میں آنے والے تمام بیرونی سفیروں اور مہمانوں کو اِس کے گرد ہی دعوت دی جاتی تھی۔

ہیسٹیہ کی حمد میں، ہومر کا مناجاتی گیت نمبر 24، اِس دیوی کی اِستمداد کُچھ یوں کرتا ہے:

: اے ہیسٹیہ، اپالو کے گھر کی نگہبان،

نیک پِتھو کی مُحافِظ دیوی،
جس کی زلفوں سے ہر دم تیل ٹپکتا ہے:
میرے گھر کا بھی رُخ کر، پاس آ؛
آ، زیوس کی پیروی میں: میرے گیت کو اپنا فضل بخش۔

بارہ اولمپوی دیوتاؤں میں شمار ترمیم

ہیسٹیہ یونانی اساطیر کے بارہ عظیم اولمپوی دیوتاؤں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ البتہ، اِس کی جگہ اکثر دیونیسوس کو بارھواں دیوتا بھی تصّور کیا جاتا ہے۔ اِس تضاد کو حل کرنے کے لیے قدیم یونانی ماہر اساطیر یہ بتاتے ہیں کہ ہیسٹیہ نے اولمپوی دیوتاؤں میں اپنی نشست خُود دیونیسوس کے لیے چھوڑ دی اور اِسے بارھواں اولمپوی دیوتا بننے کا نصیب عطا کیا۔ اپنی یہ اہم نشست چھوڑنے کے بعد بھی ہیسٹیہ کا رتبہ ختم نہیں ہوا بلکہ اِس کی خاکساری اور عاجزی کا ہی چرچہ بُلند ہوتا چلا گیا۔ بَہَر حال، ہیسٹیہ کو اولمپوی دیوتاؤں میں سب سے عمر دراز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

عبادت ترمیم

ہسٹیہ کا نام اور افعال قدیم یونان کی سماجی ، مذہبی اور سیاسی زندگی میں انگیٹھی کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ گرمی ، کھانے کی تیاری اور دیوتاؤں کو قربانی کی تکمیل کے لیے چولھا ضروری تھا۔ اسے دعوت کے موقع پر شراب کا پہلا اور آخری نذرانہ بھی پیش کیا جاتا تھا [6]۔ اس کا اپنا قربانی کا جانور ایک گھریلو سور تھا [7]۔ پوسانیاس لکھتا ہے کہ الینز(Eleans) پہلے ہسٹیہ اور پھر دوسرے دیوتاؤں کے لیے قربانی پیش کرتے [8]۔ سائروپیڈیا میں زینوفون نے لکھا ہے کہ سائرس عظیم نے پہلے ہیسٹیہ کو ، پھر خود مختار زیوس کو اور پھر کسی دوسرے خدا کے لیے قربانی دی جس کا میگی نے مشورہ دیا تھا [9]۔ ہسٹیہ کے لیے آرفیس سے منسوب ایک پراسرار مناجات [10] بھی ہے۔ مشہور قدیم یونانی پنڈر کی نظموں میں بھی ہسٹیہ کا ذکر موجود ہے [11] [12]۔ 350-325 قبل مسیح میں آریس اور ایتھنہ آریا کے حرم سے اچرنائی کے مقام پر فوجی حلف کے ساتھ ہسٹیہ کے لیے خراج تحسین پائے گئے [13] [14]۔

حوالہ جات ترمیم

  1. R. S. P. Beekes. Etymological Dictionary of Greek, Brill, 2009, p. 471.
  2. Calvert Watkins, "wes-", in: The American Heritage Dictionary of Indo-European Roots. Houghton Mifflin Harcourt, Boston 1985 (web archive).
  3. J. P. Mallory، D. Q. Adams (2006-08-24)۔ The Oxford Introduction to Proto-Indo-European and the Proto-Indo-European World (بزبان انگریزی)۔ OUP Oxford۔ صفحہ: 220۔ ISBN 978-0-19-928791-8 
  4. M. L. West (2007-05-24)۔ Indo-European Poetry and Myth (بزبان انگریزی)۔ OUP Oxford۔ صفحہ: 145۔ ISBN 978-0-19-928075-9 
  5. Burkert, p. 61.
  6. Homeric Hymn 29, tr. Evelyn-White, Hugh G.
  7. , Bremmer, Jan. N., in Ogden, D. (Ed). (2010). A Companion to Greek Religion, Wiley-Blackwell, Google Books preview, p. 134, آئی ایس بی این 978-1-4443-3417-3.
  8. Pausanias, Description of Greece, 5.14.4
  9. Xenophon, Cyropaedia, 7.5.57
  10. THE ORPHIC HYMN TO HESTIA
  11. Pindar, Nemean Odes, 11.1, EN
  12. Pindar, Nemean Odes, 11.1, GR
  13. Attic Inscriptions Online, 17
  14. Friedlander, Paul. (1945). Documents of Dying Paganism. University of California Press.