یوم تکبیر ، پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے۔ اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ‏پاکستان دنیا کا واحد مسلم جوہری طاقت والا ملک ہے۔‏

یوم تکبیر
Youm-e-Takbir
یوم تکبیر Youm-e-Takbir
پاکستان کی طرف سے سب سے پہلے انجام دیے کیے ایٹمی دھماکے, 28 مئی 1998ء.
کی طرف سے منایا پاکستان
قسمقومی
تاریخمئی 28
تقریباتپرچم کشائی, جوہری توانائی نمائش, انعامی تقریب, قومی ترانے, تفریحی اور عسکری پروگرام, تقاریر, وغیرہ

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کے مطابق 28 مئی کو کیے گئے ٹیسٹوں سے ریکٹر اسکیل پر زلزلے کے 5.0 سگنل پیدا ہوئے ، جس کی مجموعی پیداوار 40 KT تک ہے۔

پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعوی کیا ہے کہ ایک ڈیوائس افزائش پزیر آلہ تھی اور باقی چار ذیلی کلوٹن ایٹمی آلات تھے۔ اس کے بعد 30 مئی 1998ء کو ، پاکستان نے 12 کلوٹن کی پیداوار کے ساتھ ایک اور جوہری تجربہ کیا۔

چاغی اول ترمیم

یہ جوہری تجربہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے راس کوہ پہاڑیوں میں کیا گیا۔ چاغی اول پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کا پہلا تجربہ تھا۔ یہ 11 اور 13 مئی 1998ء کو ہندوستان کے دوسرے جوہری تجربوں کا اسٹریٹجک جواب تھا۔ ٹیسٹوں کی کل تعداد چھ تھی۔

آپریشن بریسٹاسکس ترمیم

بھارتی فوج کے ذریعہ منصوبہ بند اور اس پر عمل درآمد کیا جانے والا ، آپریشن بریسٹ اسٹیکس ، ہندوستان کی ریاست راجستھان میں ، ہندوستان کی مسلح افواج کا ایک مشترکہ اسلحہ فوجی مشق تھا ، جو پاکستان کی سرحد سے متصل ہے۔ یہ 1986ء میں ہوا تھا۔

جب کہ ہندوستان کا دعوی ہے کہ یہ کارروائی محض ہندوستانی جنگ میں نئے تصورات کی جانچ پڑتال کے لیے کی گئی تھی ، 600،000 سے زائد ہندوستانی فوجیوں کو پاکستان کی سرحد کے قریب جمع کیا گیا تھا - یہی وجہ ہے کہ بہت سے دعوے آپریشن بریسٹاسکس کے گرد گھومتے ہیں ، یہ ایک فوجی مشق نہیں ، بلکہ ایک اسکیم ہے پاکستان کے ساتھ چوتھی جنگ کے لیے صورت حال پیدا کریں۔

مئی 1998ء میں بھارت نے پانچ جوہری دھماکے کیے۔ اور اس کا جواب پاکستان نے چھ دھماکوں ایٹمی دھماکوں سے دیا۔

پس منظر ترمیم

بھارت عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک 1974ء میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطّے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لیے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا مزید یہ بھی کہ بھارت ایٹمی قوت بنّے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کر چکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطہ میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا تھا۔ اس لیے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔

18مئی 1974ء کو بھارت نے راجستھان میں مسکراتا بوھدا (smiling bhudha) نامی ایٹمی دھماکے کیے۔ تو جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے این پی ٹی NPT non proliferation treaty پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایٹم بم بنانا بہت اہم ہو گیا تھا۔ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔ 1977ء میں محمد ضیاء الحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے اہم اقدام اٹھائے۔ حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا۔ پاکستان نے اس مقصد کے لیے یورپ ، مشرق وسطیٰ، سنگاپور اور بھارت میں ISI کے خاص تربیت یافتہ ایجنٹوں کا ایک جال بچھا دیا گیا، جو حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدتے اور انھیں پاکستان میں مختلف ممالک کے راستے منتقل کر دیتے تھے۔ امریکا کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ تو امریکا نے فرانس،جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دی کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کرے جو پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیش رفت کا باعث بنے۔ لیکن جرمنی نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو ٹریشئم ٹیکنالوجی فراہم کی جو جدید جوہری بم میں استعمال ہوتی تھی۔ اس بات کا انکشاف پاکستان کے سابقہ سفارتکار جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کو یورنیم افزودگی کا معیار پرکھنے والا آلہ سپکٹرو میٹر اور ٹریشئم ٹیکنالوجی سمت اور بہت سارے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا۔ آئی ایس آئی کے ایجنٹ ان حساس آلات کو خریدنے کے بعد مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کرتے تھے۔ ‎ISI نے اس مقصد کے لیے سنگاپور میں ایک فرم بھی بنا رکھی تھی۔ پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایا تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ایک چھوٹی سی بھی غلطی سارے پروگرام کو تباہ و برباد کر سکتی تھی۔ اس سارے پروسیس میں پاکستانی حاکم ضیاء الحق کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ایلومینیئم پرت کے پائپوں کو خرید کر پاکستان لانا تھا۔ کیونکہ امریکا نے ایلومینیئم پرت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر رکھی تھی ۔ جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ایلومینیئم پرت کے پائپ خریدنے کے بعد سنگاپور کے راستے پاکستان کیسے لائے جائیں۔ یاد رہے ایلومینیئم پرت یورینیم کو خالص کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سنگاپور کے راستے ایلومینیئم پرت کے پائپ پاکستان لانے کے لیے پاکستانی جہازوں کا بھارت میں فیول ڈالوانے کے لیے بھارت ٹھہرنا لازمی تھا۔ جبکہ پاکستانی حکام اس بات کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ کیونکہ حساس ترین آلات بھارت کے ہاتھ نہ لگ جائیں ، جس کے بعد بھارت ثبوتوں کیساتھ دنیا میں واویلا مچانا شروع کر دے یہ انتہائی سنگین ترین مسئلہ تھا۔ کیونکہ سنگاپور کے علاؤہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ یہ بظاہر ایک ناممکن ترین مشن تھا۔ کہ آپ نے اپنی سب سے خفیہ اور حساس ترین چیز اپنے سب سے بڑے دشمن کی نظروں کے سامنے سے لے کر جانی تھیں۔ ذرہ سا شک بھی سارے پلان کو دفن کر سکتا تھا۔ مگر اس مشکل ترین مشن کا بیڑا بھی آئی ایس آئی کے سر پھرے مارخوروں نے اٹھایا ہوا تھا۔ آئی ایس آئی کے مارخوروں نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ حساس آلات پر بھارت کی نظر بھی نہیں پڑنے دیں گے۔ اس مقصد کے لیے آئی ایس آئی کے سپیشل کمانڈ کو پہلے بھارت اور سنگاپور کے ائیرپورٹوں پر تعینات کیا گیا۔ اور پھر بالکل کامیابی کے ساتھ نیوکلیئر سامان سے بھرے ہوئے جہاز بھارت کے ائیرپورٹ پر اترے، کئی گھنٹے انتظار کرنے کے بعد تیل ڈلوایا اور پاکستان آئے۔ بھارت جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن تھا اس سارے معاملے میں بے خبر رہا کہ پاکستان اس کے ائیرپورٹ کو نیوکلیئر سامان کی منتقلی کے لیے استعمال کر چکا تھا۔ یہ دنیاکی نظر میں ناممکن ترین مشن تھا۔جسے آئی ایس آئی نے ممکن کر دیکھایا۔

حوالہ جات ترمیم

[1]