یہودیت میں نیلا رنگ

یہودیت میں رنگ کی علامت

یہودیت میں نیلا رنگ الوہیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ نیلے رنگ کے زمرہ میں آسمان اور دریا آتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ نیلا رنگ سیاہ و سفید کے درمیان میں حد ہے۔ یعنی دن اور رات میں حد فاصل ہے۔ اور رنگ توازن یا عدل بھی ہے۔

نیلے تکلت کے دھاگوں والا صیصیت (جھالر) کا ایک سیٹ

تورات میں، بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے پراہنوں کے کناروں پر جھالریں لگائیں اور ہر کنارے کی جھالر کے اوپر آسمانی رنگ کا ذورا ٹانکیں، نیلا رنگ آسمانی رنگ ہے اور اس کا یہ مقصد تھا کہ وہ انھیں پاکیزگی اور فرمابرداری کی یاد دلائے۔[1][2] زبانی قانون کے مطابق، جیسے کہ ربیائی ادب کی کتاب ہیلازون میں مذکور ہے کہ یہ نیلا رنگ سمندری مخلوق (کوئی بھی جاندار یا بے جان چیز) سے نکالا (تیار) کیا جائے۔ موسی بن میمون نے دعوا کیا کہ یہ نیلا رنگ صاف دوپہری (دوپہر کے وقت کا روشن) آسمان ہے، جب کہ راشی کے بقول یہ شام کے وقت کے آسمان کا رنگ ہے۔[3]

دور قدیم میں، مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے لوگ نیلے رنگ کو خوش قسمتی کا رنگ تصور کرتے تھے، جب کہ عرب اس کے برعکس یقین رکھتے تھے۔ ان خطوں کے یہودیوں نے اپنے دروازوں کی چوکھٹوں اور دیگر حصوں پر نیلا رنگ کرتے، اپنے بچوں کو نیلے ربن سے نشانی لگاتے اور یہ رنگ حفاظتی تعویزوں میں استمعال کیا جاتا۔[4] نیلے رنگ کو بد نظری سے بچاؤ کے لیے مشثر مانا جاتا ہے، اس کی ممکنہ وجہ سامیوں کے لیے نیلے رنگ کا نایاب ہونا بھی ہے اور نیلا رنگ پودوں اور جانوروں میں بھی نایاب ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. کتاب گنتی 15: 38۔
  2. تفسیر الکتاب، ولیم میکڈونلڈ، جلد اول (پیدائش تا استثنا)، صفحہ 264، مسیحی اشاعت خانہ، لاہور 2009ء
  3. Mishneh Torah، Tzitzit 2:1; Commentary on Numbers 15:38.
  4. Ellen Frankel، Betsy Platkin Teutsch (1992)۔ The Encyclopedia of Jewish Symbols (بزبان انگریزی)۔ Rowman & Littlefield۔ ISBN 978-0-87668-594-5۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2018 

مزید پڑھیے ترمیم

بیرونی روابط ترمیم