اہل الحدیث٬ صدی گیارہ ہجری (سترویں صدی عیسوی) میں محمد بن عبد الوہاب کی تحریک کے دوران منظر عام پر آئے۔ اہل الرائے اور اہل القرآن کے برخلاف اس تفرقے میں احادیثِ نبوی کی اسناد پر زور دیا جاتا ہے یعنی اہل الرائے کی طرح تقلید پر قائم نہیں ہوتے یہ لوگ ائمہ اہلسنت کی تقلید نہیں کرتے یہ خود اجتہاد کرتے ہیں ان کا ماننا ہیں کہ سب بدعت کے قریب ہیں اور ہم بدعت سے دور ہیں[1]۔ اہل حدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کے بعد حدیث کو اپنی زندگی کا مشعل راہ بنایا جائے اگرکسی معاملہ میں قرآن و حدیث سے مسئلہ کی وضاحت نہ ہو تو مجتہدین، کے اجتہادات کو دیکھا جائے جس کا اجتہاد، قرآن اور حدیث کے زیادہ نزدیک ہے اسے لے لیا جائے جو نا موافق ہو اسے رد کر دیا جائے۔ اہل حدیث کے نزدیک خبر احاد عقائد، احکام اور مسائل میں حجت ہے جبکہ حدیث کی متابعت (یعنی اطاعت) قرآن کی آیات کے اتباع کے برابر ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی سورت النجم کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے : وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (ترجمہ: اور نہیں بولتا ہے وہ اپنی خواہشِ نفس سے، نہیں ہے یہ کلام مگر ایک وحی جو نازل کی جا رہی ہے۔ قرآن سورہ النجم آیت 3 تا 4)[2]۔ آج کل ہندوستان اور پاکستان میں اہل حدیث سے مراد اس گروہ کی جاتی ہے کہ جو حنبلی سے قریب ہیں لیکن کسی ایک امام کی پیروی کا دعویٰ نہیں کرتے۔

وہابی اہل حدیث
مذہب اسلام
رہنما [[محمد بن عبد الوہاب ]
اشخاص صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
مقام ابتدا نجد (ریاض)حجاز
تاریخ ابتدا 1703 عیسوی
ارکان حدیث نبوی کی اعتنا
ابتدا وہابی

اہل حدیث سے مراد ترمیم

اہل حدیث کا لفظ عربی زبان میں محدثین کے لیے استعمال ہوتا رہاہے۔ اگرچہ محمد ابن عبد الوھاب کی تحریک جو سترھویں صدی میں شروع ہوئی اس کے بعد یہ لفظ ایک خاص فرقے کے لیے استعمال ہونے لگا مسلمانوں میں جو غیرمقلد ہیں احکامِ شرعیہ میں۔ اہل حدیث کی اصطلاح اب اس گروہ کی پہچان رہی جو سنت نبویہ کی تعظیم اوراس کی نشراشاعت کا کام کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے عقیدہ جیسا اعتقاد رکھتا اورکتاب وسنت کوسمجھنے کے لیے فہم صحابہ رضي اللہ تعالی عنہم پرعمل کرتے جو خیرالقرون سے تعلق رکھتے ہیں، اس سے وہ لوگ مراد نہیں جن کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے خلاف اوروہ صرف عقل اوررائ اوراپنے ذوق اورخوابوں پراعمال کی بنیادرکھتے اوررجوع کرتے ہيں۔ اہل حدیث خود کو وہ گروہ اورفرقہ ہے جوفرقہ ناجيہ اورطائفہ منصورہ جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :

( ہروقت میری امت سے ایک گروہ حق پر رہے گا جو بھی انھیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہيں نقصان نہیں دے سکے گا، حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجائے تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1920 ) ۔[3]

بہت سارے اہل حدیث ائمہ کرام نے اس حدیث میں مذکور گروہ سے بھی اہل حدیث ہی مقصودو مراد لیا ہے ۔

تواس سے یہ ظاہرہوا کہ فرقہ ناجیہ کے حقدارصرف اورصرف اہل حدیث و سنت ہی ہیں، جن کے متبعین صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اورکسی اورکے لیے تعصب نہیں کرتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واحوال کوبھی اہل حدیث ہی سب سے زيادہ جانتے اوراس کا علم رکھتے ہيں، اوراحادیث صحیحہ اورضعیفہ کے درمیان بھی سب سے زيادو وہی تیمیز کرتے ہيں، ان کے ائمہ میں فقہا بھی ہیں تواحادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے بھی اوران احادیث کی تصدیق ،اورعمل کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے والے بھی، وہ محبت ان سے کرتے ہیں جواحادیث سے محبت کرتا ہے اورجواحادیث سے دشمنی کرے وہ اس کے دشمن ہيں۔ وہ کسی قول کو نہ تومنسوب ہی کرتے اورنہ ہی اس وقت تک اسے اصول دین بناتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو، بلکہ وہ اپنے اعتقاد اور اعتماد کا اصل اسے ہی قرار دیتے ہیں جوکتاب وسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔ اور جن مسا‏ئل میں لوگوں نے اختلاف کیا مثلا اسماءو صفات، قدر، وعید، امربالمعروف والنھی عن المنکر ،وغیرہ کواللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاتے ہیں، اورمجمل الفاظ جن میں لوگوں کا اختلاف ہے کی تفسیر کرتے ہیں، جس کا معنی قران وسنت کے موافق ہو اسے ثابت کرتے اورجوکتاب وسنت کے مخالف ہواسے باطل قرار دیتے ہیں، اورنہ ہی وہ ظن خواہشات کی پیروی کرتے ہيں، اس لیے کہ ظن کی اتباع جھالت اوراللہ کی ھدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی ظلم ہے۔ مجموع الفتاوی ( 3/347 ) ۔[4]

ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے۔ اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے۔ اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں[5]

  • امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی بہت اچھی تفسیر اورشرح کی ہے جس میں یہ بیان کیا گيا کہ طائفہ منصورہ جوقیامت تک قائم رہے گا اوراسے کوئی بھی ذلیل نہیں کرسکے گا، وہ اہل حدیث ہی ہيں۔ تواس تاویل کا ان لوگوں سے زیادہ کون حق دار ہے جو صالیحین کے طریقے پرچلیں اورسلف کے آثارکی اتباع کریں اوربدعتیوں اورسنت کے مخالفوں کوسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دبا کررکھیں اورانہیں ختم کر دیں۔ دیکھیں کتاب : معرفۃ علوم الحديث للحاکم نیسابوری ص ( 2 - 3 ) ۔[6]

اللہ تعالی نے انھیں ( اہل حدیث ) کوارکان شریعت بنایا اور ان کے ذریعہ سے ہرشنیع بدعت کی سرکوبی فرمائ‏ تویہ لوگ اللہ تعالی کی مخلوق میں اللہ تعالی کے امین ہیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی امت کے درمیان واسطہ و رابطہ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کی حفاظت میں کوئی‏ دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ ان کی روشنی واضح اور ان کے فضائل پھیلے ہوئے اوران کے اوصاف روز روشن کی طرح عیاں ہيں، ان کا مسلک ومذھب واضح و ظاہر اور ان کے دلائل قاطع ہیں اہل حدیث کے علاوہ ہر ایک گروہ اپنی خواہشات کی پیچھے چلتا اور اپنی رائے ہی بہترقرار دیتا ہے جس پراس کا انحصار ہوتا ہے۔ لیکن اہل حدیث یہ کام نہیں کرتے اس لیے کہ کتاب اللہ ان کا اسلحہ اورسنت نبویہ ان کی دلیل و حجت ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا گروہ ہیں اوران کی طرف ہی ان کی نسبت ہے۔ وہ اھواء وخواہشا ت پرانحصار نہیں کرتے اورنہ ہی آراء کی طرف ان کا التفات ہے جوبھی انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کی ان سے وہ قبول کی جاتی ہیں، وہ حدیث کے امین اور اس پرعدل کرنے والے ہیں۔ اہل حدیث دین کے محافظ اوراسے کے دربان ہيں، علم کے خزانے اورحامل ہیں،جب کسی حدیث میں اختلاف پیدا ہوجائے تواہل حدیث کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے اورجو وہ اس پرحکم لگا دیں وہ قبول ہوتااورقابل سماعت ہوتا ہے۔ ان میں فقیہ عالم بھی اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کے امام بھی، اورزھد میں یدطولی رکھنے والے بھی، اورخصوصی فضیلت رکھنے والے بھی، اورمتقن قاری بھی بہت اچھے خطیب بھی، اوروہ جمہورعظیم بھی ہیں ان کا راستہ صراط مستقیم ہے، اورہربدعتی ان کے اعتقاد سے مخالفت کرتا ہے اوران کے مذہب کے بغیر کامیابی اورسراٹھانا ممکن نہیں۔ جس نے ان کے خلاف سازش کی اللہ تعالی نے اسے نیست نابود کر دیا، جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالی نے اسے ذلیل ورسوا کر دیا، جوانہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے وہ انھیں کچھ بھی نقصان نہيں دے سکتا، جوانہیں چھوڑ کرعلیحدہ ہوا کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اپنی دین کی احتیاط اورحفاظت کرنے والا ان کی راہنمائ کا فقیر ومحتاج ہے، اوران کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں تھک کرختم ہوجائيں گی، اوراللہ تعالی ان کی مدد و نصرت کرنے پرقادر ہے۔ دیکھیں کتاب : شرف اصحاب الحدیث ص ( 15 ) ۔[7]

چند وضاحتیں ترمیم

  1. جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں ذکر آیا کہ اہل حدیث ہر مسلمان ہوتا ہے اور اسی طرح اہل سنت بھی ہر مسلمان ہے لیکن اس کے باوجود اس قسم کے نام اسلام میں مختلف تفرقوں کے مابین تفریق واضح کرنے کے لیے الگ الگ گروہوں کے ليے ہی مستعمل دیکھے جاتے ہیں اور یہ استعمال عام اخبار سے لے کر علمی نوعیت کی کتب تک عیاں ہے۔
  2. اہل حدیث کو وہابی بھی کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ تحریک محمد بن عبدالوہاب کی تحریک سے ملتی جلتی ہے حالانکہ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک سترھویں صدی میں واقع ہونے والی تحریک ہے۔[8]
  3. یہ خیال غلط ہے کہ غیر مقلدین کے نزدیک ہر بلااسباب مشکل کشائی کرنے والا خدا ہے[9] ایسا کوئی بیان اہل حدیث کی اپنی کتب سے نہیں ملتا۔
  4. انھیں اثری (یعنی روایت والے)، سلفی (یعنی سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے والے)، محمدی اور اہلسنت ( یعنی سنت والے) بھی کہا جاتا ہے[10] یہ تمام نام عمومی طور پر ہر مسلمان کے ليے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
  5. # اہل سنت کے بارے میں مزید وضاحت اگلے قطعے میں آجائے گی۔
  6. # سلفی کا لفظ آج کل سیاسی و تفرقات کے سلسلے میں اپنے اصل مفہوم سے خاصہ مختلف مفہوم بنا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ سلفی کا لفظ اصل میں سلف سے بنا ہے اور ہر وہ مسلمان جو اسلاف کی تعلیمات پر چلتا ہو وہ سلفی ہے ؛ مختلف عقائد کے فرقے بننے سے قبل تمام اہل اسلام سلفیت ہی پر قائم تھے۔

اصلی اہل سنت کا دعویٰ ترمیم

اہل الحدیث اپنے آپ کو اصلی أهل السنة والجماعة کہتے ہیں اور اہلسنت سے اہل الحدیث ہی مراد لیتے ہیں جیسا کہ ناصر بن عبد الکریم العقل نے لکھا

  • اہلسنت والجماعت وہ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسا طرز زندگی اختیار کرتے ہیں۔ انھیں اہل سنت، نبی کی پیروی کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور الجماعت، ان کے حق پر متفق ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ دین میں فرقہ بندی نہیں کرتے اور آئمۂ حق سے اختلاف نہیں کرتے، جن مسائل پر سلف کا اجماع ہے اسے تسلیم کرتے ہیں۔ انھیں اہل حدیث، اہل اثر، اہل اتباع، طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نبی اور سلف صالحین کے پیروکار ہوتے ہیں۔[11]

یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اصلی أهل السنة والجماعة کا لقب ؛ اہل حدیث ہی نہیں بلکہ دیگر غیر مقلدین جیسے سلفی،[12] مقلدین جیسے بریلوی،[13] اہل تشیع[14] اور صوفیا[15] سمیت ہر فرقہ خود اپنے ليے استعمال کرتا ہے۔

حدیث اور سنت میں فرق ترمیم

اہل حدیث کے مطالعے کے دوران اس عام غلط فہمی کو دور کرنا لازم ہے جس کے تحت حدیث کو سنت کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ شریعت میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔[16] کہا جاتا ہے کہ اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے ؛ سنت میں رسول کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر تقریر اور یا کسی عبادت کا طریقہ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے ؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمد کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران اس راوی کی حیثیت، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔

جدول اول۔ حدیث اور سنت کے فرق کی وضاحت
    1. حدیث کا لفظ، حدث سے بنا ہے۔
    2. حدث کے معنی ؛ نیا واقعہ، خبر اور بات / قول
    3. حدیث، صرف الفاظ ہیں، جیسے قرآن۔
    4. حدیث، منہ سے ادا ہو کر منتقل ہوتی ہے
    5. حدیث، سنت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے
    6. حدیث، پیغمبر یا صحابہ کے اقوال اور تقریر
    7. حدیث ؛ کو قرآن کی طرح عملی طور پر سمجھنے کے ليے سنت کی ضرورت ہے
    8. حدیث ؛ ایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچتی ہے اور انفرادی ہونے کی وجہ سے منتقلی کے دوران نقص آجانے کا احتمال زیادہ ہے
      1. سنت کا لفظ سنن سے بنا ہے
      2. سنت کے معنی ؛ راہ، طریقہ اور رواج
      3. سنت، الفاظ کا عملی نمونہ
      4. سنت، معمولات زندگی کی صورت منتقل ہوتی ہے
      5. سنت، قرآن سے مربوط ہوکر شریعت بناتی ہے
      6. سنت، قرآن اور پیغمبر کے اقوال پر عمل پیرا ہونے کا طریقہ
      7. سنت ؛ نبی اور ان کے بعد صحابہ کے احکام، امتناع، اقوال، عمل و فعل
      8. سنت ؛ ایک عہد کی نسل سے دوسری نسل تک پہنچتی ہے اور اجتماعی ہونے کی وجہ سے منتقلی کے دوران نقص کا احتمال کم ہے

      سنت کا نمونہ پیغمر نے پیش کیا اور پھر اس کے بعد اصحاب اکرام اور تابعین سے ہوتا ہوا موجودہ زمانے تک پہنچا ہے اسی ليے اس میں امت کے اجتماعی درست طریقۂ کار یا راہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عموماً اس کے ساتھ الجماعت کا لفظ لگا کر سنت و الجماع بھی کہا جاتا ہے۔[17]

      حدیث اور سنت کا فرق مفہوم کے لحاظ سے اسلامی شریعت میں پایا جاتا ہے لیکن اس فرق سے کسی ایک کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ دونوں ہی اپنی جگہ مسلم ہیں اور حدیث کے بغیر سنت اور شریعت کا علم، دونوں سے کوئی ایک تشکیل نہیں پاسکتا۔ مفتی عبدالجلیل کے مطابق ؛ حدیث کو رد کرنے کا رحجان مغرب کی استعماریت سے مقابل آنے کے ليے اس سے متصادم اسلامی نظریات کو رد کرنے والے جدت پسندوں کی جانب سے بیسویں صدی کے اوائل میں بھی سامنے آیا،[18] ان ہی میں سے ایک شخص عبداللہ چکرالوی نے احادیث کو یکسر رد کر کہ اہل القرآن کی بنیاد ڈالی[1]۔ دوسری جانب اہل حدیث بھی انتہا پر پہنچے ہوئے ہیں؛ ان کے نزدیک حدیث کی متابعت، قرآن شریف کی آیات کے اتباع کے برابر ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے خود رسول (کی دین سے متعلق) ہر بات کو اللہ کی اجازت سے ہونے کی ضمانت دی ہے اور اس سلسلے میں سورت النجم کی ابتدائی 15 آیات بکثرت حوالے کے طور پیش کی جاتی ہیں[2]، اس سورت کے حوالے میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ سورت میں اللہ تعالیٰ کا اشارہ، محمد کے اس قول کی جانب ہے جو قرآن کی صورت نازل ہو رہا تھا۔ سنت اور حدیث کا لفظ امامیان اور وفقہا مختلف مفہوم رکھتا ہے؛ حدیث، سنت کا حصہ ہوتی ہے لیکن سنت صرف حدیث نہیں ہوتی۔ امام شافعی نے کہا

      میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو تمام سنت اور احادیث کو جانتا ہو۔ اگر احادیث کا علم رکھنے والے علما کے علم کو یکجا کیا جاۓ تو صرف اسی حالت میں تمام سنت آشکار ہوسکتی ہے۔ چونکہ ماہرین حدیث دنیا کے ہر گوشے میں پھیلے ہیں اس وجہ سے بہت سی احادیث ایسی ہوں گی جن تک ایک عالم حدیث کی رسائی نہ ہوگی لیکن اگر ایک عالم ان سے نا آشنا ہے تو دوسروں کو ان کا علم ہوگا[19]

      تاریخی جائزہ ترمیم

      اس اصطلاح یا بالفاظ دیگر اس گروہ کی شکل آٹھویں صدی عیسوی کے اواخر سے ظہور پانے لگی تھی؛ 744ء میں خلیفہ یزید ابن الولید کی موت پر متعدد علما کے خیال میں امت کے زوال کا آغاز ہو رہا تھا اور ان کے نزدیک اس کی وجہ مختلف سطحوں پر قرآن کی مختلف توجیہات (مختلف رائے) پیش کرنے میں تھی۔ اس مقام سے وہ علما جو گو احادیث کو مقدم رکھتے تھے اور اصحاب حدیث تھے مگر کسی گروہ کی شکل میں نا تھے، ان علما سے جدا ہونے لگے جو قیاس یا رائے کا استعمال کرنے کے حق میں تھے، انھیں اہل الرائے یا اصحاب رائے بھی کہا جاتا ہے[20]۔

      صحابۂ اکرام کا دور ترمیم

      مذکورہ بالا تاریخی مقام محض ایک قسم کا نشان ہے جہاں سے اہل حدیث واضح ہو کر نظر آنا شروع ہوئے لیکن چوتھے خلیفہ حضرت علی اور امیر معاویہ کے مابین جنگ صفین پر معاہدے کے بعد مسلمان جو اب تک دو بڑے گروہوں میں بٹے ہوئے تھے (ایک حضرت علی کی جانب اور ایک امیر معاویہ کی جانب) اب تین گروہوں میں دکھائی دینے لگے ؛ اول شیعہ دوم خارجی اور سوم باقی تمام (جنہیں سمجھنے میں آسانی کی خاطر سنی بھی کہا جا سکتا ہے)۔[21] یہی تیسرا گروہ ہے جس کی دو بڑے گروہوں میں تقسیم کا ذکر اس قطعے کی ابتدا میں ہوا۔ یہ لوگ حضرت محمد کی سنت پر زور دیتے تھے اور حدیث کی عمل داری کے حق میں ہونے کے ساتھ ساتھ اولین صحابہ کرام اور ابتدائی مسلم امہ (اسلاف) کی راست داری پر یقین رکھتے تھے۔[22] صحابۂ اکرام کا دور ھجری سالنامے کے لحاظ سے 100 سال (لگ بھگ 720ء) تک بتایا جاتا ہے جب آخری صحابی عامر بن واثلۃ بن عبداللہ (ابوطفیل) کا انتقال ہوا۔[23]

      تابعین کا دور ترمیم

      اس کے بعد فتاویٰ کے اجرا کا تابعین کا دور آتا ہے اور ان میں امت کے وہ لوگ شامل تھے کہ جو صحابۂ اکرام جیسے فقہا کے ساتھ رہ چکے تھے ؛ ان میں زین العابدین، ابو عبد اللہ نافع (مولی، عبد اللہ بن عمر ابن الخطابعکرمہ (مولی ابن عباسیحیی بن ابی کثیر، سعد بن المسیب، عطا بن ابی رباح (وفات: 734ءمحمد ابن سیرین (وفات: 729ء) اور ابن شہاب الزھری (وفات: 742ء) جیسے علما کے نام آتے ہیں۔ یہ تابعین فتاویٰ کے اجرا کے سلسلے میں سیرت اور صحابہ کی روش سے نہیں ہٹتے تھے اور گو کہ ان کے فتاویٰ میں فرق نہیں پایا جاتا مگر قیاس کے استعمال کی جھلک اس دور سے واضح ہونے لگتی ہے۔[24] اصحاب حدیث کا تذکرہ کرتے ہوئے، أهل السنة کا لفظ پہلی بار محمد ابن سیرین نے استعمال کیا، ان کے الفاظ یوں بیان ہوئے ہیں

      وہ (یعنی روایت / احادیث اپنانے والے) عموماً اسناد کی تحقیق پر نہیں جاتے تھے، لیکن جب فتنہ (683ء تا 685ء) واقع ہوا تو انھوں نے کہا: ہمیں اپنے آگاہ کرنے والوں کا نام بتاؤ۔ پس، اگر وہ اہل السنۃ سے ہوتے تو ان کی روایت تسلیم کرلی جاتی اور اگر وہ اہل البدع سے ہوتے تو قبول نا کی جاتی۔ اصل عبارت کے لیے حوالہ عدد دیکھیے [25]

      تبع تابعین کا دور ترمیم

      تبع تابعین کا دور کوئی نویں صدی عیسوی کے اوائل تک آتا ہے اور اس دور میں آنے والے ناموں میں سے چند اہم نام ؛ امام ابو حنیفہ (699ء تا 765ء) جو ایک اور مشہور تبع التابعی امام مالک (711ء تا 795ء) کے معلم بھی تھے، ھشام بن عروہ، عبدالرحمن بن عمرو الاوزاعی (وفات: 774ء) اور سفيان بن عيينہ (وفات: 813ء) کے نام آتے ہیں۔ امام مالک کی بیان کردہ احادیث، مسند سمجھی جاتی ہیں کیونکہ ان کے راویین مستند ہوا کرتے تھے اور ان کے یہاں مدینے کے سات اہم فقہا سے استفادہ کیا جاتا ہے[26]۔ امام ابو حنیفہ اپنے فتاویٰ میں ابراھیم النخعی سے زیادہ استفادہ کرتے تھے۔

      تبع تابعین کے بعد ترمیم

      تابعین اور تبع تابعین کے بعد آنے والے فقہا اور مجتہدین میں امام مالک کے شاگرد اور امام ابو حنیفہ سے متاثر امام شافعی (767ء تا 820ء)، امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور امام احمد بن حنبل کے معلم ابو یوسف (وفات: 798ء) اور عبدالرحمن ابن مہدی کے نام آتے ہیں۔ ان کے دور میں فتاویٰ کے سلسلے میں شاہ ولی اللہ کا قول آتا ہے کہ؛ اس عہد کے فقہا حضرت محمد کی احادیث، اسلافی منصفین کے فیصلوں اور صحابہ، تابعین اور تیسری نسل کے فقہی علم اور پھر اجتہاد کی جانب دیکھتے تھے۔[27] اصحاب الحدیث اور اصحاب الرائے کے ابتدائی ایام میں الگ الگ مکتب فکر کی حیثیت سے موجودگی نظر نہیں آتی اور اس بات کا اندازہ مذکورہ بالا عبارت میں ابن سیرین کے قول سے بھی لگایا جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں اصحاب کی جڑیں ابتدائی دو نسلوں (صحابہ اور تابعین) سے منسلک ہیں۔
      اسباب پیدائش کے قطعے میں درج عوامل کی وجہ سے ان دونوں اصحاب (الحدیث اور الرائے) میں وقت کے ساتھ ساتھ آپس میں تفریق نمایاں ہوتی گئی۔ اہل الحدیث کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اصحاب اپنے مکتب فکر میں حضرت عبداللہ بن عمر ابن الخطاب، عبداللہ ابن عمرو ابن العاص، عبداللہ ابن الزبیر اور حضرت عبداللہ بن عباس سے قریب آتے ہیں، مذکورہ بالا صحابہ اور تابعین، نصوص کے مطابق رہنے کی کوشش اور کسی بھی قسم کی نصوص کی خلاف ورزی نا ہونے کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔
      اہل الرائے کو حضرت عمر اور عبداللہ بن مسعود (وفات:653ء) سے نکلنے والے بھی کہا جاتا ہے جو اپنا قیاس استعمال کرنے والے سمجھے جاتے ہیں [26]،[28] ان سے متاثر ہونے والے علقمہ النخعی (وفات:689ء) ہی ابراھیم النخعی کے معلم تھے جو پھر حماد بن ابو سلیمان کے معلم ہوئے ؛ جن کے شاگرد، امام ابو حنیفہ تھے[27]۔
      اصحاب الحدیث کا ابتدائی مرکز حجاز بنا اور اصحاب الرائے کا ابتدائی مستقر کوفہ (عراق) رہا۔ ایسا ہونے کے متعدد اسباب بیان کیے جاتے ہیں جن کا ذکر اسباب کے قطعے میں آیا ہے۔

      خلاصۂ تاریخ ترمیم

      تاریخ کے مذکورہ بالا بیان میں محمد ابن سیرین کے اقتباس میں فتنۂ دوم کے تذکرے[25] اور 744ء میں یزید ابن الولید کی موت کا حوالہ[20] اس بات کی جانب نشان دہی کرتے ہیں کہ اصحاب حدیث کہلائے جاسکنے والے افراد عالم اسلام کے ابتدائی زمانے (100 ھجری) یا اس سے بھی کچھ قبل موجود تھے؛ اس کے علاوہ امام محمد بن حسن شیبانی کا ایک حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے امام ابن شہاب زہری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ؛ مدینہ منورہ میں جو بھی اہل حدیث ہوئے، ان میں سب سے بڑے عالم زہری رحمہ اللہ تھے۔ یعنی امام محمد کے زمانے میں اہل حدیث موجود تھے اور ان کی وفات کا زمانہ 804ء (189ھ) آتا ہے۔[29] ان تاریخی حوالہ جات سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اہل حدیث اور اہل الرائے کی کوئی تفریق نہیں واضح طور پر پیدا نہیں ہوئی تھی اور محمد ابن سیرین کے حوالے سے ہی اہل سنت اور اہل البدع کے گروہوں کی موجودگی بھی اس ہی عہد میں ظاہر ہوتی ہے۔ غیر مسلم تاریخ دان بھی اس اہل حدیث اور اہل الرائے کی تفریق کے واضح ہونے کا زمانہ دوسری صدی ھجری (آٹھویں عیسوی) کا ہی بیان کرتے ہیں ۔[30] تابعین کا دور نامی قطعے میں درج ابن سیرین کے بیان سے دو باتیں اور سامنے آتی ہیں ؛ ایک تو یہ کہ اس زمانے میں بناوٹی یا اختراعی احادیث (جن کا ذکر سیاسی اسباب کے قطعے میں بھی آیا) پائی جاتی تھیں ورنہ اصحاب حدیث کو ان کی تحقیق کی ضرورت پیش نا آتی اور دوسری بات یہ سامنے آئی اصحاب حدیث ہر مستند یا غیر مستند حدیث کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

      اسبابِ پیدائش ترمیم

      کوئی بھی مظہر اپنے اسباب کے بغیر وجود میں نہیں آتا۔ اہل الحدیث گروہ کے وجود میں آنے کے بھی محققین نے متعدد اسباب بیان کیے ہیں اور ان اسباب کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرنے کی خاطر؛ نفسیاتی، جغرافیائی، سیاسی اور معاشرتی اسباب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اصول الفقہ (jurispurdence) کا آغاز خود صحابۂ اکرام کے زمانے سے ہی ہو چکا تھا کیونکہ قرآن اور سنت کی روشنی میں قرآن اور حدیث میں نا ملنے والے مسائل اس وقت بھی تھے۔ صحابہ کرام کے دور میں اجتہاد کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی لیکن ان کے بعد کے دور میں اور اسلام (اب تک غیر مسلم سرزمینوں پر) پھیلنے کے ساتھ ساتھ متعدد تبدیلیاں دیکھنے میں آنے لگیں ؛ اب عربی زبان پر کامل عبور رکھنے والوں کے ساتھ عربی زبان سیکھنے والے بھی شامل تھے، اسی طرح اب اسلامی حکومت میں ایسے علاقے بھی تھے کہ جہاں ابھی تک لوگوں کے درمیان قبل از اسلام کے ناصرف اطوار بلکہ قوانین تک موجود تھے۔ صحابہ کرام کے دور کے جیسا اب کوئی قرآن و سنت کا مرکز نہیں رہا تھا، اب اسلامی علما میں بھی مختلف افکار لوگ تھے اور ایسے میں ضرورت محسوس ہوئی اجتہاد کو مربوط و منظم کرنے کی جس کی جانب کسی تنازع کی صورت میں رجوع کیا جاسکے ؛ تاریخی مطالعہ اس قسم کی صورت حال کا زمانہ کوئی 750ء کے لگ بھگ دکھاتا ہے۔

      جغرافیائی اسباب ترمیم

      آج کے جدید دور میں متعدد تیز رفتار ذرائع (بعید تکلم، برقی خط، قطار، ہوائی جہاز وغیرہ) سے ناپید آٹھویں صدی میں نقل و حمل کے ليے گھوڑوں اور اونٹوں پر انحصار سے اس زمانے میں انسانی روابط کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے الگ علاقے، افکاری لحاظ سے بھی الگ نہیں تو اس قدر قریب نہیں ہو سکتے تھے کہ جیسے آج ہیں۔ حجاز میں رہنے والے ایک عالم کی نسبت کوفہ میں مقیم کسی عالم یا قاضی یا منصف کے ليے کسی بات کا فیصلہ کرتے وقت مختلف اقسام کی احادیث پر انحصار مشکل ہو سکتا تھا۔ ابو الفتح الشھرستانی (1086ء تا 1153ء) کے الفاظ میں [31]

      والنّصوص إذا كانت متناهية والوقائع غير متناهية، وما لا يتناهى لا يضبطه ما يتناهى
      ترجمہ: تحریری متن محدود ہیں، لیکن روزمرہ زندگی کے حوادث لامحدود،
      اور یہ ممکن نہیں کہ کوئی متناہی چیز کسی لامتناہی چیز کا احاطہ کرسکے

      عراق میں مقیم امام ابو حنیفہ (699ء تا 765ء) کے ليے کسی سنی سنائی حدیث پر فیصلہ کرنا، حجاز میں مقیم کسی عالم کی نسبت ایک بالکل مختلف نوعیت کا معاملہ ہو سکتا ہے کہ جہاں براہ راست احادیث کی اسناد کو یقینی بنایا جانا ممکن تھا۔ مستند احادیث تک رسائی رکھنے والے کے ليے کسی اور کی رائے پر انحصار کرنا ممکن نہیں تھا؛ یہ لوگ اپنی توجہ احادیث پر مرکوز کر رہے تھے اور ان کے ليے کمزور حدیث بھی کسی زہن کی مضبوط رائے سے احسن تھی، ان میں امام احمد بن حنبل (780ء تا 855ء) کا نام بھی نمایاں آتا ہے۔[32]

      نفسیاتی اسباب ترمیم

      آٹھویں، نویں صدی کے حجازی ہوں یا بغدادی ؛ ان علمائے کرام کے خلوص نیت پر شبہ کوئی بھی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اسلام کے مرکز سے قریب بسنے والوں کو انسانی نفسیات کے مطابق احادیث کو چھوڑ کر کسی عالم کی رائے پر فیصلہ سناتے وقت کسی غلطی کا خوف تھا تو کسی دور بسنے والے زہن میں نفسیاتی طور پر یہ تشویش ہوتی تھی کہ تمام تر احتیاط کے باوجود راویِ حدیث کے دل کا حال اور اس کی سچائی صرف اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ اگر راوِیِین الحادیث کی لڑی میں سے کوئی راوی کسی جگہ مستند نا ہوا تو علم الحدیث کی تمام تر وسعت اور احادیث کا انتخاب کرنے کے تمام تر سائنسی طریقۂ کار کے باوجود شبہ کی گنجائش پیدا ہو سکتی تھی۔ غیر مسلم محققین کے یہاں ایک معاشرتی وجہ اسلامی سلطنت میں نئے داخل ہونے والے بعض مقامات پر وہیں کے پرانے قوانین کا موجود ہونا بھی بیان کی جاتی ہے[33]۔

      سیاسی اسباب ترمیم

      تحریک اہل حدیث کا ابتدائی مستقر حجاز رہا جہاں سے بعد میں یہ مختلف علاقوں میں پھیلی۔ اس کی ایک وجہ سیاسی بھی بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ مسند خلافت اور اس کے ساتھ سیاسی ہلچل خاصی حد تک پہلے دمشق اور پھر بغداد کو منتقل ہو چکی تھی جس کی وجہ سے یہ خطہ مذہبی موضوعات پر نسبتاً پرسکون ہو گیا تھا۔ جبکہ دوسری جانب اسی منتقلی مسند خلافت و سیاسی مرکز نے اہل الرائے کی نشو و نما میں بھی کردار ادا کیا؛ کہ خارجی اور دیگر گروہوں کی جانب سے بناوٹی احادیث کا اپنے مفاد میں استعمال بڑھ گیا تھا جس کے باعث عراق کے علما کو احادیث کو قبول کرنے کے ليے متعدد شرائط عائد کرنا پڑیں اور بعض اقسام کی احادیث کی نسبت قیاس اور رائے کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آنے لگی۔ ان بناوٹی اختراعی احادیث کی موجودگی کا ثبوت، تاریخی جائزہ کے قطعے میں تابعین کا دور میں دیے گئے محمد ابن سیرین کے اقتباس سے بھی ملتا ہے کہ اگر اس زمانے میں بناوٹی احادیث نہیں تھیں تو پھر اہل احادیث کو راویِ حدیث کے اہل سنت یا اہل بدع میں سے ہونے کی تفتیش کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی[25]۔

      تالیفِ احادیث ترمیم

      احادیث کو جمع و مرتب کرنے والے علما نے جو محتاط طریقۂ کار اس مقصد کے دوران اختیار کیا اسے علم الحدیث کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں حدیث کی اسناد، اس کے راویین کا تسلسل اور متن کی نوعیت پر تحقیق شامل ہے؛ مختصر یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس میں راوی اور روایت کی کیفیت معلوم کرنے کے اصول اختیار کیے جاتے ہیں۔[34]

      جدول دوم۔ اس قطعے میں آنے والی اہم اصطلاحات کی وضاحت
        1. تقریر
        2. خبر
        3. آثار
        4. متواتر
        5. آحاد
        6. صحیح
        7. حسن
        8. ضعیف
        9. مرسل
        10. متروک
          1. نبی کی جانب سے کسی بات کی اجازت
          2. (الف) حدیث (ب) نبی کے علاوہ کسی اور سے منقول (ج) الف اور ب دونوں پر
          3. صحابۂ اکرام اور تابعین کی جانب منقول ہو
          4. وہ حدیث جس کے رواۃ کی تعداد بکثرت ہو
          5. وہ حدیث جس کے رواۃ کی تعداد متواتر سے کم ہو
          6. جس کے تمام رواۃ دیانت اور مضبوط حافظہ رکھتے ہوں۔
          7. جس کے رواۃ صحیح حدیث سے کم حافظہ رکھتے ہوں۔
          8. وہ حدیث جو نا تو صحیح ہو نا حسن ہو
          9. وہ ضعیف حدیث جو ایک تابعی کسی صحابی کے واسطے بغیر کہے
          10. وہ ضعیف حدیث جس کے راوی پر چھوٹ کی تہمت ہو

          فرقۂ ناجیہ کا بیان ترمیم

          اہل حدیث کے مطابق انکا فرقہ ہی، ناجی فرقہ اور طائفہ منصورہ ہے، دلیل کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں :- (ہروقت میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا جو بھی انھیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہيں نقصان نہیں دے سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالی کا امر آجائے (یعنی قیامت قائم ہو جائے) تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا) [3]۔۔ اورانکا کہنا ہے کہ بہت سارے ائمہ کرام نے اس حدیث میں مذکور گروہ سے، اہل حدیث ہی مراد لیا ہے،جیسا کہ امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :-

          امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی بہت اچھی تفسیر اورشرح کی ہے جس میں یہ بیان کیا گيا کہ طائفہ منصورہ جوقیامت تک قائم رہے گا اور اسے کوئی بھی ذلیل نہیں کرسکے گا، وہ اہل حدیث ہی ہيں۔ تواس تاویل کا ان لوگوں سے زیادہ کون حق دار ہے جو صالیحین کے طریقے پرچلیں اورسلف کے آثارکی اتباع کریں اور بدعتیوں اور سنت کے مخالفوں کو سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ دبا کر رکھیں اورانہیں ختم کر دیں ۔[35]

          شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کہتے ہیں :- تواس سے یہ ظاہرہوا کہ فرقہ ناجیہ کے حقدارصرف اورصرف اہل حدیث و سنت ہی ہیں، جن کے متبعین صرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اورکسی اورکے لیے تعصب نہیں کرتے، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال واحوال کوبھی اہل حدیث ہی سب سے زيادہ جانتے اوراس کا علم رکھتے ہيں، اوراحادیث صحیحہ اور ضعیفہ کے درمیان بھی سب سے زيادہ وہی تیمیز کرتے ہيں، ان کے ائمہ میں فقہا بھی ہیں تو احادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے بھی اوران احادیث کی تصدیق، اورعمل کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے والے بھی، وہ محبت ان سے کرتے ہیں جو احادیث سے محبت کرتا ہے اورجو احادیث سے دشمنی کرے وہ اس کے دشمن ہيں۔ وہ کسی قول کو نہ تو منسوب ہی کرتے اورنہ ہی اس وقت تک اسے اصول دین بناتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت نہ ہو اور جو کتاب و سنت کے مخالف ہو اسے باطل قرار دیتے ہیں اور نہ ہی وہ ظن خواہشات کی پیروی کرتے ہيں، اس لیے کہ ظن کی اتباع جھالت اور اللہ کی ھدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی ظلم ہے۔[36]

          اوصاف بمطابق اہل حدیث ترمیم

          اہل الحدیث اپنی امتیازی خوبیاں مندرجہ ذیل بیان کرتے ہیں :-

          • اس مسلک میں اعتدال کا ایک حسن ہے۔
          • یہاں ضابطۂ حیات، اسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔
          • یہاں صحابہ کرام سے لامحدود محبت بھی ہے اور اہل بیت سے والہانہ عقیدت بھی۔
          • یہاں ائمہ کرام اور اولیائے دین کی بہت زیادہ عزت و تعظیم ہے۔
          • یہاں صحیح حدیث کو ائمہ کے قول پر ترجیح دینے کا ذوق بھی ہے اور فقہائے کرام کی بہترین کاوشوں کا اعتراف بھی۔
          • یہاں احکام شریعت کی پیروی بھی لازم ہے اور نفس کو پاک کرنے کا شغل بھی۔[37]

          منہج اہل حدیث ترمیم

          اس قطعے میں ان بیانات کا خلاصہ دیا جا رہا ہے جو اہل حدیث کی جانب سے صرف خود کو اہل سنت و الجماعت کی حیثیت سے پیش کرتے وقت کیے جاتے ہیں (دیکھیے اسی مضمون کا قطعہ بنام اصلی اہل سنت کا دعویٰ

          • اہل سنت والجماعت کے نزدیک عقیدہ کے مآخذ تین ہیں، کتاب اللہ، سنت صحیحہ اور سلف صالحین کا اجماع۔
          • قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کے سلسلے میں واضح نصوص، سلف صالحین کے فہم کو ہی مرجع قرا دیا جائے گا۔ اس کے بعد لغت عرب کا درجہ آتا ہے، بہر حال محض لغوی احتمالات کے باعث ان سے ثابت شدہ مفہوم کی مخالفت نہ کی جائے گی۔
          • دین کے تمام بنیادی اصول نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی میں نہایت واضح طور پر بیان فرما دیے تھے لہذا اب کسی کے لیے اس میں نئی چیز نکالنے کی گنجائش نہیں ہے۔
          • اللہ تعالی کی صفات کو بے مثال ماننا: اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے طرح نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس مشابہت ( کے اندیشے) کے پیش نظر ان صفات کا انکار ہی کیا جائے۔
          • وحدت الوجود اور اللہ تعالی کا کسی مخلوق میں حلول کرنا یا مخلوق اور خالق کے یکجان ہونے کا عقیدہ رکھنا دین سے خارج کردینے والا کفر ہے۔
          • تمام صحیح العقیدہ مسلمانوں کی طرح اجزاۓ ایمان کی پیروی کرنا۔
          • کرامات اولیاء: اولیاء اللہ کی کرامتیں بر حق ہیں مگر ہر خرق عادت (عام قانون سے ہٹا ہوا کام) کرامت نہیں ہوتا، وہ شعبدہ بھی ہو سکتا ہے، کرامت پابندِ شریعت سے رونما ہوتی ہے اور شعبدہ، فاسق وفاجر سے۔
          • * معجزے اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ نبی علمِ وحی کی بنا پر معجزے کا دعویدار ہوتاہے، جبکہ ولی کسی کرامت کا دعوی نہیں کرسکتا، کیونکہ اسے نہ وحی آتی ہے، نہ علمِ غیب ہی ہو سکتا ہے، بلکہ عام لوگوں کی طرح اُسے بھی کرامت کا پتہ اس کے وقوع ہونے کے بعد ہی چلتا ہے۔
          • دین کو شریعت اور طریقت میں اس طرح تقسیم کرنا کہ اول الذکر عوام کے لیے اور ثانی الذکر خواص کے لیے ہو، نیز سیاست ومعیشت یا کسی شعبہ زنگی کو دین سے جدا سمجھنا باطل اور حرام ہے۔
          • عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس کے برعکس عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ البتہ اللہ اپنے رسولوں کو جس قدر چاہتا ہے امور غیب میں سے مطلع فرماتاہے۔
          • نجومیوں اور کاہتوں کی تصدیق کرنا کفر ہے اور ان سے راہ ورسم رکھنا کبیرہ گناہ ہے۔
          • وسیلے کی تین اقسام ہیں :
          1. جائز: اللہ تعالی کی طرف اس کے اسماء وصفات کو وسیلہ بنانا یا اپنے کسی نیک عمل یا کسی بقید حیات بزرگ کی دعا کو وسیلہ بنانا مباح ہے۔
          2. بدعت: ایسی چیز کو وسیلہ بنانا جو شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو بدعت ہے مثلا انبیا و صالحین کی ذات یا ان کی بزرگی کو وسیلہ بنانا۔
          3. شرک: کسی فوت شدہ بزرگ کی وساطت سے عبادت کرنا یا اس سے دعا کرنا، اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا۔
          • برکت: برکت صرف اللہ تعالی کی جانب سے ہوتی ہے، اللہ تعالی اپنی جس مخلوق میں چاہتاہے برکت فرما دیتا ہے، بر کت سے مراد خیر کی کثرت اور زیادتی اور اس کی ہمیشگی ہے،
          • جس چیز کے باعث برکت ہونے کی دلیل نہ ہو، اس سے حصول تبرک ناجائز ہے۔
          • قبروں کی زیارت اور ان کے پاس جو لوگ اعمال کرتے ہیں وہ حسب ذیل تین اقسام کے ہوتے ہیں
          1. جائز: آخرت کی یاد کے لیے، اہل قبور کو سلام کرنے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے لیے جانا، یہ اعمال قبروں بر کرنا مباح ہیں۔
          2. بدعت:جو امور توحید کی روح کے منافی اور شرک کا سبب ہیں جیسے ؛ قبر پر عبادت کو تقرب الہی کا ذریعہ سمجھنا، قبروں سے برکات حاصل کرنا، ثواب بخشانا، پختہ بنا کر مزار کی شکل دینا، رنگ وروغن کرنا، چراغ جلانا، چادریں چڑھانا، عبادت گاہ بنانا اور ان کی طرف رخت سفر باندھنا بدعت کے کام ہیں۔
          3. شرک: ایسی زیارت میں عبادات کی مختلف شکلیں شامل ہوتی ہیں، مثلا زائر کا صاحب قبر کو پکارنا، اسے غوث سمجھنا، فریاد کرنا، مدد مانگنا، قبر کے گرد طواف کی طرح چکر لگانا، اس کے نام کا چڑھاوا دینا اور نذر و نیاز ماننا۔
          • قرآن مجید اپنے الفاظ و معنی کے ساتھ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور غیر مخلوق ہے، اللہ تعالی سے اس کی ابتدا ہے اور اسی کی طرف اس کی انتہا ہے۔ قرآن کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ ایک معنوی تعبیر ہے یا وہ مجازی اور غیر حقیقی ہے ؛ اس قسم کے عقائد رکھنا گمراہی ہے۔
          • امارت کبری: خلیفہ کا انتخاب اجماع امت یا اہل حل وعقد کی بیعت کے ذریعے ہوتا ہے، اگر کوئی شخص اقتدار پر قابض ہو گیا اور امت نے اس کے اقتدار کو تسلیم کر لیا تو بھلائی اور نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت اور خیر خواہی فرض ہوگی اور اس کے خلاف بغاوت حرام ہوگی سوائے اس بات کے کہ حاکم کفر کا مرتکب ہو۔

          مزید دیکھیے ترمیم

          بیرونی روابط ترمیم

          حوالہ جات ترمیم

          جہاں تک ممکن ہو سکا، آن لائن حوالہ جات کو ترجیح دی گئی ہے۔ موضوع پر تمام مسلم و غیر مسلم، تفرقاتی و طبقاتی پہلوؤں کو سامنے لانے کی خاطر حوالہ جات پر کوئی دینی و لادینی، اسلامی و غیر اسلامی یا تفرقاتی پابندی نہیں ؛ ماسوائے کہ (اپنے مقام پر) مصدقہ ہوں۔ آن لائن مقامات تبدیل بھی ہوسکتے ہیں اس ليے مضامین کے عنوانات انگریزی ہی میں دیے جا رہے ہیں۔ کسی حوالے پر اعتراض ہو تو تبادلۂ خیال پر بیان کیجیے۔

          1. ^ ا ب Oxford Islamic studies online آن لائن مضمون
          2. ^ ا ب آسان قرآن نامی ایک موقع آن لائن آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ asanquran.com (Error: unknown archive URL)
          3. ^ ا ب صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1920 )
          4. مجموع الفتاوی ( 3/347 )
          5. مجموع الفتاوی ( 4/ 95 )
          6. معرفۃ علوم الحديث للحاکم نیسابوری ص ( 2 - 3 )
          7. شرف اصحاب الحدیث ص ( 15 )
          8. "آن لائن مضمون"۔ 13 اپریل 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2009 
          9. اہل حدیث پوسٹر کا جواب: مصنف مفتی محمد عبد الوہاب خان القادری؛ بوستان رضا، سعودآباد کراچی آن لائن اردو کتاب
          10. برآءۃ اہل حدیث/ص:21
          11. اصول اہل سنت والجماعت: تحریر ناصربن عبد الکریم العقل
          12. Are The Salafis From Ahl us-Sunnah wal-Jamaa'ah by SalafiPublications آن لائن مضمون آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ salafipublications.com (Error: unknown archive URL)
          13. Alahazrat.net ایک اردو کتاب آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ alahazrat.net (Error: unknown archive URL)
          14. The Shi'ah are (the real) Ahl al-Sunnah by Dr. Muhammad Tijani al-Samawi آن لائن مضمون
          15. Tasawwuf - the distorted image آن لائن مضمون
          16. Defference between Hadith and Sunnah آن لائن مضمون
          17. The Sunnah; Britannica آن لائن مضمون
          18. A Historical Background of the Refutation of the Hadith and the Authenticity of its Compilation by Mufti Abdul-Jaleel Qaasimi آن لائن مضمون
          19. The Importance of The Ahl al-sunnah by Harun Yahya آن لائن کتاب
          20. ^ ا ب Encyclopedia of Islam and the Muslim World: Richard C. Martin; ISBN 0-02-865603-2
          21. تاریخ التشریح الاسلامی؛ محمد الخضری: قاہرہ 1934
          22. Religion and Politics under the Early ‘Abbāsids by Qasim Zaman: ISBN 90-04-10678-2
          23. آخری صحابی سے متعلق ایک عربی مضمون موقع آن لائن[مردہ ربط]
          24. الاصابۃ جلد چہارم ؛ ابن حجر عسقلانی
          25. ^ ا ب پ They (traditionists) were not used to inquiring after the isnad, but when the fitna occurred, they said: Name us your informants. Thus, if these were ahl al-sunna, their traditions were accepted, but if they were ahl al-bida, their traditions were not accepted. Muslim Tradition Studies in Chronology, Provenance and Authorship of Early Hadith: G. H. A. Juynboll ISBN 978-0-521-08516-8
          26. ^ ا ب The Seven Fuqaha' of Madina by Muhammad Abu Zahrah آن لائن مضمون آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ourworld.compuserve.com (Error: unknown archive URL)
          27. ^ ا ب Usul Al Fiqh Al Islami by Taha Jabir Al Alwani آن لائن کتاب
          28. Opinionism and Umar Ibn Al-Khattab موقع آن لائن آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ imamreza.net (Error: unknown archive URL)
          29. موطا،ص:363/بحوالہ برآءتِ اہل حدیث، افادات بدیع الدین شاہ راشدی
          30. The medieval Islamic controversy between philosophy and orthodoxy by Iysa A. Bello; Brill ISBN 90-04-08092-9
          31. الملل والنحل : الشھرستانی آن لائن مضمون
          32. Neutrosophy in arabic philosophy: Salah osman; renaissance high press
          33. The Zahiris: their doctrine and their history by Dr. Ignaz Doldziher
          34. An Introduction To The Science Of Hadith آن لائن مضمون
          35. [کتاب : معرفۃ علوم الحديث للحاکم نیسابوری ص:2 - 3 ] ۔
          36. مجموع الفتاوی ( 3/347 ) ۔
          37. آن لائن