یوحنا دمشقی

مشرقی راسخ الاعتقاد مقدس

يُوحْنَا دَمشقِی (وسطی یونانی: ωάννης Δαμασκηνός؛ تلفظ: ایونس اُو دَمسقِینُوس؛ بازنطینی یونانی تلفظ : [اِیوانِیس اُو دَمسقِینُوس]؛ (لاطینی: Ioannes Damascenus)‏) ایک سریانی راہب اور قس تھے۔ دمشق میں پیدا ہوئے، وہیں پرورش پائی اور اپنی خانقاہ واقع دیر مار سابا نزد یروشلم میں وفات پائی۔[1]

مقدس یوحنا دمشقی
Ἰωάννης ὁ Δαμασκηνός (یونانی)
Ioannes Damascenus (لاطینی)
يوحنا الدمشقي (عربی)
یوحنا دمشقی (عربی شبیہ)
معلم کلیسیا
پیدائشتقریباً 675ء یا 676ء
دمشق، بلاد الشام، خلافت امویہ
وفات4 دسمبر 749ء
دیر مار سابا، یروشلم، بلاد الشام، خلافت امویہ
قداستقبل اجتماع بدست مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا
رومن کاتھولک کلیسیا
انگلیکان کمیونین
یادگار در لوتھریت
تہوار4 دسمبر
27 مارچ (جنرل رومن کیلنڈر 1890ء–1969ء)
منسوب خصوصیاتکٹا ہاتھ، تمثال
سرپرستیدوا ساز، شبیہ نگار، الٰہیات کے طلبہ

یوحنا دمشقی ایک جامع العلوم قسم کے شخص تھے، ان کی دلچسپی کے شعبے ہمہ جہت تھے، جن میں قانون، الٰہیات، فلسفہ اور موسیقی سب شامل تھے۔ بعض ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے نفاذِ فرمان سے قبل دمشق کے مسلم خلیفہ کے ایک اعلٰی منتظم کے طور پر بھی کام کیا۔[2][3] انھوں نے مسیحی عقائد کو بیان کرنے کے لیے متعدد کتابیں تحریر کیں اور کئی مناجات مرتب کیے جو عبادتی طور پر آج تک مشرقی مسیحیت میں اور لوتھریت میں صرف ایسٹر کے موقع[4] پر استعمال کی جاتی ہیں۔ وہ مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا کے ایک پادری اور شبیہ (آئیکن) کے تحفظ کے لیے معروف ہیں۔[5] کاتھولک کلیسیا میں ان کو معلم کلیسیا اور عروج مریم پر تصانیف کی وجہ سے اکثر معلمِ عروج (Doctor of the Assumption) کہا جاتا ہے۔[6]

یوحنا دمشقی۔ (سوری شبیہ)

یوحنا دمشقی کی زندگی کی معلومات کا سب سے عام ماخذ جان آف یروشلم سے منسوب کتاب میں ملتا ہے، اِسی تحریر میں یوحنا یروشلم کے بطریق کی صورت میں نظر آتے ہیں۔[7] یہ کتاب ابتدائی عربی متن سے منتخب کردہ ایک یونانی ترجمہ ہے۔ اصل عربی کتاب میں افتتاحیہ ہے، جو اس سے ترجمہ کی گئی کئی کتابوں میں موجود نہیں ہے، اس کے مصنف ایک عرب راہب میکائیل تھے۔ میکائیل نے وضاحت کی ہے کہ وہ 1084ء میں اُن کی سوانح عمری لکھنے کا فیصلہ کر رہا تھا کیونکہ اُن دنوں میں کوئی بھی میسر نہیں تھا۔ تاہم بنیادی عربی متن سے ایسا لگتا ہے کہ ابتدائی نویں اور دسویں صدیوں کے درمیان میں اسے ابتدائی مصنف کی جانب سے لکھا گیا ہے۔[7] مقدسین کی مبالغہ آمیز اور کچھ حد تک افسانوی تفصیلات پر مشتمل سوانح نگاری سے متصف اس کتاب کو یوحنا دمشقی کی زندگی کا بہترین تاریخی ماخذ نہیں قرار دیا جا سکتا، بلکہ اس میں بڑے پیمانے پر الحاقات بھی ہوئے ہیں۔[8] نیز روایتی طور پر یوحنا سے منسوب ناول بارلام اور یہوسفط درحقیقت دسویں صدی کا تحریر کردہ ہے۔[9]

خاندانی پس منظر ترمیم

 
یوحنا دمشقی (یونانی شبیہ)

ساتویں صدی عیسوی کو یوحنا دمشق کے ممتاز مسیحی خاندان ”منصور“ میں پیدا ہوئے۔[10] خاندان کا نام یوحنا کے دادا منصور بن سرجون کے نام پر پڑا تھا جو شہنشاہ ہرقل کے دور میں اس علاقے کے مالگزار تھے۔[11][12] معلوم ہوتا ہے کہ منصور نے مفید دست برداری کے بعد 635ء میں خالد بن ولید کے دستہ کے دباؤ میں دمشق اُن کے حوالے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔[11][12] سعید، دسویں صدی کا ایک ملکی بطریق جو اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ اس نے شہر کو مسلمانوں کے سپرد کرنے میں اعلٰی درجے کے اہلکار کے طور پر کام کیا تھا۔[13]

اگرچہ منصور کے خاندان کے قبائلی پس منظر کے متعلق مستند معلومات معاصر ذرائع میں نہیں ملتیں، تاہم سوانح نگار ڈینئیل ساہاس نے قیاس آرائی کی ہے کہ منصور نام ظاہر کرتا ہے کہ منصور کلب یا تغلب کے مسیحی قبائل سے تعلق رکھتا تھا۔[14] علاوہ ازیں خاندان کا نام عرب نسب کے سوری مسیحیوں کے درمیان میں عام تھا اور سعید نے یہ بیان کیا ہے کہ دمشق کے گورنر منصور بن سرجون عرب تھے۔[14] تاہم ساہاس نے یہ بھی لکھا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ نام عرب پس منظر کو ظاہر کرے، یہ نام غیر عرب اور سامی شامیوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔[14] جبکہ ساہاس، سوانح نگار ایف۔ ایچ۔ چیس اور اینڈریو لوتھ دعوی کرتے ہیں کہ منصور ایک عربی نام تھا، ریمنڈ لے کوز کا دعوی ہے کہ ” یہ خاندان بلا شبہ شامی الاصل تھا“[15]؛ مؤرّخ دینئیل جے۔ جانوسک کے مطابق ”دونوں پہلو سچ ہو سکتے ہیں، کیونکہ اگر ان کا خاندانی حسب و نسب واقعی شامی تھا، جب عرب قابض ہو گئے تو ان کے دادا منصور کو عربی نام دیا گیا ہوگا۔“[16] یوحنا نے دمشق میں پرورش پائی اور عرب مسیحی لوک کہانیوں کے مطابق یوحنا اپنی نوجوانی کے دوران میں مستقبل کے اموی خلیفہ یزید اول اور تغلبی مسیحی عدالت کے شاعر الاخطل سے متعلق تھے۔[17]

جب 630ء کی دہائی میں مسلمانوں نے شام فتح کیا تو اُس وقت دمشق کی عدالت میں مسیحی سول ملازم کثیر تعداد میں موجود تھے، یوحنا کے دادا بھی انہی میں سے ایک تھے۔[11][13] یوحنا کے والد سرجون (سرجیس) اموی خلفا کی خدمت کرنے کے لیے جاتے تھے۔[11] جان آف یروشلم کے مطابق ان کے والد کی وفات کے بعد راہب بننے سے قبل یوحنا نے خلیفہ کی عدالت میں ایک اہلکار کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ یہ دعویٰ کہ یوحنا اصل میں مسلم عدالت میں خدمت گار تھے مشکوک ہے، کیونکہ مسلم مآخذ میں ان کا تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم مذکورہ مآخذ اُن کے والد سرجون (سرجیس) کو خلافت کی انتظامیہ میں سیکریٹری کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[18] مزید برآں یوحنا نے خود اپنی تحریروں میں کبھی مسلم عدالت کا تذکرہ نہیں کیا۔ خیال ہے کہ وہ دیر مار سابا میں راہب بنے اور انھیں 735ء میں قس کے فرائض سونپے گئے۔[11][19]

تعلیم ترمیم

 
یوحنا دمشقی (یونانی تمثال)

ایک تعارفی خاکے میں ان کے والد کی خواہش بیان کی گئی ہے کہ یوحنا "نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ یونانیوں کی بھی کتابیں سیکھے"۔ اس سے یہ سمجھا گیا کہ یوحنا ذولسانی تھے یعنی وہ عربی کے ساتھ ساتھ یونانی بھی جانتے تھے۔[20] درحقیقت یوحنا نے کبھی قرآن کا علم اپنے تئیں ظاہر نہیں کیا بلکہ وہ قرآن کے سخت ناقد تھے۔[21]

دوسرے مآخذ بتاتے ہیں کہ اُن کی دمشق میں تعلیم ہیلنی تعلیمی اصولوں کے مطابق تھی، چنانچہ کچھ مآخذ میں ”سیکولر“ اور کچھ میں ”کلاسیکی مسیحی“ تعلیم مذکور ہے۔[22][23] ایک جگہ یوحنا کے اتالیق کا نام راہب کوسماس بتایا گیا ہے، جس کو صقلیہ میں اس کے گھر سے عربوں نے اغوا کر لیا تھا اور یوحنا کے باپ نے بڑی قیمت ادا کرکے خلاصی دلائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کوسماس کے پاس زیر تعلیم یوحنا نے موسیقی، فلکیات، الٰہیات پر عبور حاصل کیا اور جلد ہی علم حساب میں فیثاغورث کے اور جیومیٹری میں اقلیدس کی ہمسری کرنے لگے۔[23] کوسماس ایک اطالوی پناہ گزین تھا اسی وجہ سے وہ مغربی مسیحیت کے عقائد کو اپنے ہمراہ لایا تھا۔ کوسماس نے یوحنا کے ساتھ ساتھ اُس کے رضاعی بھائی کو بھی تعلیم دی تھی۔[23]

زندگی ترمیم

 
یوحنا دمشقی کی ایک شبیہ۔

یوحنا کا کم از کم ایک اور ممکنہ طور پر دو پیشے تھے: پہلا (مشتبہ) یہ کہ وہ دمشق کے خلیفہ کے خانگی ملازم تھے اور دوسرا (مصدقہ) یہ کہ وہ خانقاہ دیر مار سابا واقع نزد یروشلم میں ایک قس اور راہب تھے۔ ایک جگہ ملتا ہے کہ جب ولید بن عبد الملک نے خلافت کی انتظامیہ کے تحت نفاذِ اسلام میں اضافہ کیا تو یوحنا نے 706ء کے ارد گرد راہب بننے کے لیے دمشق چھوڑ دیا۔[24] تاہم، مسلم مآخذ صرف یہ ذکر کرتے ہیں کہ یوحنا کے والد سرجون (سرجیس) نے اِس وقت کے دوران میں انتظامیہ چھوڑی تھی اور وہ انتظامیہ چھوڑنے کے سلسلے میں یوحنا کا تذکرہ نہیں کرتے۔[18] اگلی دو دہائیوں کے دوران میں محاصرہ قسطنطنیہ 717ء تا 718ء کے اختتام کے نتیجے میں خلافت امویہ نے رفتہ رفتہ بازنطینی سلطنت کی سرحدوں پر قبضہ کر لیا۔ یوحنا کی تصنیفات کے ایک ایڈیٹر، فادر لے کوین نے ظاہر کیا ہے کہ یوحنا تمثال شکنی کے تنازعات سے پہلے دیر مار سابا میں ایک راہب تھے۔[25]

 
بازنطینی تمثال شکنی، نویں صدی۔ ایک آدمی بازنطینی تمثال شکنی کے تحت مذہبی تمثال کو ضائع کر رہا ہے۔[26]

ابتدائی آٹھویں صدی عیسوی میں ایک تحریک ”شبیہ شکنی“ نے شبیہوں کی تکریم کی مخالفت کی، جس کو بازنطینی عدالت میں قبولیت ملی۔ 726ء میں بازنطین کے بطریق مقدس جرمانس کے احتجاجوں کے باوجود شہنشاہ لیون سوم (جس نے 1717ء میں محاصرۂ عظیم سے قبل شہنشاہ کو تخت چھوڑنے کو کہا اور خود قابض ہوکر تخت نشین ہو گیا) نے ایک فرمان شاہی جاری کیا جو تصاویر کی تکریم اور عوامی مقامات پر اُن کی نمائش کے خلاف تھا۔[27]

اس امر پر اتفاق ہے کہ یوحنا نے اپنی تین تصنیفات تصاویر کی تکریم پر لکھیں اور ان میں ثابت کیا کہ کلیسیاؤں اور گرجا گھروں میں مقدس تصویروں کو آویزاں کرنا اور مجسمے نصب کرنا کسی طرح خلاف مذہب اور زندقہ نہیں ہیں۔ ان تصنیفات میں ان کی اولین کتاب ”مقدس تصاویر کے ناقدر شناسوں کے خلاف دفاعی مضامین“ ("الدفاع عن الأيقونات المقدسة") ہے جس نے یوحنا کو خوب شہرت بخشی۔ مقدس تصویروں اور مجسموں کے حکم انہدام کے خلاف یوحنا کی کتابوں کو خوب مقبولیت ملی، اس مقبولیت کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ ان میں ایک شاہی فرمان کی مخالفت کی گئی ہے بلکہ درحقیقت ان تحریروں کا سادہ اور عام فہم اسلوب عوام الناس میں اس نزاع کے فروغ کا باعث بنا۔ نیز یوحنا کی وفات کے برسوں بعد ان کی انہی تحریروں نے اس مسئلہ کے حل کے لیے منعقدہ دوسری نیقیہ کونسل (787ء) کے دوران میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔

 
تھیوتوکوس نے یوحنا دمشقی کو بذریعہ رویا شفا دی“ (سیدھے ہاتھ کی معجزاتی شفا)

یوحنا کے سوانح حیات میں کم از کم ایک واقعہ ایسا ہے جو ناممکن یا افسانوی معلوم ہوتا ہے۔[25][28] لیون سوم نے خبر کے طور پر خلیفہ کو جعلی دستاویزات بھیجے جو یوحنا کے دمشق پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ یوحنا کا دایاں ہاتھ کاٹ کر عوامی مراکز پر لٹکا دیا جائے۔ کچھ دنوں بعد یوحنا نے اپنے ہاتھ کی بحالی کے لیے تہ دل سے تھیوتوکوس سے دعا اور ارداس کی۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ اُس دعا کے بعد یوحنا کا ہاتھ مُعجزانہ طور پر واپس آگیا۔[25] اس معجزاتی شفا کی شکر گزاری کے لیے یوحنا نے تھیوتوکوس کی شبیہ (icon) پر ایک چاندی کا ہاتھ ملحق کر دیا۔ بعد ازاں تھیوتوکوس کا چاندی کا ہاتھ والی شبیہ ”دست ثلاثہ“ یا ۭ”ٹروجیروشیکا“ کے نام سے مشہور ہو گیا۔[29]

آخری ایام ترمیم

یوحنا نے 749ء میں وفات پائی، ان کی تعظیم و تکریم بطور کلیسیائی باپ اور ایک مقدس کے طور پر کی جاتی ہے۔ رومن کاتھولک کلیسیا میں ان کو بعض اوقات آخری کلیسیائی باپ کہا جاتا ہے۔ 1890ء میں لیو سیزدہم نے ان کو معلم کلیسیا قرار دیا۔

عزت و احترام ترمیم

1890ء میں مقدس یوحنا دمشقی کا نام جنرل رومن کیلنڈر میں شامل کر لیا گیا تو تہوار کا دن 27 مارچ کو مقرر کیا گیا۔ 1969ء میں اُن کا یوم تہوار منتقل کر کے اُن کے یوم وفات یعنی 4 دسمبر کو کر دیا گیا۔ 4 دسمبر کا تہوار منتقل ہونے سے پہلے بھی بازنطینی ریت تقویم،[30] لوتھری یادگاران،[31] اور انگلیکان کمیونین اور اسقفی کلیسیا[32] میں منایا جاتا تھا۔

تصنیفات کی فہرست ترمیم

یوحنا دمشقی نے تصنیفات کے علاوہ بہت سی مناجات مرتب کی تھیں، یہ مناجات آج مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیائی خدمت گزاری میں استعمال کی جاتی ہیں۔ یوحنا دمشقی کی تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں:

ابتدائی تصنیفات ترمیم

 
الدفاع عن الأيقونات المقدسة (مقدس تصاویر کے ناقدر شناسوں کے خلاف دفاعی مضامین)۔
  • الدفاع عن الأيقونات المقدسة (مقدس تصاویر کے ناقدر شناسوں کے خلاف دفاعی مضامین) — یہ لیون سوم کے فرمان شاہی یعنی مقدس تصاویر کی تکریم و نمائش پر پابندی کے جواب میں لکھے گئے سب سے پہلے منظر عام پر آنے والے مضامین تھے۔[33]

تعلیمات و غطریسی تصنیفات ترمیم

  • ينبوع المعرفة (سرچشمہ معرفت، Fountain of Knowledge یا The Fountain of Wisdom) کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
    1. الفصول الفلسفية (اسباق فلسفہ، Kefálea filosofiká) کو عموماً 'جدلیاتی' (Dialectic) کہا جاتا ہے، یہ زیادہ تر منطق پر مبنی ہے، اس کو تیار کرنے کا بنیادی مقصد قارئین کو بقیہ کتاب کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔
    2. الهراطقة (زندیق، Perì eréseon) اس حصہ کا آخری باب (باب 101) جو اسماعیلیوں کے زندقہ (بدعت) پر مبنی ہے۔[34] دیگر بدعات کے لیے وقف شدہ پہلے کے حصے جن کا کچھ سطروں میں اختصار کیا گیا ہیں، یہ باب کئی صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ اسلام کی پہلی مسیحی تردیدوں میں سے ایک ہے۔ اُن کی نزاعی تصنیفات کے مؤثر تراجم میں سے ایک Peri haireseon ہے جس کا یونانی سے لاطینی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کا قلمی نُسخہ راسخ الاعتقاد مسیحیوں کی پہلی تردیدِ اسلام میں سے ایک تھا جس نے مغربی کاتھولک کلیسیاؤں کے طرز کو متاثر کیا ہے۔ یہ سب سے پہلا ماخذ تھا جس میں پیغمبرِ اسلام محمد المصطفٰی کو مغرب میں "جھوٹے نبی" اور "مخالف مسیح" ثابت کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔[35]
    3. المئة مقالة في الإيمان الأرثوذكسي (راسخ الاعتقاد ایمان کی نمائش ،Ékdosis akribès tēs Orthodóxou Písteōs) — یہ ابتدائی آبائے کلیسیا کی غطریسی تحریروں کا ایک خلاصہ ہے۔ یہ تحریر مشرقی مسیحیت میں اصول متکلمین کی پہلی تصنیف تھی اور بعد کی متکلمانہ تصنیفات پر اثر انداز ہوئی۔[36]
  • ضد أسقف يعقوبي (اسقف یعقوبی کی تردید: جس میں یعقوبیوں کے افکار و عقائد اور خصوصاً مسیح کی ایک فطرت کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے)
  • ضد النسطورية (نسطوریوں کی تردید)
  • ضد المانوية (مانویت کی تردید)
  • الحوار مع من يرفضون (منکرین سے گفتگو)
  • مقدمة في العقائد المسيحية (مسیحی عقائد کا تعارف)
  • في التقديسات الثلاث (Trisagion کا تعارف)
  • في التفكير الصحيح (فہم صحیح پر)
  • في الإيمان، مؤلف آخر ضد النساطرة (ایمان پر، نسطوریوں کی تردید پر دوسری کتاب)
  • في أن للمسيح إرادتين (مسیح کے دو ارادے)، یک مشیت مسیح کے پیروکاروں کی تردید
  • المتوازيات المقدسة (متوازیات مقدسہ) (مشتبہ)
  • أوكتيشوس، آٹھ سُروں والی کلیسیائی خدمت گزاری کی کتاب
  • حول الشياطين والأشباح (شیاطین اور بھوت پریت کا تعارف)

عربی تراجم ترمیم

 
یوحنا الدمشقی۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ homily on the Annunciation عربی میں ترجمہ ہونے والی پہلی تصنیف تھی۔ اس کتاب کا زیادہ تر متن 885ء میں ستراسبورگ (فرانس) لائبریری کے مخطُوطہ 4226 میں پایا گیا۔[37]

دسویں صدی کے بعد میں خانقاۂ مقدس سمعان (نزد انطاکیہ) کی ایک اعلٰی شخصیت انتونی نے یوحنا دمشقی کی مجموعۂ کتب کا ترجمہ کیا۔ یوحنا کی تصنیف کے تعارف کے آغاز میں انطاکیہ کے بطریق سلوسٹر (1724ء-1766ء) نے کہا کہ انتونی سینٹ سبا میں راہب تھا۔ یہ ممکنہ طور پر عنوان مقدس سمعان کی اعلٰی شخصیت کی غلط فہمی ہو سکتی ہے کیونکہ اٹھارویں صدی میں مقدس سمعان کی خانقاہ خراب حالت میں تھی۔[38]

کئی قلمی نُسخے، کوسماس کے نام خط،[39] فلسفیانہ ابواب،[40] الٰہیاتی ابواب اور دوسری پانچ صغریٰ تصنیفات[41] پر مشتمل ہیں۔ مارچ 2013ء سے اس ترجمے کی پہلی اشاعت ویب پر دستیاب ہے۔[42]

1085ء میں انطاکیہ کے ایک راہب میکائیل نے یوحنا کی عربی زندگی کے متعلق تحریر کیا۔[43] اس تصنیف میں 1912ء میں پہلی بار باچا نے ترمیم کری اور پھر یہ کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئی (جرمنی، روسی اور انگریزی)۔

جدید انگریزی تراجم ترمیم

  • On holy images; followed by three sermons on the Assumption، translated by Mary H. Allies, (London: Thomas Baker, 1898)۔
  • Exposition of the Orthodox faith، translated by the Reverend SDF Salmond, in Select Library of Nicene and Post-Nicene Fathers. 2nd Series vol 9. (Oxford: Parker, 1899) [reprint Grand Rapids, MI: Eerdmans, 1963.]
  • Writings، translated by Frederic H. Chase. Fathers of the Church vol 37, (Washington, DC: Catholic University of America Press, 1958) [ET of The fount of knowledge; On heresies; The orthodox faith]
  • Daniel J. Sahas (ed.)، John of Damascus on Islam: The "Heresy of the Ishmaelites"، (Leiden: Brill, 1972)
  • On the divine images: the apologies against those who attack the divine images، translated by David Anderson, (New York: St. Vladimir's Seminary Press, 1980)
  • Three Treatises on the Divine Images۔ Popular Patristics۔ Translated by Andrew Louth۔ Crestwood, NY: St. Vladimir's Seminary Press۔ 2003۔ ISBN 0-88141-245-7  Louth, who also wrote the introduction, was at the University of Durham as Professor of Patristics and Byzantine Studies.

روایتی طور پر یوحنا سے منسوب ناول بارلام اور یہوسفط درحقیقت دسویں صدی کا تحریر کردہ ہے۔ اس کے دو تراجم مندرجہ ذیل ہیں:

  • Barlaam and Ioasaph، with an English translation by G.R. Woodward and H. Mattingly, (London: Heinemann, 1914)
  • The precious pearl: the lives of Saints Barlaam and Ioasaph, notes and comments by Augoustinos N Kantiotes; preface, introduction, and new translation by Asterios Gerostergios, et al.، (Belmont, MA: Institute for Byzantine and Modern Greek Studies, 1997)

حواشی ترمیم

  1. ایم۔ ولش، اشاعت. بٹلرز لائفز آف دی سینٹس (ہارپر کولنس بپلشرز: نیویارک، 1991)، صفحہ: 403
  2. سوزین کونکلن اکبری، آئیڈلز اِن دی ایسٹ: یورپین ریپریزنٹیشن آف اسلام اینڈ دی اورینٹ، 1100–1450، کورنل یونیورسٹی پریس، 2009 صفحہ۔ 204
  3. ڈیوڈ ریچرڈ تھوماس، سیرین کرسچینز اَنڈر اسلام: دی فرسٹ ٹھاؤزنٹ ایئرز، برل 2001 صفحہ: 19
  4. لوتھرن سروس بک (کونکورڈیا بپلشنگ ہاؤس، سینٹ۔ لوئیس، 2006)، صفحات۔ 478، 487۔
  5. ایکیولینا 1999, p. 222
  6. کرسٹوفر رینجرز (2000)۔ دی 33 ڈاکٹرز آف دی چرچ۔ تان بکس۔ صفحہ: 200۔ ISBN 978-0-89555-440-6 
  7. ^ ا ب ساہاس 1972, p. 32
  8. ساہاس 1972, p. 35
  9. R. Volk، ed.، Historiae animae utilis de Barlaam et Ioasaph (برلن، 2006ء)۔
  10. گریفتھ 2001, p. 20
  11. ^ ا ب پ ت ٹ براؤن 2003, p. 307
  12. ^ ا ب جانوسک 2016, p. 25
  13. ^ ا ب ساہاس 1972, p. 17
  14. ^ ا ب پ ساہاس 1972, p. 7
  15. جانوسک 2016, p. 26
  16. جانوسک 2016, pp. 26–27
  17. گریفتھ 2001, p. 21
  18. ^ ا ب ہولی لینڈ 1996, p. 481
  19. مِک-اینہل & نیولینڈز 2004, p. 154
  20. ولا 2000, pp. 455
  21. ہولی لینڈ 1996, pp. 487–489
  22. لوتھ 2002, p. 284
  23. ^ ا ب پ بٹلر, جونس & برن 2000, p. 36
  24. لوتھ 2003, p. 9
  25. ^ ا ب پ کیتھولک آن لائن۔ "سینٹ جان آف دمسقس"۔ catholic.org۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2017 
  26. بازنطینی تمثال شکنی
  27. جان بوناوینچر او'کونر۔ "سینٹ جان ڈیماسین"۔ دی کیتھولک انسائکلوپیڈیا۔ نیو ایڈونٹ۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2017ء 
  28. جیمسن 2008, p. 24
  29. لوتھ 2002, pp. 17, 19
  30. Calendarium Romanum (Libreria Editrice Vaticana 1969)، pp. 109, 119; cf. Britannica Concise Encyclopedia
  31. Kinnaman, Scot A. Lutheranism 101 (Concordia Publish House, St. Louis, 2010) p. 278.
  32. Lesser Feasts and Fasts, 2006 (Church Publishing, 2006)، pp. 92–93.
  33. St. John Damascene on Holy Images, Followed by Three Sermons on the Assumption – Eng. transl. by Mary H. Allies, London, 1899.
  34. "سینٹ جان آف ڈیمسقس: کریٹک آف اِسلام"۔ orthodoxinfo.com۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2017 
  35. Sbaihat, Ahlam (2015)، "Stereotypes associated with real prototypes of the prophet of Islam's name till the 19th century"۔ Jordan Journal of Modern Languages and Literature Vol. 7, No. 1, 2015, pp. 21–38. http://journals.yu.edu.jo/jjmll/Issues/vol7no12015/Nom2.pdf
  36. منصور بن سرجون المعروف بالقديس يوحنا الدمشقي۔ تأليف جوزيف نصر اللہ، ترجمة وتحقيق أنطون هبي۔ المكتبة البولسية، بيروت 1991
  37. http://www.amazon.fr/Homily-Annunciation-John-Damascus-ebook/dp/B00C1SS0NS/
  38. Nasrallah, Saint Jean de Damas, son époque, sa vie, son oeuvre, Harissa, 1930, p. 180
  39. حبیب ابراہیم۔ "کوسمس کے نام خط - Lettre à Cosmas de Jean Damascène (Arabe)"۔ academia.edu۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2017 
  40. http://www.amazon.fr/Philosophical-chapters-Arabic-ebook/dp/B00BZWCB1I/
  41. Nasrallah, Joseph. Histoire III, pp. 273–281
  42. http://www.amazon.fr/Philosophical-chapters-Arabic-Damascus-ebook/dp/B00BZWCB1I
  43. حبیب ابراہیم۔ "یوحنا دمشقی کی عربی زندگی - Vie arabe de Jean Damascène"۔ academia.edu۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2017 

حوالہ جات ترمیم

بیرونی روابط ترمیم