خواجہ محمود راجن
خواجہ محمود راجنسلسلہ چشتیہ لے معروف بزرگ ہیں۔
خواجہ محمود راجن اپنے والد گرامی خواجہ علم الدین کے بعد مسند نشین ہوئے، چشتیہ نسبت کے علاوہ شیخ خازن سے خرقۂ سہروردیہ بھی پایا تھا بلکہ سیّد محمد گیسودراز ، شیخ ابوالفتح اور شیخ عزیزاللہ (خلیفہ مجاز محبوب الہٰی ) سے بھی خلافت عطا ہوئی تھی۔ [1] ذہنی میلان یہ تھا کہ یک گیرد محکم گیر پر عمل پیرا رہا با جائے، اہل علم سے تھے اور علم کے قدر دان تھے، روایت ہے کہ ’’جو شخص بھی آپ سے کسب فیض کے لیے آتا آپ پہلے اسے دینی علوم کی طرف لگاتے اور اگر اس شخص میں علم کی رغبت و محبت ہوتی تو اس پر بے شمار انعامات کرتے، کتابیں اور نقدی اپنی گرہ سے عطا فرماتے اور پھر جو شخص علوم دینیہ کے حصول کے بعد آپ کا مرید ہو جاتا اسے قلیل مدت میں بغیر کسی مجاہدہ کے درجات اعلیٰ تک پہنچا دیتے۔‘‘ [2] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلۂ عظیم کے تمام نامور شیوخ علم کے بغیر کسی مقام و مرتبہ کے قائل نہ تھے، انھیں خوب دیا تھا کہ فرمانِ الہٰی یہی ہے کہ علم اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے، یہ تو عام متوسلین کے حوالے سے تھا خلافت کے لیے تو علم بنیادی شرائط میں سے تھا، علم، عمل اخلاص ان بزرگوں کے نزدیک خلافت کے لزومات میں سے تھے، ایسا نہ ہوتا تو انکار کر دیتے جیسا کہ محبوب الہٰی نے اخی سراج کے حوالے سے بیان کیا ہے، روایت ہے کہ جب محبوب الہٰی اپنے مریدین کو خلافت سے سرفراز فرمانے لگے تو لوگوں نے اس (یعنی اخی سراج رحمۃا للہ تعالٰی علیہ) کا نام بھی پیش کیا، شیخ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: ’’اس کام میں سب سے پہلا درجہ علم کا ہے۔‘‘ مولانا فخر الدین زرادی کو رحم آگیا اور انھوں نے چھ مہینے کے اندر اس کو عالم متبحر بنانے کا دعویٰ کیا گیا تو انھوں نے ’’آئینہ ہند‘‘ کا خطاب دے کر خلافت سے سرفراز فرمایا۔ [3] یہ تھا وہ معیار جو شیخ راجن کے ہمیشہ پیشِ نظر رہا۔ شیخ راجن نے 22 صفر 900ھ کو انتقال فرمایا، کہا جاتا ہے کہ احمدآباد میں دفن کیا گیا مگر بعد میں آپ کے مرید باصفا خواجہ جمال الدین چمن نے مزار کھود کر آپ کا جسد نکال لیا اور آبائی قبرستان پیراں پتن میں دفن کیا جو آج بھی زیارت گاہ ہے۔ [4]