درہ بولان ‘ کوئٹہ سے 24میل جنوب مشرق میں کولپور کے قریب دروازوئی سے سڑک کے ذریعے رند علی (ڈھاڈر) تک 57 میل اور ریل کے ذریعے مشکاف تک 63 میل لمبا ہے ۔

بولان کی نسبت ترمیم

درہ بولا ن کرد قبیلہ کے ایک نامور شخض ‘ بولان کے نام سے منسوب ہے ‘ بولان کی اولاد بولانزئی کے نام سے درہ بولان ہی کی وادی میں سکونت پزیر ہے۔ یہ درہ جو برصغیر پاک و ہند کے اہم ترین دروازوں میں سے ایک ہے ۔

آب وہوا ترمیم

جس طرح اس کو تاریخی ‘ جغرافیائی ‘ سیاسی اور فوجی نقطہ نگاہ سے منفرد مقام حاصل ہے۔ اسی طرح یہ آب و ہوا کے لحاظ سے بھی عجیب و غریب تضاد کا مظہر ہے۔ اس کے مشرقی دہانے پر ڈھاڈر واقع ہے۔ جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت 124 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ اور دوسری طرف مغربی دروازے پر کولپور ہے۔ جو تقریبا ً چھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اور جہاں سردیوں میں برفیلی اور یخ بستہ ہوائیں انسانوں کو بھی جما دیتی ہیں۔ اسی لیے جب اکتوبر میں کوئٹہ اور قلات ڈویژنوں کے پہاڑی علاقوں میں سردی شروع ہو جاتی ہے۔ تو یہاں کے مالدار ( مال مویشی پالنے والے ) قافلہ در قافلہ بولان کے راستے کچھی کے میدانی علاقوں کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں جہاں سردیوں میں موسم حد درجہ خوشگوار ہوتا ہے اور اسی طرح جب کچھی پانسا پلٹتا ہے اور وہاں گرمی شروع ہو جاتی ہے۔ تو مارچ میں ان کاروانوں کی واپسی سے بولان ایک دفعہ پھر شتر بانوں کے نغموں ‘ مالداروں کے شونکاروں ‘ مویشیوں کی ٹاپوں اور گھنگھریوں سے گونج اٹھتا ہے ۔

تاریخی حیثیت ترمیم

درہ بولان سینکڑوں صدیوں سے ایران اور قندہار سے ہندوستان کو جانے والے قافلوں کی گذر گاہ رہا ہے۔ فردوسی نے بھی اپنی مشہور کتاب شاہنامہ میں اس کی اہمیت کو واضح طور پر اجاگر کیا ہے۔ اسی طرح بعض دیگر مورخین اس خیال کے حامی ہیں کہ آرین اقوام بھی افغانستان سے چمن اور پھر بولان کے راستے سے سندھ میں داخل ہوئیں۔ درہ بولان ‘ متعدد طالع آزما بادشاہوں ‘ فاتح جرنیلوں اور جرار لشکروں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونجتا رہا ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی میں قندہار اور ہرات کے حکمرانوں نے سندھ پر حملوں کے لیے متعدد بار اپنے لشکروں کے ساتھ درہ بولان کی شاہراہ اختیار کی۔ شہزادہ دارا شکوہ نے بھی شاہجہان کے عہد حکومت میں بولان سے گزرکر افغانستان کے شہر قندھار کو فتح کیا۔1450ء میں سردار شہیک رند اور اس کے بیٹے میر چاکر اپنے قبیلے کے ہزاروں جیالوں کے ساتھ قلات سے روانہ ہو کر بی بی نانی کے مقام پربولان میں داخل ہوئے اور پھر ڈھاڈر اور سیوی پر قابض ہوئے۔ 1545؁ء میں جب ہمایوں بادشاہ کو شیر شاہ سوری نے شکست دی تو ہمایوں بھی درہ بولان سے ایران گیا اور واپسی پر بلوچوں کے مددگار لشکروں کے ساتھ اسی درے سے گذرا اور پانی پت میں سوریوں کو شکست دے کر دہلی کے تخت پر دوبارہ قبضہ کیا۔ 1667ء میں اورنگ زیب سے شکست کھا کر شہزادہ دارا شکوہ نے بھی ایران جانے کے لیے درہ بولان کا راستہ اختیار کیا۔ لیکن راستے میں ہی سردار جنید خان باروزئی نے اسے گرفتار کر کے اورنگ زیب کے پاس دہلی پہنچا دیا۔ جس کے صلے میں سردار جئیند خان کو بخت بلند خان کا خطاب دیا گیا۔1668ءسے 1740؁ء تک قلات کے خوانین متعدد بار درہ بولان سے گذر کر کچھی پر حملہ کرتے رہے اور بالآخر کچھی کو فتح کر کے اپنی حکمرانی میں شامل کر دیا۔ افغانستان کی پہلی لڑائی 1838 تا 1842 لڑنے کے لیے آرمی آف انڈس کے کمانڈر انگریز سپاہ سالار جنرل سرڈ بلیو کاٹن درہ بولان سے گذرے۔1878ء میں شاہ شجاع الملک کو افغانستان کے تخت پر بٹھانے کے لیے انگریزی افواج نے دوسری مرتبہ بولان کو عبور کیا۔ لیکن ہر بار انگریزی لشکر کو بلوچوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سید احمد شاہ بریلوی بھی اپنے لشکر کے ساتھ افغانستان جاتے ہوئے درہ بولان کے راستے ہی کو استعمال کیا تھا ۔

ریلوے لائن ترمیم

درہ بولان میں ریلوے لائن۔ 6اکتوبر 1879ء کو لائن بچھ گئی اور 14 جنوری 1880ء کو ریلوے سٹیم انجن سبی میں شونکار تا ہواداخل ہوا۔ 133میل لمبی ریلوے لائن صرف ایک سو ایک دن میں تعمیر کی گئی ۔

بولان پاس ریلوے کے فزیبلٹی سروے کے احکامات پہلی بار برطانوی حکومت نے 1876 میں جاری کیے تھے۔ پاس کے ذریعے ریلوے کی تعمیر کا کام 1880 میں شروع ہوا تھا لیکن 31 کلومیٹر طویل ٹریک بچھانے کے بعد جلد ہی روک دیا گیا تھا کیونکہ مشہور جنگ علاقے میں مائی ونڈ۔ 1885 میں دریائے بولان کے پلنگ میں تیزی سے ریل کی پٹڑی بچھا کر کام دوبارہ شروع کیا گیا اور آخر کار اگست 1886 میں ایک بھاپ سے چلنے والا انجن کوئٹہ میں داخل ہوا۔ موجودہ دور میں بولان پاس سے گزرنے والا ریلوے ٹریک پاس کے ذریعے ریلوے بچھانے کی تیسری کوشش ہے۔ 1889 میں ایک طوفانی سیلاب نے اس ٹریک کو تباہ کر دیا جو بولان ندی کے بستر پر پہلی بار بچھایا گیا تھا۔ زیادہ اونچائی پر ایک نیا ٹریک بچھایا گیا لیکن وہ بھی بہہ گیا۔ 1890 میں پاس کے ذریعے تمام سیزن ٹریک بچھانے کے احکامات جاری کیے گئے۔ اس نئے ٹریک کا افتتاح 15 اپریل 1897 کو ہوا تھا اور یہ ابھی تک کام کر رہا ہے۔ ٹریک کے ساتھ ساتھ کچھ جگہوں پر آپ یہاں پر ریلوے بچھانے کی پہلے کی دو کوششوں کی ترک شدہ سرنگیں اور ریل بیڈ دیکھ سکتے ہیں۔ سبی سے مغرب کی طرف سفر کرتے ہوئے، ریلوے لائن تیزی سے اونچائی حاصل کر لیتی ہے۔ درج ذیل جدول سبی اور کوئٹہ کے درمیان مختلف اسٹیشنوں کے فاصلے اور اونچائی دکھاتا ہے۔

بولان پاس کے فاصلوں کا ایک بہتر نقطہ نظر حاصل کرنے کے لیے میں نے سبی کو 0 کلومیٹر سمجھا ہے۔
0 کلومیٹر سبی 435 فٹ
17 کلومیٹر مشکاف 469 فٹ
50 کلومیٹر پیشی 1456 فٹ
63 کلومیٹر ابی گم 2157 فٹ
75 کلومیٹر مچ 3246 فٹ
89 کلومیٹر ہیروک 4552 فٹ
101 کلومیٹر کولپور 5874 فٹ
117 کلومیٹر سپیزنڈ 5858 فٹ
141 کلومیٹر کوئٹہ 5499 فٹ

اب گم سے کولپور تک ریل کی پٹری کا گریڈینٹ 25 میں 1 ہے جس کا مطلب ہے کہ ٹریک ہر 100 فٹ میں 4 عمودی فٹ چڑھتا ہے جو افقی طور پر سفر کرتا ہے۔ زیادہ تر ٹرینوں کے لیے پش پل کنفیگریشن میں دو انجنوں کا استعمال ایک ٹرین کو ابی گم سے کولپور تک لانے کے لیے کیا جاتا ہے، جو پاکستان ریلوے نیٹ ورک پر سب سے اونچا اسٹیشن (5874 فٹ) بھی ہے۔

جب کہ بولان پاس کے اوپر جانے کے لیے اضافی لوکوموٹیو پاور کی ضرورت ہوتی ہے، پاس سے نیچے آنے کے لیے اضافی بریکنگ پاور کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اضافی بریک پاور حاصل کرنے کے لیے مال بردار ٹرینوں کو بعض اوقات 5 سے 10 خالی ویگنوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تاکہ اضافی بریکیں دستیاب ہوں۔ سبی سے کوئٹہ کے راستے میں 17 سرنگیں ہیں۔

ہائی وے ترمیم

کوئٹہ کراچی ہائی وے کا تقریباً 57 میل لمبا حصہ درہ بولان سے گزرتا ہے یہ پختہ ہائی وے انیسوی صدی کے آخر میں فرنگیوں نے بلوچستان پر قبضہ کا یقین ہونے کے بعد اس وقت تعمیر کی جب بولان کی دریائی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے ان کی ایک پلٹن باربردار خچروں اور سامان رسد کے ساتھ دریائے بولان کے ناگہانی سیلاب کی بھینٹ چڑھ گئے تھے ۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. "درہ بالان ،تاریخی حقائق و واقعات – Balochistan Affairs"۔ 06 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اگست 2017