دلدار علی نقوی
آیت اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی نصیرآبادی (غفرانمآب نصیرآبادی ) ہندوستان کے ایک شیعہ عالم دین، مجتہد اور متکلم تھے، آپ کا مشہور لقب غفرانمآب تھا۔ ہندوستان میں شیعیت کے پایہ گذاروں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ـ آپ کے والد کا نام محمد معین اور دادا کا نام عبد الہادی تھا۔ آپ کے اجداد میں جنھوں نے سبزوار سے ہندوستان کی طرف ہجرت کی تھی ان کا نام نجم الدین تھاـ
غفران مآب | |
---|---|
سید دلدار علی نصیرآبادی | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 17 ربیع الثانی 1166ھ نصیر آباد |
وفات | 19 رجب 1235ھ لکھنؤ۔ |
رہائش | لکھنؤ |
مذہب | اسلام (شیعہ اثنا عشری) |
عملی زندگی | |
تعليم | اجتہاد |
مادر علمی | لکھنؤ ، نجف ، مشہد ، نصیرآباد |
پیشہ | مصنف |
وجہ شہرت | علمی شخصیت |
درستی - ترمیم ![]() |
ولادت
ترمیمآپ کی ولادت سنہ 1166ھ میں ضلع رائے بریلی کے ایک نصیرآباد نامی گاؤں میں ہوئی ـ
نسب نامہ: سید دلدار علی ابن سید محمد معین ابن سید عبد الہادی ابن سید ابراہیم ابن سید طالب ابن سید مصطفیٰ ابن سید محمد ابن سید ابراہیم ابن سید جلال الدین ابن سید زکریا ابن سید خضر ابن سید تاج الدین ابن سید نصیر الدین ابن سید علیم الدین ابن سید علم الدین ابن سید شرف الدین ابن سید نجم الدین سبزواری ابن سید علی ابن سید ابو علی ابن سید ابو یعلی محمد ابن سید حمزہ ابو طالب ابن سید محمد ابن سید طاہر ابن سید جعفر الزکی ابن امام علی النقی ع
تعلیم
ترمیماپنے خاندان میں آپ ہی پہلے شخص ہیں جو علم دین کی طرف مائل ہوئے چنانچہ سنڈیلہ ضلع ہردوئی میں آپ نے ملا حیدر علی پھر الہ آباد میں سید غلام حسین اور رائے بریلی میں ملا باب اللہ سے علوم عقلیہ اور نقلیہ کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد آپ نے فیض آباد اور لکھنؤ کا سفر کیا ـ اور وہاں جن علما سے بھی آپ کی ملاقات ہوئی ان سے آپ نے کسب فیض کیا ـ
سفر عراق
ترمیمہندوستان میں مختلف علما سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اعلیٰ علمی مدارج کی تحصیل کے لیے عراق کا سفر کیا اور کربلا میں جاکر سکونت اختیار کی، وہاں آپ نے آیت اللہ محمد باقر بہبہانی، آیت اللہ سید علی طباطبائی (صاحب کتاب ریاض المسائل) اور آیت اللہ مرزا محمد مہدی شہرستانی کے دروس میں شرکت کی ۔ اس کے بعد آپ نے نجف اشرف کا رخ کیا ،ـ وہاں بھی آپ نے ایک مدت تک قیام کیا اور آیت اللہ سید مہدی بحرالعلوم وغیرہ کے درس میں حصہ لیا ۔ اس کے بعد آپ ایران کے شہر مشہد آ گئے ،ـ وہاں بھی آپ نے زیارت کے بعد ایک عرصہ تک قیام کیا اور آیت اللہ سید محمد مہدی بن ہدایۃ اللہ خراسانی کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے آپ کے لیے ایک بہترین اجازہ اجتہاد تحریر کیا ۔.
ہندوستان مراجعت اور مذہبی خدمات
ترمیمسنہ 1200ھ میں آپ ہندوستان واپس آئے اور اپنے وطن نصیرآباد میں آکر دین اسلام کی تبلیغ میں مشغول ہو گئے۔وہاں آپ نے ایک مسجد اور امام بارگاہ بھی تعمیر کیا ۔عراق سے آپ کی واپسی کی خبر جب لکھنؤ میں حکومت اودھ کے ایک وزیر حسن رضا خان تک پہنچی تو انھوں نے آپ کو لکھنؤ میں رہنے کی دعوت دی چنانچہ آپ نے ان کی دعوت پر لکھنؤ کو ہمیشہ کے لیے اپنا مسکن قرار دے لیا اور وہیں دین و مذہب کی خدمت میں مشغول ہو گئے ۔
نماز جمعہ کا قیام
ترمیم27/ رجب المرجب (روز بعثت پیغمبر اسلام) سنہ 1200ھ کو لکھنؤ میں حکومت اودھ کے بادشاہ آصف الدولہ کے حکم سے شیعوں میں پہلی بار نماز جمعہ منعقد ہوئی جس کی امامت کے لیے بادشاہ نے خود آپ کا تقرر کیا ۔
آقا بزرگ تہرانی کی نگاہ میں
ترمیمعلامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں :
” | من اعاظم علما الشیعۃ فی عصرہ و من اشہر رجال العلم فی الھند. | “ |
صاحب جواہر کی نگاہ میں
ترمیمعلامہ سید محسن امین عاملی لکھتے ہیں کہ آیت اللہ شیخ محمد حسن نجفی (صاحب کتاب جواھرالکلام) جب بھی آپ کو خط لکھتے تھے تو ان الفاظ میں آپ کو مخاطب کرتے تھے :
”العلامۃ الفائق و کتاب اللہ الناطق، خاتم المجتھدین، شمس الانام، مصباح الظلام، من بھر العقول بدقائق افکارہ و انار شبھات العقول بکواکب انظارہ، حجۃ اللہ علی العالمین و آیتہ العظمیٰ فی الاولین و الآخرین“.[2]
تالیفات
ترمیم- احیاء السنة و اماتة البدعة (تحفہ اثنا عشریہ کے باب رجعت و معاد کا جواب)
- الصوارم الالٰھیة (تحفہ اثنا عشریہ کے باب پنجم کا جواب جو الٰہیات کے بارے میں ہے )
- حسام الاسلام و سھام الملام (تحفہ اثنا عشریہ کے باب ششم کا جواب جو نبوت کے بارے میں ہے)
- ذو الفقار (تحفہ اثنا عشریہ کے بارہویں باب کا جواب)
- اربعون حدیثا (علم اور علما کی فضیلت کے بارے میں چالیس حدیثوں کی شرح)
- اساس الاصول : یہ کتاب محمد امین استرآبادی کی اجتہاد کے خلاف اور اخباریت پر مشتمل کتاب الفوائد المدنیة کا دندان شکن جواب ہے جس پر آیت اللہ سید مہدی بحرالعلوم اور آیت اللہ سید علی طباطبائی (صاحب کتاب ریاض المسائل) نے تقریظ لکھی ـ
- شرح سلم العلوم : یہ کتاب علم منطق میں ملا حمداللہ سنڈیلوی کی کتاب سلم العلوم کی شرح ہے ـ
- عماد الاسلام فی علم الکلام : یہ کتاب پانچ جلدوں میں مذہب شیعہ کے پانچ اصول دین پر مشتمل ہے اور علم کلام میں سب سے بڑی کتاب جو تب تک لکهی گئی ہے۔ اس کتاب کا دوسرا نام مرآۃ العقول ہے ـ
- منتھی الافکار : یہ کتاب اصول فقہ کے موضوع پر ہے جس میں مؤلف نے مرزا ابوالقاسم گیلانی (محقق قمی) کی مشہور کتاب قوانین الاصول کے بعض مسائل پر تنقید کی ہے ـ
مذکورہ بالا تمام کتابیں وہ ہیں جو شائع ہوئیں ـ اس کے علاوہ آپ کی متعدد کتابیں شائع نہ ہوسکیں بلکہ مسودے کی شکل میں باقی رہیں ـ
مسودے کی شکل میں باقی رہ جانے والی کتابوں میں سے اہم کتابیں یہ ہیں :
- اثارۃ الاحزان فی مقتل الحسین
- ملا محمد تقی مجلسی (علامہ مجلسی کے والد) کی کتاب حدیقة المتقین کے باب طہارت کی شرح
- مذکورہ کتاب کے باب صوم کی شرح
- مذکورہ کتاب کے باب زکوۃ کی شرح
- شرح باب حادی عشر
- الشھاب الثاقب (صوفیت کی رد میں)
- المواعظ الحسینیة
- مسکن القلوب : یہ کتاب آپ نے اپنے جوان عالم بیٹے سید مہدی کی وفات پر شہید ثانی کی کتاب مسکن الفؤاد عند فقد الاحبة و الاولاد کے طرز پر لکھی ـ [3]
اولاد
ترمیمآپ کے پانچ بیٹے تھے:
- سلطان العلماء سید محمد "رضوان مآب"
- سید علی
- سید حسن
- سید مہدی
- سید العلماء سید حسین "علیین مکان"
یہ پانچوں بیٹے اپنے وقت کے بہترین عالم شمار ہوتے تھے نیز علما کا یہ سلسلہ آپ کی ذریت میں آج تک قائم ہے ،ـ
اس سلسلہ کی ایک عظیم الشان ہستی سید العلماء علامہ سید علی نقی نقوی ہیں جنھیں علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی نے لکھنؤ کے شیعہ علما میں اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم قرار دیا ہے ـ [4]
اس کے علاوہ ان کی دو بیٹیاں تھیں جن کے نام آمنہ بیگم اور تقیہ بیگم تھے، دلدار علی نے آمنہ بیگم کی شادی اپنے ہی خاندان کے مقصود علی کے بیٹے حاجی طالب حسین ناصرآبادی سے اور تقیہ بیگم کی شادی موالی حسین ناصرآبادی، موالی حسین اور تقیہ بیگم سے کی۔ وہ بے اولاد تھے جبکہ حاجی طالب حسین اور آمنہ بیگم کے چار بیٹے تھے۔
حاجی طالب حسین ناصرآبادی اور آمنہ بیگم کے چار بیٹے تھے: کرامت حسین، شرافت حسین، نادر حسین اور مصطفیٰ حسین۔ جن کے بچے آج بھی نصیر آباد، لکھنؤ، مدھیہ پردیش اور پاکستان میں موجود ہیں۔
تلامذہ
ترمیمآپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے ـ
یہاں پر آپ کے چند مشہور شاگردوں کے اسماء درج کیے جا رہے ہیں :
- علامہ سید محمد قلی موسوی کنتوری
- مولوی یاد علی (جنھوں نے فارسی میں تفسیر منھج السداد لکھی)
- سید احمد علی محمدآبادی
- سید مرتضی
- مرزا جعفر
- مرزا محمد خلیل
وفات
ترمیم19/ رجب المرجب سنہ 1235ھ کو لکھنؤ میں آپ کی وفات ہوئی اور جو حسینیہ آپ نے بنایا تھا اسی میں آپ کو دفن کیا گیا ـ یہ حسینیہ آپ کے بعد آپ ہی کے نام سے موسوم ہوا یعنی حسینیہ غفرانمآب ـ