راؤ مالدیو راٹھور
مالدیو راٹھور مارواڑ کے فرماں روا تھے ، مارواڑ بعد ازاں جودھ پور کہلایا (موجودہ دور میں راجستھان انڈیا)۔ ان کے والد کا نام راؤ گنگا جی اور والدہ کا نام رانی پدماوتی تھا۔ راؤ ملدیو نے خانواہ کی لڑائی میں ایک شہزادے کی حیثیت سے حصہ لیا تھا گو یہ لڑائی راجپوت ہار گئے تھے جس سے تمام راجپوت حکمران بھارت میں کمزور ہو گئے۔ مالدیو کی عمدہ حکمرانی میں مارواڑ ایک تگڑی ریاست راجپوت ریاست بن گئی جس نے شمالی بالادستی کو للکارا اور بدیشی راج کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ مالدیو نے مغل اور سوری دونوں سلطنتوں سے اتحاد کرنے سے انکار کیا اور اس پالیسی پر اس کے بعد راجا بننے والا بیٹا چندرسین راٹھور بھی قائم رہا۔
مالدیو راٹھور | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
راجا مالدیو راٹھور | |||||||
مارواڑ کا فرماں روا | |||||||
ت 1532 – تقریباً 1562 | |||||||
پیشرو | راؤ گنگا | ||||||
جانشین | چندرسین راٹھور | ||||||
نسل | 22 بیٹے اور 19 بیٹیاں بشمول رام سنگھ راٹھور راؤ چندر سین ادھے سنگھ | ||||||
| |||||||
شاہی خاندان | راٹھور | ||||||
والد | راؤ گنگا راٹھور | ||||||
والدہ | پدما کماری | ||||||
پیدائش | 12 مئی 1511 جودھ پور، بھارت | ||||||
وفات | 7 نومبر 1562 مہران گڑھ، جودھ پور، بھارت | (عمر 50 سال)||||||
مذہب | ہندو مت |
فارسی مورخ فرشتہ کے مطابق مالدیو"ہندوستان کا سب سے طاقتور راجا" تھا۔ [1]
طبقات اکبری میں نظام الدین نے مالدیو کو" ہند کا سب سے عظیم راجا" لکھا ہے۔ [2]
خاندان
ترمیممالدیو 5 دسمبر 1511 میں پیدا ہوا اور یہ راؤ گنگا، فرماں روا مارواڑ، کا سب سے بڑے بیٹا تھا۔ والدہ پدما کماری سروہی راجدھانی کی شہزادی تھیں۔ 1532 میں تخت پر براجمان ہوا اور اس وقت اپنی حیثیت ایک جنگجو کے منوا چکے تھا۔ مہشور اور روایتی ذرائع اسے مارواڑ کا سب سے اہم حکمران گردانتے ہیں۔.[3]
توسیع
ترمیمراؤ مالدیو نے اپنے باپ سے ضلع جودح پور اور پالی وراثت میں پائے تھے جس میں جودھ پور دار الحکومت تھا۔ راؤ مالدیو کا دور شمالی ہند میں ایک طاقتور اور بااثر حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ 1540 میں ، ہمایوں شاہ دہلی سلطنت ، شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر جلاوطن ہو گیا۔ میواڑ کے حکمران ابھی 1527 میں خانوا کی شکست سے سنبھل نہیں سکے تھے، مالدیو نے اس موقع کو اپنی ریاست بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے بکنار ، جے تران ، سوانا ، جلور، ٹونک، ناگور، بارمر، سیکر، اجمیر اور جھجر کو اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ سوانا ، جلور اور ناگور کے علاقوں کو افغان قبضے سے چھڑا کر مالدیو راٹھور نے ہندو راج بحال کر دیا اور جزیہ ٹیکس ختم کر دیا۔ اس کی شمالی سرحد جھجر دہلی سے فقط پچاس کلومیٹر دور تھی۔ [4]
ستیش چندرا کے مطابق مالدیو بادشاہت تقریبا پورے مغربی اور مشرقی راجستھان پر مشتمل تھی جس میں سنبھال اور نرنول بھی شامل تھا۔ اس کی فوجیں آگرا کے گرد و نواح تک میں دیکھی جا سکتی تھیں۔ مالدیو کا خواب تھا کہ آٹھوین صدی کی راشٹراکٹا سلطنت بحال کر دی جائے مگر رانا سانگا کے برعکس اسے راجپوت قبائل کی حمایت حاصل نہ تھی اور سیاسی طور پر کوئی سلطنت جو صرف راجستھان میں ہو وہ پنجاب سے لے کر گنگا وادی تک پھیلی سلطنت کو سکشت نہیں دے سکتی تھی۔ [5]
جانشینی
ترمیممالدیو راٹھور نے اپنے تیسرے بیٹے چندرسین راٹھور کو اپنا جانشین مقرر کیا مگر اس کی موت کے بعد ، مارواڑ کے تخت کے لیے لڑائی شروع ہو گئی۔ اکبر نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1562 میں میرٹ پر قبضہ جما لیا اور 1563 میں جودھ پور کو بھی باجگزار بنا لیا۔ [6]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Somerset Playne, R. V. Solomon, J. W. Bond, Arnold Wright (2006). "Indian states: a biographical, historical, and administrative survey", Delhi: Asian Educational Services, p. 196
- ↑ A History of Jaipur: C. 1503-1938, By Jadunath Sarkar, pg 34
- ↑ Rima Hooja (2006)۔ A history of Rajasthan (بزبان انگریزی)۔ 518: Rupa & Co.
- ↑ Majumdar, R.C. (ed.) (2006). The Mughul Empire, Mumbai: Bharatiya Vidya Bhavan, pp. 81–2
- ↑ Medieval India (1526-1748) Part two. by Satish Chandra. Pg-79
- ↑ Sarkar, J.N. (1984, reprint 1994). A History of Jaipur, New Delhi: Orient Longman, آئی ایس بی این 81-250-0333-9, p. 41