رانارتن سنگھ (انگریزی: Rana Ratan Singh) عمرکوٹ کے حکمران تھے۔اُن کا تعلق راجپوتوں کے سوڈھا قبیلے سے تھا۔ انھوں نے راج برطانیہ کی جانب سے غریب لوگوں پرلگائے گئے ناجائز لگان کے خلاف ایک بے مثل جدوجہد کی جوراج برطانیہ کی نظرمیں بغاوت ٹہری.وہ تھر کے صحراؤں چھپ کر راج برطانیہ کے خلاف اپنی کارروائیاں کرتا رہا مگر آخر کار اس کو پکڑ کر قید کر لیا گیا۔ اگرچہ ملکہ وکٹوریہ نے علاقے کے بااثر لوگوں کی سفارشات پراس کو معاف کرکے آزاد کر دیا مگر رانا رتن اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا کہ غریب لوگوں پر سے اس غیر منصفانہ ٹیکس کا خاتمہ کیاجائے ورنہ وہ انگریزوں کے خلاف کارروائیاں کرنے سے باز نہیں رہے گا. انگریزوں نے بھی رانا رتن سنگھ کے تیور اور اس کے دور رس اثرات کوسمجھتے ہوئے غریبوں کے عظیم باغی کے انجام کو سندھ کے تمام لوگوں کے لیے ایک عبرت کی مثال بنانے کا تہیہ کر لیا. انھوں نے عمر کوٹ کے مشہور قلعے کے بیچوں بیچ رانارتن کو پھانسی لگانے کے لیے پھانسی گھاٹ کی تیاری شروع کردی تاکہ تمام لوگ اس کے انجام کو دیکھ کر چپ چاپ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہو جائیں. جب پھانسی گھاٹ تیار ہوا تو تمام آس پاس کے گاؤں میں اس بات کا اعلان کیا گیا اور رانا کو ان کے سامنے آہستہ آہستہ پھانسی گھاٹ کی اونچی سیڑھیاں چڑھا کرپھانسی کے پھندے کے نیچے کھڑا کیا گیااور آخری خواہش دریافت کی گئی جس پررانا نے اپنے بندھے ہاتھوں کو کھولے جانے کا کہا. ہاتھوں کے آزاد ہوتے ہی اس نے انتہائی بااعتمادی سے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر ان کی نوکوں کو اوپر کی جانب کیا. مونچھوں کو بل یا تاؤ دینا برصغیر کے لوگوں کا ایک ایسا انداز ہے جس سے اظہار کیا جاتا ہے کہ انسان کس قدر دلیر اور بے خوف ہے۔ یہ ایک انتہائی درجہ کی خود اعتمادی اور بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ راجپوت رانا رتن سنگھ سوڈھا کو اس دلیرانہ انداز سے پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالتے دیکھ کر آزادی کا جذبہ غیر مرئی فتح کے احساس کے ساتھ ابھر کر سندھ دھرتی کی ہواؤں اور عوام میں میں پھیل گیا۔ اس انداز بے مثل نے ان کی روحوں کو غلامی سے نجات دلا دی. اس واقعہ پر سندھ کا مشہور لوک گیت ” مور تو ٹلے رانا “ تخلیق ہوا جس میں اس بے مثل تھرپارکر کے دلیر اور بہادر مور کی موت پر ماتم کر کے دکھ غم کا مرثیہ نہیں کہا گیا بلکہ یہ خوشی کا گیت ہے اور عموماً بچے کی پیدائش کے موقع پر گایا جاتا ہے۔ اس میں آنگن میں کھیلتے ننھے بچے کو برسات میں بھیگتے مور کے رقص سے تشبیہ دی گئی ہے اس گیت کے اہم بول میں ”ہزاروں رانا رتن جیسے دلیر اور بہادر بچے سندھ دھرتی پر پیدا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے ”رانا تومن راج تھیندا,لکھ تھیندا “کا مطلب بھی یہی ہے کہ رانا تمھاری ہی حکومت ہوگی اور تمھارے جیسے ہزاروں ہوں گے.یہ گیت تھر کے صحرائی ماحول کی خوشیوں کا حسین اور لازوال حصہ بن گیا ہے اور رانا رتن سنگھ سوڈھا کی بہادری اور غریبوں کے حق میں جدوجہد و قربانی کی یاد دلاتا ہے.

حوالہ جات

ترمیم