رباب بنت امرؤ القیس امام حسین کی زوجہ تھیں۔ کہا جاتا ہے عرب کے مشہور شاعر امرؤ القیس کی بیٹی تھیں لیکن یہ بات درست نہیں چونکہ اس شاعر کا زمانہ حیات اسلام سے ایک صدی پہلے کا ہے۔ ان کا پورا نسب یوں ہے۔ رباب بنت امرؤ القیس بن عدی بن اوس۔ آپ ایک زبردست شاعرہ بھی تھیں۔

رباب بنت امرؤ القیس
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 680ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر حسین ابن علی  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد علی اصغر،  رقیہ بنت حسین،  سکینہ بنت حسین  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں سانحۂ کربلا  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شادی ترمیم

ابوالفرج اصفہانی نے عوف بن خارجہ سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:- میں عمر بن خطاب کے پاس موجود تھا کہ ایک مسیحی عرب اس کے پاس آیا اور سلام کرنے کے بعد کہا کہ میں مسیحی ہوں اور میرا نام امرؤ القیس ہے اور مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور اسلامی احکام سیکھنا چاہتا ہوں۔

اس کو اسلام کی وضاحت دی گئی اور وہ مسلمان ہو گیا اس کو شام کے قبیلے قضاعہ کی امارت کی پیشکش کی گئی۔

جب عمر کے دربار سے نکلا تو علی بن ابی طالب سے ملاقات ہو گئی امام حسن اور حسین ابن علی بھی ان کے ہمراہ تھے۔

علی نے اس سے فرمایا میں علی بن ابی طالب ہوں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چچا زاد بھائی اور داماد ہوں اور یہ دو میرے بیٹے ہیں جن کی والدہ فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ تھیں ہم آپ سے وصلت (بیٹی کا رشتہ) چاہتے ہیں۔

امرؤ القیس بہت خوش ہوا اور کہا کہ اے علی! میں اپنی محیات نامی بیٹی کو آپ کے نکاح میں دیتا ہوں اور اپنی دوسری بیٹی سلمی آپ کے بیٹے حسن اور تیسری بیٹی رباب حسین کو دیتا ہوں۔

اولاد ترمیم

رباب کے امام حسین سے دو بچے ہوئے ایک بیٹا عبد اللہ جسے علی اصغر بھی کہا جاتا ہے اور ایک بیٹی سکینہ۔ رباب ایک بلند مرتبہ خاتون تھیں اور امام حسین علیہ السلام کی نظر میں خاص قدر و مقام رکھتی تھیں اسی لیے امام نے ان کے بارے اور اپنی بیٹی سکینہ کے بارے اپنے میں یوں فرمایا۔

لعمرك إنني لأحـب دارا تكون بها سكینۃ والرباب
أحبهما وأبذل جل مالي وليس لعاتب عندي عتاب
مجھے وہ گھر بہت پسند ہے جس میں سکینہ اور رباب ہوں
میں ان دونوں کو چاہتا ہوں اپنا مال ان کو بخشتا ہوں اور کوئی ملامت نہ کرے۔

واقعہ کربلا ترمیم

واقعہ کربلا میں آپ موجود تھیں اور ابن زیاد کے دربار میں جب امام عالی مقام کا سر مبارک لایا گیا تو آپ اپنے سرتاج کا سر دیکھ کر بے تاب ہو گئیں اور اس سے جا کر لپٹ گئیں اور نوحہ خوانی فرمائی۔

ابن اثیر لکھتا ہے: آپ اسیری میں شام گئیں اور جب واپس مدینہ آئیں قریش کے اشراف نے آپ کو رشتے بھیجے مگر آپ نے یہ فرما کر ٹھکرا دیے کہ:- میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہو بننے کے بعد اب کسی کی بہو نہیں بن سکتی۔

سوگ اور وفات ترمیم

آپ ایک سال تک روتی رہیں اور آسمان کے علاوہ کسی چھت تلے نہیں گئیں اور دکھ اور سوگ میں ہی 62 ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔[1]

مآخذ ترمیم

  • نفس المہموم، صفحہ 527
  • کامل بن اثیر، ج 4، ص 88
  • قصہ کربلا، ص 545.

حوالہ جات ترمیم

  1. شیخ عباس قمی، نفس المہموم صفحہ 298