رقیہ بنت علی
رقیہ بنت علی( د. 656–661 ) عالم اسلام کے چوتھے خلیفہ سیدنا و مولانا علی بن ابی طالب کی صاحبزادی اور سیدنا عباس علمدار کی ہمشیرہ تھیں۔ وہ مکران اور لاہور اپنی کچھ ساتھیوں اور عزتی داروں کے ہمراہ اسلام کی تبلیغ کے لیے گئیں۔ کچھ روایات کے مطابق ان کا مدفن قاہرہ میں ہے اور کچھ روایات کے مطابق ان کا مدفن پاکستان کے شہر لاہور میں ہے۔
رقیہ بنت علی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مدینہ منورہ |
مدفن | مشھد سیدہ رقیہ |
شوہر | مسلم بن عقیل |
اولاد | عبد اللہ بن مسلم بن عقیل |
والد | علی بن ابی طالب |
بہن/بھائی | |
درستی - ترمیم |
پیدائش اور نسب
ترمیمسیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا علی ابن ابی طالب کی بیٹی تھیں۔ وہ عباس بن علی بن ابی طالب، جو علمدار کربلا کے نام سے مشہور ہیں کی ہمشیرہ تھیں۔
ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنت حزام الکلابیہ العلویہ تھا، جو ام البنین کے نام سے مشہور تھیں ، جو علی ابن ابی طالب کی بیوی تھیں۔ وہ قبیلہ بنو کلاب کلباسی، خاص العباسیہ سے تھیں۔ [1]
امام علی کے زمانے میں
ترمیمسانح کربلا کے بعد سیدہ رقیہ کی قیادت میں پانچ مسلم خواتین نے مکہ چھوڑ کر لاہور میں مذہب کی تبلیغ کا ارادہ کیا، جس کے نتیجے میں کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ اسلام میں داخل ہوا۔
کچھ اسلامی مورخین کے ایک مکتب فکر کے مطابق، رقیہ کو ان کے والد نے اسلامی عقیدے کی تبلیغ کے لیے سندھ جانے کی ہدایت کی تھی۔ یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ان کا مشن کامیابی حاصل کرے گا۔ واقعہ کربلا کی تلخیوں نے سیدہ رقیہ کو مکران ہجرت کرنے پر مجبور کیا جہاں انھوں نے کئی سالوں تک اسلام کی تبلیغ کی۔ محمد بن قاسم بھی رقیہ کے مصائب کو جاننے کے بعد ان کے حامی بن گئے۔ لیکن کثیر تعداد میں روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ محمد بن قاسم ان کا دشمن تھا اور عرب سے سندھ کی طرف انھیں خواتین کو شہید کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔
رقیہ کی جان کو خطرات لاحق تھے جس کی وجہ سے وہ لاہور آکر آباد ہوگئیں۔ سیدہ رقیہ نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں لاہور میں امن کے ساتھ جاری رکھی۔
وفات
ترمیمروایات کے مطابق انکا مدفن لاہور میں ہے۔ ان کی کی وفات کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہے۔ انھیں لاہور میں بی بی پاک دامن میں سپرد خاک کیا گیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Harouf.com