روانی بلوچوں کا پاڑہ اور رند بلوچ قبیلہ کی ایک مضبوط شاخ ہے۔ قوی تحقیق ہے کہ بلوچ قوم کا تعلق شام کے علاقہ حلب کی وادی بلوص سے ہے۔ مزید تحقیق سے پتہ چلتا ہے۔ کہ ایران۔ پاکستان میں آباد بلوچوں کے ہزاروں پاڑے حلب میں اپنی فطری خصلت یعنی لڑنے اور آگے بڑھنے کے پیش نظر نقل مکانی کرکے وادی بلوص میں آباد ھوئے تھے۔ ایران کے صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں آباد قبائل میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ پاکستان میں آباد بلوچ قبائل کو دو بڑے گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

  • سلیمانی
  • مکرانی ۔

کوہ سلیمان کے مغربی اور مشرقی جانب آباد قبائل میر شہلک خان رند کے دور سے پہلے آباد تھے۔ ان میں بگٹی لاشاری رند اور اس کی ذیلی شاخیں شامل ہیں۔ میر چاکر خان رند کی تیس سالہ جنگ جو لاشاریوں کے ساتھ لڑی گئی تھی انتشار کا باعث بنی۔ مزید براں آمدپنجاب میں دودائیوں اور غیر بلوچ اقوام کے ساتھ جنگ نے بلوچوں کے بڑے 44 قبائل کی تنظیم کو منتشر کر دیا تھا۔ میر چاکر خان رند جب پنجاب پر راج کرنے آیا تو جو رندوں کے مشہور پاڑے مختلف امور کی انجام دھی کے لیے ساتھ آے تھے ان میں سرفہرست رند۔ جتوئی۔مندانی۔ دستی گورشیانی۔ اندرا۔ دریشک۔ لنڈ۔ بزدار۔ لغاری۔ نتکانی۔ چنگوانی۔ میرانی۔ چاکرانی۔گبول۔گدائی۔ عالیانی۔ روانی۔ رمدانی۔ میروانی(جتوئی)۔گورمانی۔ برمانی۔ قیصرانی۔ مزاری۔ کچھیلا۔ غزلانی۔ پتافی۔ شر۔گوپانگ احمدانی۔ ناھر۔ وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ رندوں کا ایک قبیلہ روانی بعد ازاں میر چاکر خان رند اور میر بجار خان جتوئی رند کی اندرونی لڑائی میں دوسرے بہت سے پاڑوں کی طرح تقسیم ھو گیا تھا۔1555 میں میر بجار خان جتوئی نے میر چاکر خان کے کہنے پر ھندوستان پر حملہ کیا شیر شاہ سوری سے جنگ کر کے مغلیہ سلطنت کے نامور بادشاہ ھمایوں کو چھینی ہوئی سلطنت واپس دلائی جس پر ھمایوں نے تقریبا" آج کے پاکستان کا آدھا حصہ پر محیط علاقے ان کو تحفے میں دے دیا اور بلوچوں سے مضبوط دوستی قائم کر کے مغلیہ سلطنت کو تقویت دے دی۔ بعد ازاں میر چاکر خان نے اپنے بیٹوں کے لیے ستگھرہ میں محل تعمیر کرا دیے جس پر میر بجار خان ناراض ہو گیا یہ ناراضی اتنی طول پکڑ گئی کہ میر چاکر خان کی بیٹی نے میر نوتک خان کے ساتھ اوکاڑہ کو چھوڑ کر ملتان کے نواح میں آباد ھو گئی میر چاکر خان کو اپنے نواسے میر لوہار خان سے اس قدر محبت تھی کہ اس کی جدائی نے میر چاکر خان کے لیے زندگی بھر کا روگ لگا دیا۔ میر لوہار خان بچپن میں ایک فولادی جسم اور طاقتور جنگجو بن گیا تھا وہ لوہے کو ہاتھ سے توڑ اور مروڑ سکتا تھا اور تیر اور تلوار اس کے جسم پر اثر نہیں کرتے تھے آج بھی میر لوہار خان کی اولاد لوہارات کہلاتی ہے اور جنگ و جدل انکا مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔ میر لوہار خان نے کئی اہم جنگیں اپنے دادا میر بجار خان کی سرپرستی میں بھی لڑیں۔ میر چاکر خان اور میر بجار خان نے اپنی اپنی فوجیں الگ کر لی۔جس سے میر چاکر خان کا فتوحات کا سلسلہ رک گیا جبکہ میر بجار خان نے اپنا جنگی سلسلہ جاری رکھا۔میر بجار خان جتوئی نے نے اپنے بڑے بیٹے میر نوتک خان کو جتوئی ضلع مظفر گڑھ دوسرے بیٹے شھک خان کو ساہی وال اور تیسرے بیٹے میر ابراہیم خان کو سندھ میں آباد کیا اور اپنے سب سے چھوٹے بیٹے میر اسحاق خان کو اپنے ساتھ بلوچستان لے گیا۔ ایک گروہ 1610ء تک میر بجار خان جتوئی کے ساتھ اندرون سندھ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنی عملداری قائم کرتا ھوا واپس مکران واپس چلا گیاتھا۔ جبکہ دوسرا گروہ میر چاکر خان رند کے ساتھ اپر پنجاب تک گیا۔ یہی وجہ ہے کہ روانی قبیلہ پنجاب اور بلوچستان میں بکھر کر رہے گیا ہے۔ کچھ ضلع خانیوال اور ضلع ملتان اور کچھ ضلع راجن پور میں آباد ہیں۔ ضلع راجن پور میں 1610ء میں یہ قبیلہ اپنے دیگر ساتھی قبائل کے ساتھ کوہ سلیمان کے دامن میں آباد ھوا تھا۔ پھر حصول روزگار کے لیے قدیمی قصبہ نواں شہر 1750ء میں سردار اللہ وسایا خان روانی بلوچ اور اس بیٹے سردار اللہ دھایا خان روانی بلوچ نے ایک قطعہ خرید کیا اور یہی آباد ھو گے تھے سردار اللہ ودھایا خان روانی بلوچ کے تین فرزند رسول بخش خان۔ عبد الرحمان خان۔ اور حسین بخش خان تھے۔ سردار اللہ ودھایا خان کا دوسرا بیٹا عبد الرحمن خان کو پڑھائی کے شوق نے قصبہ نواں شہر سے دیوبند (حالیہ بھارت) پہنچا دیا۔ 1913ء میں ملتان پھر لاہور اور پھر ایک قافلہ کے ساتھ دھلی اور پھر مدرسہ دیوبند میں اپنی دینی دنیاوی اور خاص کر طب کی تعلیم حاصل کی۔ واپس آکر راجنپور شہر میں آباد ھوکر مشہور و معاروف حاذق الحکیم حکیم عبد الرحمن خان رحمانی اپنے نام کی نسبت سے رحمانی کے لقب سے تادم مرگ عوام کی خدمت کرتے رہے۔ حکیم صاحب راجنپور کی وہ واحد شخصیت تھے جنھوں نے طب جراحی اور اخبار بینی کو متعارف کرایا تھا۔ آج بھی یہی بلوچ خاندان اپنے نسبتی لقب "رحمانی" کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ حکیم بشیر احمد خان رحمانی، حکیم سعید احمد خان رحمانی حکیم روف احمد خان رحمانی ڈاکٹر گلزار احمد خان رحمانی۔ ڈاکٹر انعام الحق خان رحمانی۔ ڈاکٹر خرم گلزار خان رحمانی۔ ڈاکٹر طلحہ گوھر خان رحمانی۔ احسان الحق خان رحمانی روانی بلوچ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نزیر احمد خان رحمانی خالد منظور خان رحمانی ایسی قبیلہ روانی کے چشم و چراغ ہیں۔[1][2]

حوالہ جات ترمیم

  1. تاریخ بلوچ قبائل از ڈاکٹر عبد الحق بلوچ
  2. ذاتیات انساکلوپیڈیا از شفیق بلوج
  1. بلوچ قبائل کامران اعظم سوہدروی
  2. شہانی:بلوچ قبائل