ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (انگریزی: Radiocarbon dating) کی ایجاد 1950ء کی دہائی میں امریکی کیمسٹ ولارڈ لیبی اور ان کے کچھ طلبہ نے شکاگو یونیورسٹی میں کی تھی۔ 1960ء میں اس نے اس ایجاد کے لیے کیمیا میں نوبل انعام جیتا تھا۔ یہ اب تک کا ایجاد ہوا پہلا مکمل سائنسی طریقہ یا تکنیک ہے جس نے پہلے کسی محقق کو یہ طے کرنے کی اجازت دی کہ نامیاتی شے کی موت کتنی دیر پہلے ہوئی ، چاہے وہ سیاق و سباق میں ہو یا نہیں۔[1]

طریقہ کار ترمیم

ریڈیو کاربن ڈیٹنگ قدرتی چیزوں میں موجود انہی کاربن ایٹموں کی تعداد کے حساب سے یہ اندازہ لگاتی ہے کہ اس مادے کو ڈاپنی حیثیت کھو دینے اور دوسری شکل میں ظاہر ہوتے ہوئے کتنا عرصہ گذر چکا ہوگا۔ فضا میں ہر گیس کا ایک خاص تناسب ہوتا ہے۔ جب کوئی جاندار مر جاتا ہے تو کیمیائی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے اور یہ تناسب بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ریڈیو ایکٹو عناصر ایک خاص تناسب سے سڑ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے سڑنے کا یہ عمل وقت کے ساتھ منسلک ہے، یعنی ایک خاص عرصے میں ایک خاص مقدار ہی ڈی سڑے گی۔ اس طرح جب کسی مادے میں موجود ریڈیو ایکٹو کاربن کے ایٹموں کا تناسب دیکھا جاتا ہے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مادے کو گلتے سڑتے کتنا وقت گذر گیا ہے۔ اسی محتاط اندازے کو ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کہا جاتا ہے۔[2]

افادیت ترمیم

برطانیہ میں کرین فیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو شارٹ لینڈ کے بہ قول یہ جاننے کے لیے کہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی تیکنیک کتنی قابل اعتبار ہے، سب سے پہلے ا سے ان اشیا پر استعمال کیا گیا جن کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ کب بنی تھیں۔ اب یہ تیکنیک اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ہم اس سے یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ مصر کی تاریخ کے بارے میں ہماری معلومات درست ہیں یا نہیں۔[3]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم