زرینہ بلوچ
زرینہ بلوچ معروف گلوکارہ، استاد، ترجمہ نگار، اداکارہ اور سیاسی جدوجہد کے حوالے سے بڑا نام۔ سندھ کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے بیس سال تک سندھ یونیورسٹی کے ماڈل اسکول میں پڑھایا۔1964 میں عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو سے شادی کی۔ضیا دور میں بھٹو بچاؤ تحریک میں انھوں نے دو سال قید کاٹی۔ ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا۔ دو سال قبل کالاباغ ڈیم کے خلاف جب سندھ کے لوگوں نے بھٹ شاہ سے کراچی تک لانگ مارچ کیا تو انھوں نے اس میں حصہ لیا۔ اس دوران میں پولیس نے دو مرتبہ ان پر لاٹھی چارج کیا۔ انھوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے احتجاجوں میں شرکت کی۔
زرینہ بلوچ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 دسمبر 1934ء پاکستان |
تاریخ وفات | 25 اکتوبر 2005ء (71 سال) |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
اولاد | ایاز لطیف پلیجو |
عملی زندگی | |
پیشہ | گلو کارہ ، کارکن انسانی حقوق |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
گلو کاری و اداکاری
ترمیمزرینہ بلوچ نے شیخ ایاز، استاد بخاری اور تنویر عباسی کو بہت گایا۔ بلوچی گانے، گل خان نصیر کی شاعری، اردو میں فیض احمد فیض، احمد فراز اور بعض سرائیکی گیتوں کو سر دیا۔
ان کی تین درجن سے زائد آڈیو کیسٹ ریلیز ہو چکی ہیں۔ میونخ فیسٹیول میں ان کی اداکاری پر مشتمل ڈراما "دنگي منجھ دريا" دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر آیا۔ انھوں نے اردو میں انا، جنگل، کارواں اور سندھی میں رانی کی کہانی جیسے مقبول ڈرامے کیے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انھیں پرائیڈ اف پرفارمنس دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پی ٹی وی ایوارڈ، لطیف، سچل، شہباز اور کئی ایوارڈ بھی حاصل کیے۔
گیت
ترمیمانھوں نے قومی گیت گا کر سندھ کی قومی تحریکوں میں جوش پیدا کیا۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی وجہ سے ان کی صرف کوئی ایک پہچان نہیں۔ اس لیے سندھ کے سیاسی اور ادبی حلقوں میں انھیں "جیجی" کہا جاتا تھا۔ انھوں نے سندھی کے شادی بیاہ کے گیتوں کو جان بخشی۔
کتاب
ترمیمانھوں نے ایک کتاب "تنهنجي ڳولها، تنهنجيون ڳالهيون" ( تمھاری تلاش، تمھاری باتیں) لکھی۔ تین سے زائد ڈراما لکھے۔ زان پال سارتر کی کتاب دیوار کا سندھی ترجمہ کیا۔
وفات
ترمیمزرینہ بلوچ کا انتقال 25 اکتوبر 2005ء کو کراچی، پاکستان میں ہوا۔