زینب محمد غزالی جبیلی اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والی مصر کی مشہور دعوتی، تبلیغی اور سیاسی مسلم خاتون ہیں۔ اخوان کی اہم خاتون رہنماؤں میں شمار ہوتا ہے، ان کی دعوتی اور اخوانی زندگی جد وجہد اور عزیمت سے بھری ہوئی ہے۔

زینب غزالی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 2 جنوری 1917ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میت غمر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 اگست 2005ء (88 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مصر   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ الازہر   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ دعوہ ،  سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان مصری عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  مصری عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

2 جنوری سنہ 1919ء میں میت غمر، محافظہ دقہلیہ کے ایک "میت یعیش" نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں، ان کے والد جامع ازہر کے علما میں سے تھے، زینب کی ہرورش اسی آبائی گاؤں میں دینداری، صلاح و تقویٰ اور فضیلت و حق کے ساتھ ہوئی، بچپن ہی میں انھیں "نسیبہ بنت کعب" (ایک عظیم صحابیہ ام عمارہ کا نام ہے) نام سے نسبتاً وتبرکاً پکارا جاتا تھا۔

10 سال کی عمر میں ان کے والد کی وفات ہو گئی، زینب اپنی والدہ اور بھائیوں کے ساتھ قاہرہ منتقل ہو گئیں، اپنے بڑے بھائی کے اعتراض کے باوجود انھوں نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا، بچپن ہی سے وہ مشہور مصری مصنفہ عائشہ تیموریہ کو پڑھتی تھیں اور ان سے متاثر تھیں۔ قاہرہ میں خواتین اتحاد نامی ایک تنظیم سے متعارف ہوئیں، اس کی سربراہ ہدی شعراوی سے ربط و تعلق قائم ہوا اور مظبوط تر ہوتا گیا، یہاں تک تک کہ اتحاد کی اہم رکن بن گئیں۔

اسی عرصہ میں "خواتین اتحاد" کے متعدد ازہری مخالفین سے بحث و مباحثہ اور مناظرہ ہوا، بعض ازہریوں کا مطالبہ تھا کہ انھیں مساجد میں تبلیغ و وعظ سے روکا جائے، لیکن شیخ محمد سلیمان نجار (الازہر کے عالم اور تبلیغ و وعظ کے مدیر) نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور زینب غزالی کے ساتھ پر امن گفتگو کا آغاز کیا۔

بالآخر اس تنظیم سے علاحدہ ہو گئیں اور اخوان المسلمون سے وابستہ ہو گئیں، اس کی ایک فعال اور اہم کردار بن گئیں۔ گرفتار اور پھر چھ سال تک با مشقت قید بھی رہیں۔[2][3]

نسب و پرورش ترمیم

زینب غزالی کا نسب ان کی والد کی طرف سے عمر بن خطاب سے ملتا ہے۔ اور والدہ کی طرف سے حسن بن علی سے ملتا ہے۔

ان کے دادا روئی کے مشہور تاجر تھے، جامع ازہر کے فارغ التحصیل تھے، ان کی والدہ بھی میت غمر، محافظہ دقہلیہ کے گاؤں "میت یعیش" کے ایک بڑے معزز گھرانے سے تھیں۔

زینب غزالی کی ولادت 2 جنوری سنہ 1919ء مطابق 8 ربیع الاول 1335ھ میں ہوئی، والد 1928ء میں وفات پا گئے، اس وقت زینب کی عمر تقریباً گیارہ سال تھی۔

چنانچہ اس معزز اور علمی خانوادہ میں بہترین تربیت و پرورش ہوئی، اچھے اخلاق صفات کا پابند بنایا گیا، ان کے والد کی کی خواہش بھی تھی کہ زینب وہ اسلام کی داعیہ اور مبلغہ بنے، فجر کے لیے پابندی سے بیدار کرتے تھے اور بقیہ نمازوں کی پابندی کراتے تھے، کہتے تھے: بیٹی زینب! تم اپنی ہم جولیوں کے ساتھ کھیلا نہ کرو، تم سیدہ ہو، مشہور مجاہدہ اور بہادر صحابیہ نسیبہ بنت کعب سے نسبت کر کے تبرکاً "نسیبہ" نام سے پکارتے تھے۔

بچپن ہی سے ان کی ایمانی اور جہادی تربیت کرتے تھے، لکڑی کی تلوار دیکر اس ننھی بچی کو ایک دائرہ میں کھڑا کر دیتے اور کہتے کہ لو اللہ کے دشمنوں کو مارو! پھر پوچھتے بیٹی کتنے دشمنوں کو مارا؟ چھوٹی ننھی مجاہدہ جواب دیتی ایک۔ پھر کہتے اور مارو! اس طرح نیزے اچھالتی اور پھر جواب دیتی کہ دو۔۔۔ تین۔۔۔۔ چار اللہ و رسول کے دشمنوں کو مارا۔[2][3]

تعلیم ترمیم

ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے آبائی گاؤں میں اپنے والد وغیرہ سے حاصل کی، والد کی وفات کے بعد اپنی والدہ اور بھائیوں کے ہمراہ قاہرہ منتقل ہو گئیں، مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں لیکن بڑے بھائی محمد علی راضی نہیں تھے، والدہ بھی بھائی کی جانب تھیں۔ لیکن دوسرے بھائی کی رائے تھی اس اس سے زینب کی فکر پختہ اور لوگوں و چیزوں کے تئیں خیالات خوب سے خوب تر ہوں گے۔ چنانچہ انھوں نے کتابوں کا خصوصا عائشہ تیموریہ کی خواتین سے متعلق کتابوں کا انتظام کیا، زینب نے اکثر حصوں کو زبانی یاد کر لیا لیکن ابھی بھی تشنگی ختم نہیں ہو سکی۔

چنانچہ بارہ سال کی عمر کا واقعہ ہے کہ ایک دن گھر سے نکل گئیں اور راستوں سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد لڑکیوں کے ایک اسکول پر نگاہ پڑی، وہاں جاکر اس کے منتظم اور مہتمم سے ملاقات کی اور نہایت خود اعتمادی کے ساتھ اپنا تعارف کرایا اور اپنے والدین اور دادا کا نام بتایا، چونکہ والد اور دادا دونوں الازہر کے علما میں سے تھے اور مشہور تاجر تھے اس لیے وہ فوراً پہچان گئے اور آنے کی غرض پوچھی، زینب نے عرض کیا کہ اس مدرسہ میں بطور طالبہ کے داخلہ لینا چاہتی ہیں۔ پہلے درجہ میں داخلہ کے بعد دو ہی ماہ میں بہترین کارکردگی اور نمبرات کی وجہ سے اگلے درجہ میں داخل کر دیا گیا۔

اس طرح زینب غزالی نے سرکاری تعلیم حاصل کی، لیکن ابھی بھی تشنگی باقی تھی، لہذا دینی علوم کے جامع ازہر کے علما و مشائخ کا رخ کیا اور خصوصاً عبد المجید لبان، محمد سلیمان نجار (شعبہ وعظ و ارشاد ازہر کے سربراہ) اور شیخ علی محفوظ سے استفادہ کیا۔ اس طرح قدیم و جدید، عصری و دینی اور سرکاری و رسمی علوم حاصل کر لیا۔[2][3]

خواتین اتحاد میں شمولیت ترمیم

ثانویہ کی تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے ایک اخبار میں دیکھا کہ "خواتین اتحاد" نامی ایک تنظیم، تین طالبات پر مشتمل ایک وفد فرانس بھیجے گی، فوراً وہ اتحاد کے صدر دفتر گئیں وہاں اس کی سربراہ ہدی شعراوی سے ملاقات و گفتگو کی، انھوں نے فوراً ان کا نام تنظیم میں شامل کر لیا اس طرح وہ اس تنظیم کی ایک مظبوط آواز بن گئیں، خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے لگیں اور ہدی شعراوی کی خوب پزیرائی حاصل کی اور فرانس جانے والے وفد میں زینب کا نام سر فہرست ہو گیا۔

سفر کی تاریخ بھی طے ہو گئی۔ ایک دن زینب نے خوب میں اپنے والد کو دیکھا کہ وہ فرانس کے سفر سے منع کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں: اللہ تمھارے لیے مصر ہی میں اس سے بہتر صلہ دے گا۔ پوچھا کیسے؟ کہا: عنقریب تم دیکھو گی۔ لیکن تمھیں فرانس کا سفر نہیں کرنا ہے، میں تمھارے اس سفر سے راضی نہیں ہوں۔

اس کے بعد زینب سے سفر سے معذرت کر لی، ہدی شعراوی کو بہت حیرت ہوئی، سمجھانے کی کوشش بھی کی، بتایا کہ خواب حقیقت نہیں ہوتے ہیں، اس لیے اس قیمتی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ لیکن زینب اپنے موقف پر جمی رہیں اور کہا: جب تم میرے والد مجھے حکم نہیں دیں گے میں ان کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کر سکتی۔

خواتین اتحاد میں عورتوں کے متعلق خوب آواز اٹھائی اور یہ باور کرایا کہ اتحاد خواتین کے حقوق کی ہر ممکن کوشش کا داعی ہے مگر یہ کہ ان اسلامی حدود میں رہ کر کیا جائے، خواتین کی آزادی، اسلام سے آزادی ہر گز نہیں ہوگی۔ اپنے اسی نظریہ کو الازہر کے علما کے سامنے باور کرانے کی بارہا کوشش کی، مباحثہ اور مناظرہ بھی کیا۔ الازہر کے شعبہ وعظ و ارشاد کے سربراہ نے انھیں کچھ دینی امور کی طرف توجہ دلانے کے لیے بلایا اور پر امن مباحثہ ہوا۔ اس کے بعد زینب غزالی کو بہت سی ان چیزوں کا انکشاف ہوا جسے وہ حقوق کے ضمن میں جائز سمجھتی تھیں۔

اس کے بعد خواتین کی آزادی سے متعلق اسلامی نقطہ نظر میں دلچسپی لینے لگیں اور انھیں مکمل شرح صدر ہو گیا کہ اسلام ہی خواتین کے حقوق کے حصول کا واحد طریقہ اور حل ہے جو ان کی قدر وقیمت کے مکمل تحفظ کے ساتھ ان کے مادی حقوق کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ یورپ محض مادی ناجائز حقوق کے حصول کا داعی ہے، وہ عورت کی قدر و قیمت کو اہمیت نہیں دیتا ہے۔[2][3]

اخوان سے تعلق ترمیم

ان کے گھر میں آگ لگنے اور شدید زخمی ہونے کے بعد زینب نے عہد کیا کہ اگر اللہ انھیں شفا دے دیگا تو وہ خواتین اتحاد سے الگ ہو جائیں گی اور اسلام کی تعلیم اور حقیقی دعوت کے لیے خواتین کی ایک تنظیم بنائیں گی، چانچہ وہ باریاب ہو گئیں، یہ ان کی زندگی کی بڑی تبدیلی کا آغاز تھا۔

چنانچہ 1937ء میں تنظیم قائم کی اور تھوڑے ہی عرصہ میں خواتین کا ایک بڑا حلقہ جمع کر لیا۔

اخوان المسلمون جماعت سے ان کا تعلق اس کی تاسیس کی پہلے ہی سال میں ہو گیا تھا، جماعت کے بانی امام حسن البنا شہید نے انھیں اخوان میں شامل ہونے اور خواتین کے شعبہ کی سربراہی کی درخواست کی تھی، لیکن انھوں نے پہلے اخوان کے ساتھ شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔ پھر 1948ء میں اخوان کے ساتھ شامل ہوئیں اور حسن البنا نے انھیں اخوان اور اس وقت کے مصری وزیر اعظم مصطفٰی نحاس کے درمیان میں ثالثی کے لیے اہم ذمہ داری سونپی۔ اسی طرح 1954ء کے بحران کے بعد جولائی 1952ء کے انقلاب کے قائدین کے ساتھ اخوان کے قیدیوں کی مدد میں بھی اہم کارنامہ انجام دیا۔[2][3]

انقلاب کے زمانے میں انھوں نے مصری صدر جمال عبد الناصر سے ملنے سے اور اخوان کے خواتین شعبہ کو "اشتراکی اتحاد" کی زیر نگرانی کرنے سے انکار کر دیا تھا، لہذا خواتین شعبہ کو تحلیل کرنے کی سرکاری فرمان جاری ہوا اور اگست 1965 میں انھیں گرفتار کیا گیا اور چھ سال کی قید ہوئی، قید کے دوران میں سخت اذیت دی گئی جس کی کی روداد کو انھوں نے "ایام من حیاتی" نامی کتاب میں درج کیا ہے، پھر سعودی شاہ فیصل بن عبد العزیز آل سعود کی ثالثی پر انھیں انور سادات کے عہد صدارت میں 1971ء میں رہا کیا گیا۔[4]

دعوتی اسفار ترمیم

اس کے بعد زینب غزالی عرب اور اسلامی ممالک کے دعوتی اسفار کی طرف متوجہ ہوئیں، اسلامی دعوتی صحافت میں ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔ انھوں نے اسی کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے وقت کئی ایک بار افغان محاذ کا دورہ بھی کیا تھا، اس تعلق کی ان کی کتاب "نحو بعث جدید" (عربی) اور "نظرات فی کتاب اللہ" (عربی) ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے سعودی عرب کا 60 مرتبہ سفر کیا، 39 حج کیا اور 100 سے زائد عمرے کیے۔ اور بھی کئی عرب اسلامی ممالک کا دورہ کیا، وہاں اسلامی دعوت و تبلیغ پر تقاریر و محاضرات دیے، دعوتی میدان میں تقریباً 53 سال یعنی نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزارا، بہت سی دینی و دعوتی شخصیات سے ملاقات کی جن اہم شخصیات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں ان میں پہلا نام اخوان کے بانی حسن البنا کا ہے۔

زینب غزالی کا ماننا تھا کہ مستقبل کی ترقی کے لیے خواتین کا ہونا نہایت ضروری ہے، خواتین کا خیال رکھے بغیر کسی بھی ملک یا معاشرہ کی ترقی نہیں ہو سکتی، ترقی کی ابتدا اور انتہا کا دار ومدار خواتین پر ہے، اس لیے عالم اسلام کی ترقی اور نشاۃ ثانیہ خواتین کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

تالیفات ترمیم

  • ایام من حیاتی (اس کتاب میں انھوں نے اپنی قید کی چھ سالہ آزمائش و تعذیب کی روداد کو مختصراً جمع کیا ہے، اس کا اردو ترجمہ زنداں کے شب و روز[5] نام سے شائع ہوا ہے۔)
  • نظرات فی کتاب اللہ
  • نحو بعث جدید
  • الی ابنتی

وفات ترمیم

زینب غزالی کی وفات بدھ کے روز، 3 اگست 2005ء کو قاہرہ میں 88 سال کی عمر میں ہوئی۔ جنازہ اگلے روز جمعرات، 4 اگست کو مشرقی قاہرہ کے محلہ "مدینہ نصر" کی مسجد "رابعہ عدویہ" میں ادا گیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/ghazali-zainab-al- — بنام: Zainab al- Ghazali
  2. ^ ا ب پ ت ٹ "الداعية الحاجة زينب الغزالي"۔ 10 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2020 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ زينب الغزالي۔۔۔نٌسيبة القرن العشرين 23/10/2012 مصراوي آرکائیو شدہ 6 اکتوبر 2014 بذریعہ وے بیک مشین
  4. ایام من حیاتی (عربی) از: زینب غزالی۔ اردو ترجمہ: زنداں کے شب و روز۔
  5. زینب غزالی۔ زنداں کے شب و روز۔ ترجمہ بقلم خلیل احمد حامدی۔ نئی دہلی: Guidance Publishers & Distributors۔ صفحہ: 311