سانحہ ماڈل ٹاؤن
سانحہ ماڈل ٹاؤن یا لاہور تصادم، [1] یا سانحہ لاہور،[2][3]،فسادات جو پنجاب پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کے درمیان میں 17 جون 2014ء کو ہوئے، جس کے نتیجے میں پولیس کی فائرنگ سے پاکستان عوامی تحریک کے دو عورتوں سمیت 14 افراد ہلاک اور 90 سے زئدافراد شدید زخمی ہوئے۔[4]۔11 گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب پولیس کی تجاوزات ہٹانے والی نفری نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں جامعہ منہاج القران کے دفاتر اور پاکستان عوامی تحریک کے بانی و سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر موجود رکاوٹیں ہٹانے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن | |||
---|---|---|---|
تاریخ | 17 جون 2014 | ||
مقام | 31°29′0″N 74°18′32.5″E / 31.48333°N 74.309028°E | ||
وجہ | پولیس کی زیر قیادت انسداد تجاوزات آپریشن | ||
طریقہ کار | کارروائی کے خلاف احتجاج | ||
اختتام | مظاہرین کی اموات پر، 5 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا | ||
تنازع میں شریک جماعتیں | |||
مرکزی رہنما | |||
| |||
تعداد | |||
| |||
متاثرین | |||
اموات | 14 | ||
زخمی | 100+ | ||
گرفتار | 53+ |
پس منظر
16 جون 2014 سے قبل پاکستان عوامی تحریک کے بانی اور سربراہ محمد طاہر القادری نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر 23 جون 2014ء کو ان کی آمد پر انھیں کچھ ہوا تو حکومت "سنگین نتائج" بھگتنے کے لیے تیار رہے کچھ وقت ڈاکٹر طاہر القادری نواز شریف انتظامیہ کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی حمایت اکٹھی کرتے رہے۔ قادری نے کامیاب ریلی کی اور حکومت کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں جیسے کہ پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی حمایت حاصل کی تا کہ وہ حکومت کے خلاف ایک "عظیم اتحاد" بنا سکیں۔
منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے گرد سیکیورٹی بیریئرز چار سال قبل ہائی کورٹ کے حکم سے ماڈل ٹاون پولیس کی نگرانی میں لگائے گئے تھے۔[5]
واقعات
17 جون 2014ء کی صبح 2 بجے پنجاب پولیس نے لاہورکے مضافاتی علاقےماڈل ٹاؤن میں واقع ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہرموجودرکاوٹوں کوہٹانے کے لیے ایک آپریشن کاآغازکیا۔ پولیس کی ایک بھاری نفری پاکستان عوامی تحریک کے صدر مقام پہنچی، جہاں انھوں نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان سے رکاوٹیں ہٹانے کو کہا، جو ان کے حساب سے غیر قانونی تھیں۔ یہ چھاپہ پولیس کے ان صبح کے معمول کے چھاپوں کے برعکس تھا جن کا انعقاد پولیس اس طرح کے معاملات میں کرتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کا موقف تھا کہ یہ رکاوٹیں قانونی ہیں اور یہ چار سال قبل اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور دفاتر کے گرد لگائی گئیں تھی جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے طالبان کے خلاف فتوٰی [6] دیا تھا۔ اس کے باوجود پولیس نے بلڈوزرز کی مدد سے رکاوٹوں کو ہٹانے اور تباہ کرنے کا آپریشن جاری رکھا ،جس نے عوامی تحریک کے کارکنان کو پولیس کی کاروئی کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کرنے پر اکسایا۔
پولیس سے مذاکرات
پولیس افسران کو ماڈل ٹاؤن پولیس ہی کی جانب سے جاری کردہ وہ سرکلر دکھایا گیا، جس میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر عدالتی احکامات کے مطابق سیکورٹی انتظامات کرنے کا کہا گیا تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ یہ بیریئرز فیصل ٹاؤن تھانے کے آفیسرز کی مشاورت اور رہنمائی میں ہی لگائے گئے ہیں، مگر انھوں نے اس سرکلر کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی قائدین نے متعدد بار پولیس افسران سے بات چیت کی، مگر پولیس آفیسرز نے عدالتی احکامات کو ماننے کی بجائے مزید جارحانہ رویہ اختیار کر لیا اور مرکزی سیکرٹریٹ کے سٹاف ارکان اور طلبہ پر لاٹھی چارج کرنا شروع کر دیا۔ ان تمام معاملات کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسا کہ پولیس ان رکاوٹوں کو ہٹانے نہیں بلکہ کسی اور منصوبے کے تحت یہ آپریشن کرنے آئی ہے۔
پرتشدد سانحہ
بارہ تھانوں کی پولیس کی مدد سے رات دو بجے سے جاری آپریشن کے دوران میں کل چار حملے کیے گئے۔ پہلے تین حملوں میں زہریلی آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا، جبکہ آخری حملے کے دوران میں سو سے زیادہ لوگوں پر سیدھے فائرنگ کی گئی۔[7]
مرنے والوں کے نام
- شازیہ مرتضیٰ زوجہ غلام مرتضیٰ۔ باغبانپورہ لاہور، پاکستان۔ عمر 28 سال
- تنزیلہ امجد زوجہ محمد امجد۔ باغبانپورہ لاہور، پاکستان۔ عمر 30 سال
- محمد عمر صدیق ولد میاں محمد صدیق۔ کوٹ لکھپت لاہور، پاکستان۔ عمر 19 سال
- صفدر حسین ولد علی محمد۔ شیخوپورہ، پاکستان۔ عمر 35 سال
- عاصم حسین ولد معراج دین۔ گاؤں مناواں لاہور، پاکستان۔ عمر 22 سال
- غلام رسول ولد محمد بخش۔ تاج پورہ سکیم لاہور، پاکستان۔ عمر 56 سال
- محمد اقبال ولد خیر دین۔ چونگی امرسدھو لاہور، پاکستان۔ عمر 42 سال
- محمد رضوان خان ولد محمد خان۔ چکوال، پاکستان۔ عمر 20 سال (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)
- خاور نوید رانجھا ولد محمد صدیق۔ کوٹ مومن سرگودھا، پاکستان۔ عمر 20 سال (طالب علم شریعہ کالج، منہاج یونیورسٹی)
- محمد شہباز ولد اظہر حسین۔ مریدکے، پاکستان۔ عمر 17 سال
انسانی حقوق کی تنظیم نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کا نوٹس لیتے ہوئے اس سانحہ کی غیر جانبدار عدالتی انکوائری پر زور دیا۔[8]
پولیس کے دعوے
رات 2 بجے کے قریب جب پولیس اہلکار بھاری مشینری کے ہمراہ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ کے باہر پہنچے تو پولیس اہلکاروں نے دعوی کیا کہ سیکرٹریٹ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش کے سامنے موجود سیکیورٹی انتظامات عوام کے لیے مشکل کا باعث ہیں، لہٰذا ہم ان رکاوٹوں کو ہٹانے کے احکامات لے کر آئے ہیں۔ تحریک کے قائدین نے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ یہ سیکورٹی بیریئرز آج سے تین سال قبل لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اور پولیس کی نگرانی میں نصب کیے گئے تھے اور مئی 2011ء میں مقامی پولیس اسٹیشن کی طرف سے جاری کردہ سیکورٹی ہدایات میں بھی ان کی تنصیب کا کہا گیا تھا۔ تاہم پولیس اہلکاروں نے دونوں تحریری دستاویزات دیکھنے کے باوجود انھوں نے عدالتی احکامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں 14 افراد شہید اور 90 افراد شدید زخمی ہو گئے۔
مواصلاتی ذرائع ابلاغ
الیکٹرانک میڈیا نے اس پورے واقعہ اور آپریشن کی مکمل کارروائی عوام پاکستان تک پہنچاتے ہوئے ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کر دیا۔ 13 گھنٹے سے ایک سفاکانہ واقعہ کی خبر لمحہ با لمحہ الیکٹرانک میڈیا ٹی وی سکرین پر دکھاتا رہا اور حکمرانوں کو اس کی کوئی خبر نہیں۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب جو اپنے آپ کو خادم اعلیٰ پنجاب کے نام سے منسوب کرتا ہے نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس واقعہ کی کوئی خبر نہیں ہے حالانکہ وہ اپنے آپ کو انصاف کا سب سے بڑا داعی سمجھتا ہے۔
رات ڈیڑھ بجے کے قریب شروع ہونے والے پولیس آپریشن کو بعض چینل رات سے ہی دکھانا شروع کر چکے تھے، تاہم صبح پانچ بجے تک تمام ٹی وی چینلوں نے پولیس کی کارروائی کو براہ راست دکھانا شروع کر دیا۔ گھروں میں بیٹھے عوام پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال ہوتا دیکھ رہے تھے۔ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز کی براہ راست کوریج کے باوجود دوپہر اڑھائی بجے تک جاری رہنے والے اس آپریشن کو روکنے کے لیے حکومتی نمائندہ حرکت میں نہ آیا۔ کسی وزیر، کسی مشیر، کسی رکن اسمبلی کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وزیر داخلہ، وزیر قانون یا وزیر اعلیٰٰ پنجاب کو فون کرکے اس قتل عام کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرتا۔ یہ لوگ اتنے بے حس ہو چکے تھے کہ واقعہ رونما ہونے کے بعد بھی کوئی حکومتی کارندہ عوام الناس کی دادرسی کے لے نہیں آیا۔
کشیدگی کے شروع ہونے کے بعد یہ واقعہ نیوز چینلز پر براہِ راست دکھایا جاتا رہا [9] لیکن اس کشیدگی کے شروع ہونے کے متعلق بیانات دونوں فریقین کی طرف سے سامنے آئے۔ پولیس کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا [10] کہ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹریٹ کے اندر سے لوگوں نے ان پر حملہ کیا، جبکہ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی۔ ٹیلی ویژن پر نشر کی جانے والی براہ راست فوٹیج میں پولیس مظاہرین پر رائفلوں سے فائرنگ اورآنسو گیس پھینکتی نظر آئی جبکہ دوسری جانب مظاہرین پتھراؤ کرتے دکھائی دیے[10]۔
ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ
- مورخہ 2 جولائی کو ARY کے پروگرام کھرا سچ میں مبشرلقمان اور اسد کھرل نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف، ان کے پرنسپل سیکرٹری توقیرشاہ، سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ، سی سی پی او لاہور شفیق گجر، سیکریٹری داخلہ، ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب، ڈی سی او لاہور کی ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ طشت از بام کر دیا۔[11]
- مورخہ 9 جولائی کو جوڈیشل کمیشن نے وزیر اعلیٰٰ، متعلقہ حکام اور پولیس افسروں کی ٹیلیفونک گفتگو کا ریکارڈ طلب کر لیا۔[12]
تفتیشی عمل
رانا ثناء اللہ کا کردار
- پولیس آپریشن کا دفاع کرتے ہوئے اس وقت کے وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنااللہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا "طاہر القادری ایک ایسا بندہ ہے جو مسلسل آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور پاکستانی جمہوریت کو تباہ کرتے ہوئے ملک میں طوائف الملوکی پھیلانا چاہتا ہے"۔ دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری نے ان الزامات کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ پولیس آپریشن کا دفاع کرنا انتہائی احمقانہ بات ہے۔
- رانا ثناء اللہ سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے مختلف وضاحتیں کرتے پائے گئے۔ کبھی کہا کہ پولیس کو صرف رکاوٹیں ہٹانے کو بھیجا تھا اور کبھی کہا کہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ سے ناجائز اسلحہ کے انبار برآمد ہوئے ہیں۔
- مؤرخہ 17 جون کی شام تک سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، جس کے مطابق ضلعی انتظامیہ کی مخالفت کے باوجود صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے ’’سبق سکھانے‘‘ کے احکامات صادر کیے۔[13]
- مورخہ 19 جون کو پولیس نے رانا ثناء اللہ کا دعوی سچا ثابت کرنے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ سے اسلحہ کی برآمدگی ظاہر کرنے کے لیے لاہور اور شیخوپورہ سے 44 بور کی 45 رائفلیں حاصل کیں، جنہیں ایک ورکشاپ میں کلاشنکوف اور آٹومیٹک گنوں میں تبدیل کرنے کے لیے دے دیا۔ دریں اثناء یہ خبر میڈیا میں نکل جانے کی بنا پر پولیس کو اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا۔[14]
استعفی / معطلی
سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں مورخہ 21 جون کو وزیر اعلیٰٰ پنجاب نے صوبائی وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ سے استعفی لے لیا۔ اسی طرح پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔[15]
پولیس کی مدعیت میں مقدمہ
مؤرخہ 19 جون کو اس سانحہ کا مقدمہ ایس ایچ او کی مدعیت میں تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج کر لیا گیا، جس میں ساری ذمہ داری پاکستان عوامی تحریک پر ڈالی گئی ہے۔ ایف آئی آر میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے بیٹے حسین محی الدین، عوامی تحریک کے جنرل سیکرٹری خرم نواز گنڈاپور، چیف سکیورٹی آفیسر سید الطاف شاہ، شیخ زاہد فیاض سمیت 56 نامزد اور 3 ہزار نامعلوم افراد کو شامل کیا گیا۔[16]
حکومتی رویہ پر پولیس بددلی کا شکار
حکومت کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ملبہ پولیس پر ڈالے جانے پر پولیس فورس کو شدید بددلی کا شکار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق سب کچھ اعلیٰ قیادت کے حکم پر گیا گیا لیکن سارا ملبہ اہلکاروں پر ڈالا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آئندہ ایسا حکم بھی دیا گیا تو طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔[17]
جوڈیشل کمیشن
جوڈیشل کمیشن کا قیام
وزیر اعلیٰٰ پنجاب شہباز شریف کے حکم پر ماڈل ٹاؤن واقعہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل یک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا، جس کے احکامات لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امتیاز علی خواجہ نے جاری کیے، جنھوں نے آج ہی نئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا حلف اٹھایا تھا۔[18][19]
جوڈیشل کمیشن کا رد
پاکستان عوامی تحریک نے حکومت کی طرف سے تشکیل دیے گئے جوڈیشنل کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ وزیر اعلیٰٰ پنجاب اس قتل و دہشت گردی کے اصل ذمہ دار ہیں، چنانچہ ان کے مسندِ اقتدار پر رہتے ہوئے کسی قسم کی غیر جانبدارانہ تفتیش وشہادتوں کا کوئی امکان ہے نہ عدل و انصاف کے تقاضوں کی بجا آوری ممکن ہے۔ لہٰذا وزیر اعلیٰٰ پنجاب اور اس جرم میں شریک وزراء فی الفور مستعفی ہو کر خود کو قانون کے حوالے کریں۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ملوث جملہ پولیس افسران اور انتظامی عہدے داران بشمول IG، DIG آپریشنز، ہوم سیکرٹری پنجاب، DCO، CCPO، SSPs، SP ماڈل ٹاؤن اور متعلقہ DSPs اور SHOs کو فوری طور پر برطرف کرکے قتل عام، دہشت گردی اور اقدامِ قتل کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔
اس کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی آزادانہ، غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے تین ایسے غیر متنازع، غیر جانبداراور اچھی شہرت کے حامل ججز جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو، پر مشتمل بااختیار جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ وزیر اعظم، نامزد وفاقی وزراء، وزیر اعلیٰٰ پنجاب سمیت کسی بھی حکومتی و انتظامی شخصیت یا اہلکار کو طلب کرسکے۔ مزید برآں جوڈیشنل کمیشن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے تحقیقی اداروں کے اچھی شہرت کے حامل اعلیٰ افسران جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو، پرمشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے۔
مورخہ 10 جولائی کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے پریس کانفرنس کے دوران میں کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم ٹربیونل یکطرفہ، بے مقصد اور فراڈ پر مبنی ٹربیونل ہے۔ قاتل پولیس قاتل مدعی بن بیٹھی ہے۔ من گھڑت شہادتیں اور جھوٹے ثبوت پیش کیے جا رہے ہیں۔ ٹربیونل کے جج کو چاہیے تھا کہ اس قتل عام کا حکم دینے والے وزیر اعلیٰٰ پنجاب شہبازشریف کو استعفا دینے اور مظلوموں کی مدعیت میں FIR درج کرنے کا حکم دیتا۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰٰ کے موبائل فون ریکارڈ کی طلبی پر ٹربیونل کے رجسٹرار جوادالحسن کو ہٹا دیا گیا ہے اور اس ٹربیونل کو سانحہ میں ملوث عناصر اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا اوراس قتل عام میں ملوث چین آف کمانڈ، چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، آئی جی پولیس، ڈی آئی جی آپریشنز، ایس پی ماڈل ٹاؤن اور SHOs میں سے کسی کو ان کے عہدوں سے تاحال ہٹایا نہیں گیا۔[20]
جوڈیشل کمیشن کا محدود دائرہ کار
سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل ٹربیونل کو پولیس سے تفتیش کرانے کے اختیارات دینے کی درخواست پر پنجاب حکومت کی خاموشی نے جوڈیشل ٹربیونل کو مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے سیکشن گیارہ کے اختیارات دینے سے انکار کے بعد ٹریبونل کا کردار صرف انکوائری تک محدود رہ گیا، کسی پر اس اندوہناک سانحہ کی ذمہ داری عائد نہیں کی جا سکے گی۔[21]
جوڈیشل کمیشن کی پیش رفت
- مورخہ 19 جون کو لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا تو جوڈیشل تحقیقات کے پہلے روز ہی حکام نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا بلکہ ادھوری رپورٹس کے ساتھ پیش ہو کر بحث میں الجھے رہے۔ اس روز آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، ڈی سی او کیپٹن ریٹائرڈ عثمان اور ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔[22]
- مورخہ 6 جولائی کو فرانزک ماہرین نے کرائم سین دیکھے بغیر رپورٹ بنانے سے انکار کر دیا۔[23] بعد ازاں مورخہ 9 جولائی کو فرانزک حکام اور جے آئی ٹی نے سا نحہ ماڈل ٹاؤن کے بارے میں شہادتیں ضائع ہونے کی بنا پر رپورٹ دینے سے معذرت کر لی۔[24]
- مورخہ 9 جولائی کو جوڈیشل کمیشن نے وزیر اعلیٰٰ متعلقہ حکام اور پولیس افسروں کی ٹیلیفونک گفتگو کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں کمیشن نے آئی ایس آئی اور آئی بی کے ڈائریکٹرز سے بھی رپورٹ، ریکارڈ اور ٹیکنیکل معاونت مانگ لی۔[25] دوسری طرف پنجاب حکومت نے جوڈیشل ٹریبونل کے دائرہ کار پہ اعتراض کر دیا۔[26]
- مورخہ 13 جولائی کو مشترکہ تفتیشی ٹیم نے تحقیقات کے دوران میں چار ایس پیز اور 20 اہلکاروں کو سانحۂ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا۔[27]
- مورخہ 15 جولائی کو مشترکہ تفتیشی ٹیم نے وزیر اعلیٰٰ شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ سمیت 18 شخصیات کے ٹیلی فون ریکارڈ یک رکنی ٹریبونل جسٹس علی باقر نجفی کو جمع کروا دیا۔[28]
- مورخہ 16 جولائی کو سانحہ کے ایک ماہ بعد جاری ہونے والی فرانزک رپورٹ میں نہ صرف منہاج القرآن کے پانچ سٹوڈنٹس پر فائرنگ کا الزام عائد کیا گیا بلکہ حملہ آور پولیس والوں کی تعداد صرف 15 قرار دی گئی۔ حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی براہ راست نشریات کے دوران ملک بھر کے میڈیا چینلز نے ہزاروں کی تعداد میں پولیس کو نہتے لوگوں پر بربریت کرتے دکھایا تھا۔[29]
- مورخہ 16 جولائی کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے دعوی کیا کہ انھوں نے نہ صرف فائرنگ کرنے والے عوامی تحریک کے پانچ کارکنوں کا سراغ لگا لیا ہے برآمد ہونے والے اسلحے کی تصدیق بھی کر لی ہے۔[30]
- مورخہ 27 جولائی کو شہبازشریف نے اپنے بیان حلفی میں اقرار کیا کہ سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پولیس آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، جس سے وہ مکمل طور پر لاعلم رہے۔[31][32][33]
جوڈیشل کمیشن کو دھمکیاں
مورخہ 12 جولائی کو سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کرنے والے جج جسٹس علی باقر نجفی کو سنگین نتائج کا دھمکی آمیز خط موصول ہوا۔[34]
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لیے بنائے گئے یکطرفہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰٰ پنجاب کو اس سانحہ کا براہ راست ملزم قرار دیا گیا، رپورٹ کا کچھ حصہ دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران شاہد نے اپنے ایک پروگرام میں ذکر بھی کیا۔
ایف بی آر کی کارروائی
پاکستان عوامی تحریک نے ایف بی آر کے نوٹس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹس سیاسی انتقام کے نتیجہ کے طور پر جاری کیا گیا ہے۔ ایک تعلیمی ادارے کا آڈٹ ایف بی آر کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز احسن نے 10 ستمبر تک اس کا جواب طلبی کر لیا ہے۔[35]
پاکستان عوامی تحریک کی ایف آئی آر
- مؤرخہ 19 جون کو ڈائریکٹر ایڈمن جواد حامد کی مدعیت میں تھانہ فیصل ٹاؤن میں ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست دی گئی، جس میں وزیر اعظم نوازشریف، وزیر اعلیٰٰ پنجاب شہبازشریف، حمزہ شہباز، وفاقی وزراء میں سے خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، چودھری نثار خان، پرویز رشید، عابد شیر علی، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ، سابقہ سی سی پی او لاہور شفیق گجر، ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبد الجبار، ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز اور دیگر پولیس افسران کو ملزم نامزد کیا گیا، تاہم پولیس نے ایف آئی آر درج نہ کی۔[36]
- مؤرخہ 4 جولائی کو سیشن کورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ وزیر اعلیٰٰ پنجاب، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ سمیت اکیس افراد کے خلاف درج کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی، جو کورٹ کی طرف سے سماعت کے لیے منظور کر لی گئی۔[37]
- مؤرخہ 15 جولائی کو سیشن کورٹ نے پاکستان عوامی تحریک کی درخواست پر سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ درج کرنے کے لیے دائر درخواست پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم سے ریکارڈ طلب کر لیا۔[38][39]
- مؤرخہ 19 جولائی کو سیشن عدالت نے سانحہ کا مقدمہ درج کرنے کے حوالے سے اکستان عوامی تحریک کی درخواست کی سماعت اکیس جولائی تک ملتوی کر دی -[40][41]
ایف آئی آر کا اندراج
دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج کی گئی جو نامکمل تھی۔[42]
آرمی چیف کی مداخلت
حکومت کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر نامکمل تھی۔ جب یہ ایف آئی آر آرمی چیف جنرل رحیل شریف نے دیکھی تو حیرت کا اظہار کیا اور صحیح ایف آئی آر درج کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔[43]
ایف آئی آر میں شامل افراد
- وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف
- وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف
- میاں حمزہ شہباز
- وفاقی وزیر خواجہ آصف
- وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق
- وزیر داخلہ چودھری نثار
- وفاقی وزیر پرویز رشید
- وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیر علی
- سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ
- سابق سی سی پی او لاہور شفیق گجر
- آئی جی آپریشنز رانا عبد الجبار
- ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز [44]
نئی جے آئی ٹی کا قیام
سی سی پی او عبد الرزاق چیمہ کی سربراہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے حکومت پنجاب کی طرف سے نئی پانچ رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔[45]
نئی جے آئی ٹی کے ارکان:
- سی سی پی او کوئٹہ عبد الرزاق چیمہ
- ایس ایس پی شہزاد اکبر
- ڈی ایس پی خالد ابوبکر
- کرنل احمد (آئی ایس آئی)
- محمد علی (آئی بی)
نئی جے آئی ٹی کا رد
ڈاکٹر طاہرالقادری اور پاکستان عوامی تحریک نے سی سی پی او عبد الرزاق چیمہ کی سربراہی میں بنائی گئی جے آئی ٹی کو مسترد کر دیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے مورخہ 14 نومبر 2014ء کو میڈیا سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جب تک وزیر اعلیٰٰ شہباز شریف استعفا نہیں دیتے اس وقت تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔[46][47]
مورخہ 20 نومبر 2014ء کو جے آئی ٹی کے ارکان نے پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ میٹنگ کی جس میں صدر پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ ہم عبد لرزاق چیمہ کی سربراہی میں بنائی گی جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں۔[48]
نئی جے آئی ٹی کا منہاج القرآن کے ایڈمن ڈائریکٹر جواد حامد کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے بیان حلفی جمع کروانے کا نوٹس۔[49]
انسداد دہشت گردی عدالت
انسداد دہشت گردی عدالت کا پاکستان عوامی تحریک کے جنرل سیکرٹری خرم نواز گنڈا پور، شیخ زاہد فیاض، چیف سیکورٹی آفیسر سید الطاف شاہ، ساجد محمود، میاں زاہد اسلام، تنویر سندھو اور حاجی ولایت سمیت آٹھ گن مین اور سینکڑوں کارکنان پر سانحہ ماڈل ٹاؤن واقعہ میں ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔[50][51]
یکطرفہ چلان کی مذمت
پاکستان عوامی تحریک کے جنرل سیکرٹری خرم نواز گنڈا پور نے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا یکطرفہ چالان حکومت کی ایک اور دہشت گردی ہے۔[52]
مذمت / احتجاج
طاہر القادری نے اس حملے کی پرزور مذمت کی اور اسے ریاستی دہشت گردی کی بدترین شکل سے تعبیر کیا۔ طاہر القادری نے اپنے کارکنان کی جانوں کا بدلہ لینے اور ایک انقلاب لانے کے عزم کا اظہار کیا جو ان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کی حکومت کا جلد از جلد خاتمہ کر دے گا[53][54]۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں کی مذمت
انسانی حقوق کی نگہبان عالمی تنظیم نگہبان حقوق انسانی نے بھی پولیس کی طرف سے استعمال کی جانے والی "مہلک طاقت" کی مذمت کی اور اس کی مکمل تفتیش کا مطالبہ کیا۔ اسی تنظیم کے ایشیا کے ڈائریکٹر براڈایڈمز نے کہا کہ"پاکستانی حکومت کو بتانا چاہئیے کہ پولیس کو پتھراؤ کرنے والے مظاہرین پر سیدھا فائر کھولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی"۔ انکا مزید کہنا تھا کہ "آج لاہور میں بے شمار لوگ زخمی اور مردہ پڑے ہیں لیکن انھیں کیوں مارا گیا؟اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی" تنظیم حقوق انسانی پاکستان نے بھی منہاج القرآن سیکریٹریٹ پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے جو ردِ عمل سامنے آیا وہ ملاحظہ ہو۔ اس واقعہ کے بعد حزب اختلاف کی بڑی بڑی جماعتوں بشمول متحدہ قومی موومنٹ،پاکستان تحریک انصاف،پاکستان مسلم لیگ ق نے احتجاج کرتے ہوئے اسمبلیوں کا بائیکاٹ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس حملے کی مذمت کی۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ یہ واقعات "جمہوریت کے خلاف رچی ایک سازش ہے جسے شہباز شریف نے بڑھاوا دیا۔ "۔ انھوں نے طاہر القادری کے حامیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کی۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس حملے کی مذمت کی۔ پارٹی کے صدر کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ کو فورا معصوم لوگوں کا قتل عام بند کرنا چاہئیے۔
سانحہ ماڈل ٹاون کے رد عمل میں کم و بیش پاکستان کی تمام جماعتوں نے نہ صرف بھرپور مذمت کی بلکہ ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کیا۔
- پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جناح ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی، بعد ازاں مرکزی سیکرٹریٹ آ کر مرکزی قیادت سے اس سانحہ پر تعزیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ "آمریت میں بھی ایسی حرکت نہیں ہوتی، ماڈل ٹاؤن میں گھنٹوں گولیاں چلتی رہیں۔ وزیر اعلیٰٰ پنجاب کہاں تھے، شہبازشریف نے اب تک استعفا کیوں نہیں دیا؟" [55]
- حکمرانوں نے شمالی وزیرستان کے فوجی آپریشن کو سبوتاژ کرنے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کرایا۔ جس میں پر امن کارکنوں کا قتل عام کرا کر ریاستی دہشت گردی کی گئی۔ چوہدری شجاعت حسین [56]
- ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینرخالد مقبول صدیقی نے کہا کہ لاہور میں حکومت کے ملی ٹینٹ ونگ نے سفاکیت کا مظاہرہ کیا، حکمران پہلے استعفا دیتے ،پھر تحقیقات کرائی جاتی۔[57]
- پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے نماز جنازہ میں شرکت کے بعد کہا کہ پنجاب میں شریف برادران کے حکم کے بغیر چڑی پرنہیں مارتی، پولیس میں اتنی جرأت کہاں کہ اتنابڑا آپریشن کرتی؟ [58]
- پاکستان پیپلز پارٹی کے شوکت بسرا نے نماز جنازہ میں شرکت کے بعد وزیر اعلیٰٰ پنجاب سے استعفی کا مطالبہ کیا۔
- پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق مرکزی وزیراطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا انتہائی دردناک باب ہی نہیں انسانیت کا مسئلہ ہے۔ ظلم اور بربریت کی جو مثال قائم ہوئی وزیر اعلیٰٰ پنجاب شہباز شریف اس کے ذمہ دار ہیں، انھیں چاہیے کہ فوری استعفا دیں۔[59]
- جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف پر عائد ہوتی ہے۔[60]
- عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہاکہ جمہوریت کو اصل خطرہ شریف خاندان سے ہے، حکمران طاہرالقادری کی آمد سے خوفزدہ ہیں۔[61]
- ناظم اعلیٰ جامعہ نعیمہ ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ صرف چند پولیس افسران کی معطلی معاملہ کا حل نہیں ہے ،ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
- غیر مسلم برادری کے نمائندوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پرزور الفاظ میں مذمت کی اور اسے حکومتی بوکھلاہٹ اور بربریت قرار دیا۔ مسیحی رہنماوں کا ایک وفد جن میں مسیحی راہنماء فادر فرانسس ندیم، فادر عنائت برناڈ، فادر مائیکل، ڈاکٹر کنول فیروز، یوئیل بھٹی، پاسٹر سلیم، ریورنڈ فادر پاسکل پولوس، ریورنڈ راکی، ریورنڈ عمانویل کھوکھر، قیصر جوزف، جبکہ ہندو راہنماء پنڈت بھگت لال اور سکھ برادری کے نمائندہ سردار رمیش سنگھ (ایم پی اے) بھی شامل تھے۔[62]
- سابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے کہا کہ بحیثیت ایک قانون دان میں ایسا کوئی بھی ملک تلاش کرنے سے قاصر ہوں جہاں 16 لاشیں اور 130 زخمی ہونے کے باوجود ایک بھی گرفتاری عمل میں نہ آئی ہو۔ ہمارے نظام انصاف کے سامنے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔[63]
- سردار عتیق احمد، آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر (سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر) نے کہا کہ پرامن نہتے اور بے گناہ لوگوں کا قتل مہذب معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے، شریف برادران نے بجائے جمہوریت کے بادشاہت قائم کر رکھی ہے۔[64]
- شاہ محمود قریشی، مرکزی رہنماء پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا انتہائی درد ناک باب ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس واقعہ کا ذمہ دار ہے۔ انھیں چاہیے فوری استعفا دیں۔ یہ سیاست کا نہیں انسانیت کا مسئلہ ہے۔ ظلم یہ ہے کہ قاتلوں نے مظلوموں پر ہی FIR درج کرا دی۔[65]
- سردار آصف احمد علی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے جنرل ڈائر کا کردار ادا کرتے ہوئے عوامی تحریک کے پرامن اور نہتے کارکنوں کا قتل عام کیا ہے۔ ان شہداء کا انصاف عدالتوں اور اسمبلیوں میں نہیں بلکہ اللہ کے پاس اور سڑکوں پر ملے گا۔[66]
- صاحبزادہ حامد رضا، چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ وزیر اعلیٰ قاتل اعلیٰ ہیں۔ شہدا کے وارثوں کو یقین دلاتے ہیں کہ انکا خون رائیگاں نہیں جائیگا۔[67]
- راجا ناصر عباس، رہنماء مجلس وحدت مسلمین نے کہا کہ حکمران حق حکمرانی کھو چکے ہیں۔ خواتین کا حجاب نوچنا اور قتل کرنا مرد نہیں نامرد کرتے ہیں۔ ظالم حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹائون میں یہی کچھ کیا ہے۔[68]
- محترمہ راحیلہ ٹوانہ (ایم پی اے) نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔ حکومتی سربراہی میں اگر دہشت گردی کی جائے تو پاکستان کا مستقبل کیا ہو گا۔[69]
- نذیر احمد جنجوعہ، رہنماء جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ موجودہ ظالم حکمرانوں کی تاریخ ہے جنھوں واجپائی کی آمد پر نہتے کارکنوں کو سڑکوں پر گھسیٹا اور مارا اور اب سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ریاستی دہشت گردی اور ظلم و بربریت کی انتہا کی ہے۔[70]
- میاں محمود الرشید، رہنما پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ 17جون کو سانحہ کے وقت پنجاب اسمبلی میں زبر دست احتجاج کیا گیا اور آئندہ اجلاس میں اپنی تحریک التوا کے تحت اس اہم ایشو پر بحث کی جائے گی۔[71]
- مائیکل جاوید، ایم پی اے سندھ نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے میں نے مسلم لیگ ن سے استعفا دے دیا ہے اور بہت سارے مسلم لیگ ن کے عہدے داران استعفا دے کر عوامی تحریک میں شامل ہو جائیں گے۔[72]
- جے سالک، مسیحی رہنماء نے کہا کہ مارشل لا کی گود میں پلنے والے حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قتل عام کر کے آمریت کے مظالم کو شرمندہ کر دیا ہے۔ یہ ظالم حکمرانوں کی طرف سے 20 کروڑ عوام کو بیدار ہونے کا پیغام ہے۔ ملک بھر کی مسیحی برادری ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ کھڑی ہے۔[73]
- وزیر اعلیٰ پنجاب نے آئی جی بلوچستان کو اسی مشن کے لیے پنجاب تعینات کیا ہے۔ کمیشن جرم کو چھپاتے ہیں اس لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کو سڑکوں پر سزا ملے گی۔ جمشید دستی [74]
- عوامی تحریک کے پرامن کارکنوں کی شہادت سے قصاص لینا چاہیے۔ 14 شہداء کا مطلب ہے کہ انسانیت کا 14 بار قتل عام ہوا ہے۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر [75]
- پہلے دہشت گرد وردیوں میں نہیں ہوتے تھے لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی وردیوں میں ریاستی دہشت گردی کی گئی۔ اس واقعہ کے بعد عوام کے اندر پولیس کے خلاف سخت نفرت پائی جا رہی ہے۔ علامہ حامد سعید کاظمی، سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور [76]
- سانحہ ماڈل ٹاؤن نے غلامی کے دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔ نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں انسانیت کا قتل کیا گیا ہے۔ بابا حیدر زمان، رہنماء تحریک ہزارہ [77]
- سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث حکومتی عناصر ذرا شرمندہ نہیں ہو رہے۔ یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے۔ اجمل وزیر [78]
- حکمران سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست ملوث ہیں اور جلد تختہ دار پر نظر آ رہے ہیں۔ احمد رضا قصوری، رہنماء آل پاکستان مسلم لیگ [79]
پاکستان بھر میں احتجاج
- اس سانحہ کی مذمت کے لیے پاکستان بھر کے شہروں میں پاکستان عوامی تحریک سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے پرامن احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جن میں ڈسکہ [80] پاکپتن شریف [81] کوہاٹ [82] اٹک [83] کوئٹہ [84] مردان [85] شامل ہیں۔
بیرون ملک احتجاج
- بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی مذمت کے لیے اپنے ملکوں میں واقع پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے اور سفیروں کو مذمتی قراردادیں پیش کیں، جن میں سپین [86] فرانس [87] فرینکفرٹ جرمنی [88] برلن جرمنی [89] ڈنمارک [90] آسٹریا [91] اور یونان [92] شامل ہیں۔
کُل جماعتی کانفرنس
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مذمت پر مبنی کل جماعتی کانفرنس مورخہ 29 جولائی کو تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پہ منعقد ہوئی، جس میں مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے غیر جانبدار تفتیش کے مطالبہ کیا گیا۔[93]
مشترکہ اعلامیہ میں وزیر اعلیٰٰ پنجاب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ مطالبے میں کہا گیا کہ اگر وہ ازخود مستعفی نہ ہوں تو صدرمملکت اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے انھیں عہدے سے ہٹا دیں۔[94]
طاہر القادری نے 29 جون 2014سانحہ ماڈل ٹاؤن پر کل جماعتی کانفرنس بلائی جس میں پاکستان پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن،عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام س کے علاوہ ملک کی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شرکت کی۔ کل جماعتی کانفرنس میں شامل جماعتوں کے عہدے داروں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو ناکافی قرار دیا اور ہر ایک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پرزور مذمت کی۔ کل جماعتی کانفرنس نے اپنا پانچ نکاتی اعلامیہ پیش کیا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے پانچ نکاتی اعلامیہ میں کہا گیا کہ منہاج القرآن سیکریٹیریٹ کے واقعے پر ہوم سیکریٹری، انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس سمیت تمام پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے افسروں کو برطرف کر کے انھیں قتل کے مقدمے میں گرفتار کیا جائے جیسا کہ کسی بھی شہری کے خلاف کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی ایجنسیوں کی ٹیم سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کرے اور اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی سطح کا کمیشن بنایا جائے جو وزیر اعظم سمیت ہر کسی کو طلب کر سکے،پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں اور ادارہ منہاج القرآن کی جانب سے دی گئی درخواست کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے غیر جانبدار تفتیش کے مطالبہ کیا گیا۔[93] مشترکہ اعلامیہ میں وزیر اعلیٰٰ پنجاب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ مطالبے میں کہا گیا کہ اگر وہ ازخود مستعفی نہ ہوں تو صدرمملکت اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے انھیں عہدے سے ہٹا دیں۔[94]
جوابی رد عمل
پاکستان عوامی تحریک کی آل پارٹیز کانفرنس کے پانچ نکاتی مشترکہ اعلامیے کے اجرا کے بعد پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان عوامی تحریک کی آل پارٹیز کانفرنس میں ان کے بقول ان جماعتوں کی اکثریت تھی جن کو گذشتہ انتخابات میں عوام نے مسترد کر دیا تھا۔
یوم شہداء
اعلان
مورخہ 3 اگست کو تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پہ جنرل کونسل کا اجلاس ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مورخہ 10 اگست کو یوم شہداء کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔[95] پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے مزید کہا کہ:
- انقلاب پتھر پر لکیر ہے، اگست ختم ہونے سے قبل موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی۔
- فون کال ریکارڈ کے مطابق شہبازشریف اور نوازشریف کا قاتل ہونا ثابت ہو چکا ہے۔
- مقدمہ لاہور 16شہادتوں اور مقدمہ اسلام آباد 18کروڑ عوام کے معاشی حقوق کا مقدمہ ہے۔
- مقدمہ لاہور کا فیصلہ قصاص اور مقدمہ اسلام آباد کا فیصلہ انقلاب ہے۔
- شریف برادران اچھی طرح جانتے ہیں کہ مجھے دنیا کی کوئی طاقت نہ خرید سکتی ہے، نہ ڈرا سکتی ہے۔
- وزیر اعلیٰٰ پنجاب نے کہا کہ میں بے خبر تھا، کیا وہ ابھی تک بے خبر ہیں؟ ابھی تک انہی کے حکم سے FIRدرج نہیں ہوئی۔
- سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد اگر چاہتے تو جاتی عمرہ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے، مگر ہم نے امن کا دامن نہ چھوڑا۔
- اگر حکومت نے عوام پر تشدد کیا تو یوم شہداء ماڈل ٹاون کی بجائے جاتی عمرہ کے محل میں ہوگا۔
رد عمل
مورخہ تین اگست 2014ء کی پریس کانفرنس کے بعد حکومتی عہدے داران کے بیانات:
- وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی کہا ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
- گورنر پنجاب چوہدری سرور نے پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری سے کہا کہ مطالبات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔[96]
- حکومت اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے کہ ان کے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے مطابق ڈاکٹر طاہرالقادری ٹیکس چوروں کے سربراہ ہیں۔[97]
- وفاقی وزیر قانون رانا مشہود کی بے ہودہ گفتگو کے بعد اے آر وائی نیوز نے ایک ڈاکومنٹری تیار کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی وزراء بوکھلاہٹ کا شدید شکار ہیں۔[98]
اثرات
اس واقعہ کے بعد طاہرالقادری کی پاکستانی سیاست میں اہمیت بڑھ گئی [99] جہاں ان کے بارے میں پہلے سیاسی مبصرین "حکومت کے لیے چھوٹا سا خطرہ "اور " غیر سیاسی ہستی " جیسے تبصرے کرتے تھے[100]۔ جبکہ دوسرے مبصرین کی طرف سے یہ تشویش ظاہر کی گئی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس معاملے میں "جارحانہ اور غیر متناسب"ردِ عمل کا اظہار کیا،اور کچھ نے اسے پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے [101] "اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا" [100] کہا جبکہ چند ایک کا خیال تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن،طاہرالقادری کو ملنے والی پزیرائی سے خوفزدہ تھی جس کی وجہ سے یہ کام کیا گیا[101]۔
گلو بٹ
جہاں ایک طرف پولیس کا آپریشن جاری تھا تو دوسری طرف مختلف ٹی وی چینلز کے کیمروں کی آنکھ نے ایک شخص کو دیکھا۔ تحریک منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ کے باہر غارتگری کرنیوالا ایک سادہ لباس شخص، جس نے ہاتھوں میں ڈنڈا تھاما ہوا تھا۔ پہلے وہ اہلکاروں کو جوش دلاتا رہا پھر ایک دھاوا بولا کہیں گاڑیوں کے شیشے توڑے تو کہیں دکان سے لوٹ مار کی۔۔ یہ آدمی بعد میں گلو بٹ کے نام سے شناخت کیا گیا؛ بعد میں مختلف میڈیا رپورٹس سے پتہ چلا کہ گلو بٹ کوئی اور نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کا ایک کارکن ہے۔ گلو بٹ کی شہرت کو دیکھتے ہوئے اس کے نام سے ایک اینڈرائیڈ گیم بھی مارکیٹ میں آ گئی جسے لوگوں نے خوب پسند کیا۔
انقلاب مارچ
انقلاب مارچ ایک عوامی احتجاج ہے جو آزادی مارچ کا ساتھی بھی ہے، اس احتجاج کی اصل وجہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہے۔[حوالہ درکار]
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ Rana Tanveer، Abdul Manan (21 جون 2014)۔ "The axe falls: Heads finally roll over Model Town tragedy"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2014
- ↑ Rana Tanveer (20 جون 2014)۔ "Lahore clashes: Will accept only JIT with ISI, IB, MI reps, says Qadri"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2014
- ↑ "Pakistan: Eight die as Lahore police clash with Qadri supporters"۔ بی بی سی نیوز۔ 17 جون 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2014
- ↑ Waqar Gillani (17 جون 2014)۔ "7 Killed as Pakistan Police Clash With Preacher's Followers"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2014
- ↑ سیکیورٹی بیریئرز لگانے کے لیے ہائی کورٹ کے احکامات
- ↑ Fatwa on Terrorism and Suicide Bombings
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور
- ↑ انسانی حقوق کی تنظیم نے غیر جانبدار عدالتی انکوائری پر زور دیا۔
- ↑ "PPP, MQM resolutions condemn Lahore killings"۔ دی نیوز۔ 20 جون 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2014
- ^ ا ب Qasim Nauman (17 جون 2014)۔ "Pakistan Police Clash With Supporters of Canada-Based Cleric"۔ وال اسٹریٹ جرنل۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2014
- ↑ اے آر وائے: سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وزیر اعلیٰٰ براہ راست ملوث، حقائق منظرعام پر
- ↑ ڈان نیوز: ٹریبونل نے وزیر اعلیٰٰ، متعلقہ حکام اور پولیس افسروں کی ٹیلیفونک گفتگو کا ریکارڈ طلب
- ↑ روزنامہ پاکستان: سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی اندرونی کہانی منظرعام پر آگئی
- ↑ روزنامہ پاکستان: پولیس کی طرف سے ایک اور شرمناک کارروائی،اسلحہ کی برآمدگی دکھانے کی تیاریاں
- ↑ بی بی سی: رانا ثناء اللہ کا استعفی اور توقیر شاہ کی برطرفی
- ↑ نوائے وقت: ایس ایچ او کی مدعیت میں طاہرالقادری کے بیٹے سمیت تین ہزار سے زائد افراد پر دہشت گردی کا مقدمہ
- ↑ دنیا نیوز: حکومتی رویہ پر پولیس بددلی کا شکار
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے یک رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل
- ↑ حکومت کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کا قیام کا حکم۔
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم ٹربیونل عدل و انصاف اور شہداء کے خون سے مذاق ہے
- ↑ جوڈیشل کمیشن کا محدود دائرہ کار
- ↑ روزنامہ پاکستان: عدالتی تحقیقات کے پہلے روز ہی حکام ادھوری رپورٹ کیساتھ کمیشن کے سامنے پیش
- ↑ فرانزک ماہرین نے کرائم سین دیکھے بغیر رپورٹ بنانے سے انکار کر دیا
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن، شہادتیں ضائع ہوگئیں: فرانزک حکام، جے آئی ٹی کی رپورٹ دینے سے معذرت
- ↑ جوڈیشل کمیشن نے وزیر اعلیٰٰ متعلقہ حکام اور پولیس افسروں کی ٹیلیفونک گفتگو کا ریکارڈ طلب
- ↑ پاکستان عوامی تحریک کے بعد پنجاب حکومت بھی ٹریبونل پہ معترض
- ↑ چار ایس پیز اور 20 اہلکاروں کے گرد گھیرا تنگ، کارروائی کا فیصلہ
- ↑ اٹھارہ شخصیات کے ٹیلی فون ریکارڈ ٹریبونل کے سپرد
- ↑ فرانزک رپورٹ میں سٹوڈنٹس کی طرف سے فائرنگ کا الزام
- ↑ پولیس پر فائرنگ بارے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کا دعوی
- ↑ تحقیقاتی ٹریبونل میں شہبازشریف کا بیان حلفی جمع کروا دیا گیا۔
- ↑ Tribune: I was kept out of loop, Shahbaz tells judicial tribunal
- ↑ "The nation: I ordered police to retreat before shooting: CM"۔ 11 مارچ 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2015
- ↑ سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کرنے والے جج کو سنگین نتائج کی دھمکی
- ↑ ایف بی آر کی جانب سے پاکستان عوامی تحریک کو آڈٹ کا نوٹس جاری
- ↑ "تھانہ فیصل ٹاؤن میں ایف آئی آر کے لیے درخواست"۔ 07 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2015
- ↑ سیشن کورٹ میں ایف آئی آر کی درخواست[مردہ ربط]
- ↑ دی فرنٹیئر پوسٹ: پاکستان عوامی تحریک کی درخواست پر تحقیقاتی ٹیم سے ریکارڈ طلب[مردہ ربط]
- ↑ "دی نیوز: ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج صفدر بھٹی نے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم سے رپورٹ طلب کرلی۔"۔ 18 جولائی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2015
- ↑ پاکستان عوامی تحریک کی درخواست کی سماعت اکیس جولائی تک ملتوی
- ↑ منہاج القرآن کے وکلا کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹس پر بحث کی ہدایت
- ↑ نامکمل ایف آئی آر
- ↑ صحیح اندراج ایف آئی آر
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کا اندراج
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے نئی JIT کا قیام
- ↑ ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے نئی جے آئی ٹی کا رد
- ↑ نئی جے آئی ٹی کا رد
- ↑ نئی جے آئی ٹی کے ساتھ پہلی میٹنگ
- ↑ بیان حلفی جمع کروانے کا نوٹس
- ↑ ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری
- ↑ ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری
- ↑ طرفہ چلان کی مذمت
- ↑ "State Terrorism will not be tolerated: Qadri"۔ دی نیوز۔ 17 جون 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جولائی 2014
- ↑ "Qadri vows to take revenge by revolution"۔ The Nation۔ 23 جون 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جولائی 2014
- ↑ دنیانیوز: ماڈل ٹاؤن میں گھنٹوں گولیاں چلتی رہیں، وزیر اعلیٰٰ پنجاب کہاں تھے؟ عمران خان
- ↑ شمالی وزیرستان کے فوجی آپریشن کو سبوتاژ کرنے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کرایا گیا۔ چوہدری شجاعت
- ↑ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینرخالد مقبول صدیقی کا تعزیتی بیان[مردہ ربط]
- ↑ پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ کا تعزیتی بیان[مردہ ربط]
- ↑ راول نیوز: فردوس عاشق اعوان کا شہباز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ[مردہ ربط]
- ↑ "جماعت اسلامی کی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پرزور الفاظ میں مذمت"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2015
- ↑ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا تعزیتی بیان[مردہ ربط]
- ↑ غیر مسلم برادری کے نمائندوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پرزور الفاظ میں مذمت
- ↑ سابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان کا حکمرانوں کے لیے سوالیہ نشان؟
- ↑ بے گناہ لوگوں کا قتل مہذب معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ سردار عتیق
- ↑ ظلم یہ ہے کہ قاتلوں نے مظلوموں پر ہی FIR درج کرا دی۔ شاہ محمود قریشی
- ↑ وزیر اعلیٰ نے جنرل ڈائر کا کردار ادا کرتے ہوئے عوامی تحریک کے پرامن اور نہتے کارکنوں کا قتل عام کیا ہے۔ سردار آصف احمد علی
- ↑ وزیر اعلیٰ قاتل اعلیٰ ہیں۔ صاحبزادہ حامد رضا
- ↑ حکمران حق حکمرانی کھو چکے ہیں۔ راجا ناصر عباس
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔ راحیلہ ٹوانہ
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ریاستی دہشت گردی اور ظلم و بربریت کی انتہا کی ہے۔ نذیر احمد جنجوعہ
- ↑ سانحہ کے وقت پنجاب اسمبلی میں زبر دست احتجاج کیا گیا۔ میاں محمود الرشید
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے میں نے مسلم لیگ ن سے استعفا دیا۔ مائیکل جاوید
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن ظالم حکمرانوں کی طرف سے 20 کروڑ عوام کو بیدار ہونے کا پیغام ہے۔ جے سالک
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کو سڑکوں پر سزا ملے گی۔ جمشید دستی
- ↑ 14 شہداء کا مطلب ہے کہ انسانیت کا 14 بار قتل عام ہوا ہے۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی وردیوں میں ریاستی دہشت گردی کی گئی۔ علامہ حامد سعید کاظمی
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن نے غلامی کے دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بابا حیدر زمان
- ↑ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث حکومتی عناصر ذرا شرمندہ نہیں ہو رہے۔ اجمل وزیر
- ↑ حکمران سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست ملوث ہیں۔ احمد رضا قصوری
- ↑ ڈسکہ: سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کی یاد میں تین روزرہ سوگ کیمپ
- ↑ پاکپتن شریف: سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لیے قرآن خوانی
- ↑ کوہاٹ: سانحۂ ماڈل ٹاؤن پر شدید احتجاج
- ↑ اٹک: سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
- ↑ کوئٹہ: پنجاب حکومت کی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
- ↑ مردان: سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
- ↑ سپین: پاکستانی کمیونٹی کا سانحہ لاہور کے خلاف قونصلیٹ جنرل کے سامنے احتجاجی مظاہرہ
- ↑ فرانس: سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
- ↑ جرمنی (فرینکفرٹ): لاہور میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کے خلاف مظاہرہ
- ↑ جرمنی (برلن): پنچاب پولیس کی ظلم و بربریت کے خلاف پاکستانی سفارتخانہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ
- ↑ ڈنمارک: سانحہ لاہور کے خلاف پاکستانی ایمبیسی کے سامنے پاکستانی تنظیمات کااحتجاجی مظاہرہ
- ↑ آسٹریا: پاکستانی کمیونٹی کا پاک ایمبیسی کے سامنے شہدائے لاہور سے اظہار یکجہتی کے لیے پرامن مظاہرہ
- ↑ یونان: سفارتخانہ پاکستان کے سامنے سانحہ لاہور پر منہاج القرآن انٹرنیشنل یونان کی جانب سے احتجاج
- ^ ا ب سانحہ ماڈل ٹاون میں قتل و غارت گری کیخلاف آل پارٹیز کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ
- ^ ا ب بی بی سی: آل پارٹیز کانفرنس میں شہباز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
- ↑ دس اگست کو یوم شہداء منانے کا اعلان
- ↑ گورنر پنجاب کا طاہرالقادری کو فون
- ↑ نواز شریف خود ٹیکس چوروں کے سردار ہیں
- ↑ حکومت کا ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف پروپیگنڈا
- ↑ Jon Boone (23 جون 2014)۔ "Pakistani cleric claims government 'hijack' after flight diverted from capital"۔ دی گارڈین۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2014
- ^ ا ب Babar Sattar (23 جون 2014)۔ "The reign of Gullu Butts"۔ Dawn۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2014
- ^ ا ب Aamir Yasin، Amir Waseem، Mohammad Asghar (23 جون 2014)۔ "Who's afraid of Tahirul Qadri?"۔ Dawn۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2014