سانچہ:باب:معاشیات/منتخب معیشت
چین دنیا میں خام ملکی پیداوار کے حساب سے چوتھا ملک ہے اور بڑی تیزی سے مزید ترقی کر رہا ہے اور اب یہ بات شک سے بالاتر ہے کہ اگر چین ایسے ہی ترقی کرتا رہا تو جلد ہی اسے دنیا کی ایک عظیم طاقت (Super Power) تسلیم کرنا پڑے گا۔ چھبیس کھرب امریکی ڈالر کی خام ملکی پیداوار اور دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین کی فی کس آمدنی بھی دو ھزار ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے اور مساوی قوتِ خرید فی کس آمدنی بھی سات ھزار ڈالر سے زیادہ ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چین ایک اشتراکی (Socialist) ملک ہے مگر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کی %70 خام ملکی پیداوار نجی شعبہ میں ہوتی ہے۔ چین دنیا کا واحد ملک ہے جسے وقتاً فوقتاً اپنی ترقی پر روک لگانا پڑتی ہے تاکہ غیر ضروری ترقی سے اس کا معاشرتی ڈھانچہ تباہ نہ ہو جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ چینی اپنے ملک میں مسلسل اصلاحات کر رہے ہیں تاکہ وہ دنیا میں اپنا معاشی مقام بنا سکیں اور سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ بھی کر سکیں۔ چین کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ معاشی اشاریوں (Indicators) کے مطابق اس کی خام ملکی پیداوار کی تقسیم آبادی میں سب سے زیادہ مناسب ہے یعنی امیر اور غریب کے درمیان فرق نسبتاً کم ہے۔ 2006ء میں چین کی خام ملکی پیداوار 1978ء کی نسبت 10 گنا زیادہ تھی۔ چین کی طاقت کا اندازہ بہت سی چیزوں سے ہو سکتا ہے مثلاً اس میں 23000 سے زیادہ بند (ڈیم) ہیں۔ 2005ء میں اس کی برآمدات اس کی درآمدات سے 30 ارب امریکی ڈالر زیادہ تھیں۔ 2006ء میں چین میں 70 ارب امریکی ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ اسی سال چین دنیا میں سب سے بڑے زرِ مبادلہ کے ذخائر رکھنے والا ملک بن گیا۔
تیزی سے ترقی کی وجہ سے 1981ء سے 2001ء کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی تعداد %53 سے کم ہو کر صرف %8 رہ گئی ہے۔ 1990 کی دہائی میں فی کس آمدنی میں %175 اضافہ دیکھنے میں آیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس قدر تیز ترقی کے باوجود افراطِ زر کو قابو میں رکھا گیا ہے جو 1995-1999 کے دوران بہت کم ہو گیا۔