???;
دارالحكومت  
سربراه  
ذبانيں  
آبادى  
رقبعه  
ٹائم ذون  
فون كوڈ  
انٹرنيٹ كوڈ  

اس حقيقت سے تو سب هى واقف هيں كه اردو ذبان مختلف ذبانوں كا مركب هے ـ اور اس كى تركيب ميں اب بهى كسى بهى ذبان كے الفاظ استعمال كئے جاسكتے هيں ـ اگر اگر اپ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ لفظ جِس زبان سے آیا ہو اُردو میں بھی اسکا تلفظ اور استعمال اسی زبان کے مطابق ہونا چاہیئں تو آپ كا مطالبه ايكـ ناجائز مطالبہ ہے۔ عربی فارسی اور سنسکرت کے علاوہ بھی اُردو نے کئی زبانوں سے خوشہ چینی کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اُردو میں آ کر لفظوں کی شکل خاصی بدل گئی ہے۔ جیسے انگریزی کا سٹیمپ پیپر اُردو میں اشٹام پیپر اور بعد میں صرف اشٹام‘ رہ گیا۔ تُرکی کا چاغ اُردو میں آ کر چاق (كمەار كى برتن بنانے كى مشين) ہو گیا اور پُرتگالی زبان کا بالڈی اُردو میں آ کر بالٹی بن گیا۔ جِن لوگوں کا بچپن پنجاب میں گزرا ہے انھوں نے لفظ ’بکرا عید‘ ہزاروں مرتبہ سُنا اور بولا ہو گا۔ بچپن میں اسکی یہی توضیح ذہن میں آتی تھی کہ اس روز بکرا ذبح کیا جاتا ہے اس لئے یہ بکرا عید ہے۔ کچھ بڑے ہوئے تو اس اِسطرح کے جُملے پڑھنے سننے کو ملے۔ میاں کبھی عید بکرید بکرید پر ہی مِل لیا کروـ وقت كے ساتهـ جب الفاظ كو لكهنے پڑهنے كے قابل هوئے تو پتہ چلا کہ یہ تو دراصل بقرعید ہے اور اسکا ’ بکرے سے نہیں بقر (گائے) سے تعلق ہے۔ ميرے خيال ميں توباہر کے لفظوں نے اُردو میں داخل ہونے کے بعد جو شکل اختیار کر لی ہے اب اسی کو معیاری تسلیم کر لینا چاہیئے۔ منبع و ماخذ تک پہنچ کر اُن کے قدیم تلفظ کا کھوج لگانا ایک عِلمی مشغلہ تو ہو سکتا ہے لیکن روزمرّہ استعمال میں اصل اور پرانے تلفظ کو مُسلط کرنے کی کوشش اُردو کی کوئی خدمت نہیں ہو گی بلکہ اسکی راہِ ترقی میں روڑے اٹکانے والی بات ہوگی۔