سورہ فاتحہ دراصل ایک دعا ہے جو اللہ نے ہر انسان کو سکھائی ہے جو اس کتاب (قرآن) کا مطالعہ شروع کررہا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے خداوند عالم سے یہ دعا کرو۔ انسان فطرتاً اسی چیز کی دعا کرتا ہے جس کی طلب اور خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے اور اسی صورت میں کرتا ہے جبکہ اسے یہ احساس ہو کہ اس کی مطلوب چیز اس ہستی کے اختیار میں ہے جس سے وہ دعا کررہا ہے۔ پس قرآن کی ابتدا میں اس دعا کی تعلیم دے کر گویا انسان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو راہ راست کی جستجو کے لئے پڑھے، طالبِ حق کی ذہنیت لے کر پڑھے اور یہ جان لے کہ علم کا سرچشمہ خداوندِ عالم ہے، اس لئے اسی سے رہنمائی کی درخواست کرکے پڑھنے کا آغاز کرے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے بعد یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورۂ فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمے کا سا نہیں بلکہ دعا اور جوابِ دعا کا سا ہے۔ سورۂ فاتحہ ایک دعا ہے بندے کی جانب سے، اور قرآن اس کا جواب ہے خدا کی جانب سے۔ بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار! میری رہنمائی کر۔ جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی درخواست تونے سے مجھ سے کی تھی۔ مکمل مضمون