سواتی پختون یوسفزئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو سوات میں آباد تھے۔ پہلے زمانے میں اس خطے کو پٹھانوں نے فتح کیا (جن کو اب سواتی پٹھان کہتے ہیں) اور ریاست بنایا۔ ایک عرصے کے بعد یوسف زئیوں نے ان پٹھانوں کو اس خطے سے خارج کر دیا۔سواتی پٹھان کسی ایک خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ یہ کئی افغان قبیلے تھے جو محمد غوری کے ساتھ آئے تھے اور سوات میں آباد ہو گئے تھے۔ بعد میں باہر کے لوگ انھیں الگ الگ قبیلوں کے نام سے پکارنے کی بجائے سوات سے وطنی نسبت کی وجہ سے سواتی پٹھان کہنے لگے۔ ان لوگوں نے سلطان شہاب الدین محمد غوری کے عہد میں اس کے حکم سے سوات اور باجوڑ کی راہ لی تھی اور وہاں سے قدیم باشندوں کو جو کافر تھے نکال کر اس علاقہ پر قابض ہو گئے اور قریب چار سو سال تک یہاں قابض رہے اور پھر ان میں سے ایک بزرگ شاہ میر بابا نے بٹ خیلہ سے جا کر کشمیر پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کی شیخ محمد اکرام مصنف آب کوثر لکھتے ہیں:کے ساتھ اشغر میں آئے تھے۔تواریخ حافظ رحمت خانی میں متراوی قبیلہ کا ذکر ہو چکا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو یوسفزئی بیان کرتے ہیں۔ گبری کی وجہ تسمیہ کے متعلق معلوم رہے کہ کوہ گبر دریائے توچی کے قریب علاوہ میں ورغڑ کے متصل افغانستان کی مشرقی سرحد پر جہاں اس وقت بٹنی افغان رہتے ہیں،بٹنی ق ذات کے پٹھان دراصل افغان ہیں ۔ یہ لوگ وہاں پرایک وادی میں رہائش پزیر تھے اور محمد غوری کے ساتھ وہاں سے چلے آئے تھے۔ وہاں کی رہائش کی وجہ سے ان کا نام گبری اور بعد میں سوات میں رہائش کی وجہ سے سواتی مشہور ہوئے ،ان سواتی پٹھانوں میں چھوٹے چھوٹے مختلف افغان قبائل شامل ہیں جن میں بٹنی قبیلہ کی بھی ایک شاخ تھی جو بٹسوات کے ایک بزرگ شاہ میر 1315ء میں کشمیر کے راجا سنگھ دیو کے ہاں ملازم ہوئے اور اپنی خداداد قابلیت سے بڑا اقتدار حاصل کر لیا۔ ان کے بیٹوں کو بھی راجا نے بڑے اختیارات دیے اور ان کو راجا کے ایک جانشین نے اپنا وکیل مطلق مقرر کیا آخر میں جب ملک کا نظام درہم برہم ہونے لگا تو 1343ء مین شاہ میر شمس الدین شاہ کے نام سے تخت نشین ہوئے اور سکہ و خطبہ جاری کیا۔ کشمیر میں اسلام انہی کی بدولت پھیلا۔ شاہ میر نے کشمیر سے اسلام کے سیاسی تعلقات کی بنیاد ڈالی۔‘‘شاہ میر کے والد کا نام شاہ دین ہے۔ کیمبرج ہسٹری میں شاہ میر کی نسبت لکھا ہے کہ :’’نئے بادشاہ نے اپنے اختیارات سمجھ اور نیک نیتی سے استعمال کیے کشمیر کے ہندو راجے بڑے ظالم تھے۔ ان کی علانیہ پالیسی یہ تھی کہ رعیت کے پاس معمولی دال روٹی سے زیادہ کچھ نہ رہنے دیا جائے۔ نئے بادشاہ کی حکومت لبرل اصول پر قائم تھی۔ اس نے بے جا سرکاری لگان اور غیر منصفانہ ٹیکس ہٹا دیے۔ ٹیکس وصول کرنے کے ظالمانہ طریقے موقوف کر دیے اور سرکاری لگان پیداوار کے چھٹے حصے پر مقرر کیا۔ تاریخ فرشتہ میں درجہ ہے کہ:’’شاہ میر 715ھ میں کشمیر آیا اور راجا کی اکثر رعیت اور ملازموں کو موافق یعنی مسلمان کیا اور اتنا اثر پیدا کیا کہ 747ھ میں اس نے حکومت خود سنبھال لی۔ بلاد کشمیر میں حنفی مذہب کو رواج دیا۔ شاہ میر کے چار بیٹے تھے بڑا بیٹا جمشید اور دوسرا علی شیر تھا۔ تیسرا میراث اور چہارم ہندال تھا۔ یہ سب قابل اور ہوشیار تھے۔ شاہ میر نے تین سال تک کامیاب حکومت کرکے وفات پائی اور اس کا بڑا بیٹا جمشید اتفاق سے تخت پر بٹھایا گیا اور علی شیر اس کا وزیر مقرر ہوا اور اپنے باپ کے طریقہ سے نظام حکومت عادلانہ قائم رکھا۔‘‘کتاب راج ترنگینی (فارسی ترجمہ ملا شاہ محمد، شاہ آبادی) میں شاہ میر کی اولاد کے متعلق ذکر یوں درج ہے۔’’سلاطین شاہ میر نے کشمیر میں تقریباً دو سو سال تک کامیاب حکومت کی۔ اس خاندان کا معروف ترین سلطان، زین العابدین، مشہور بادشاہ تھا۔ یہ سلطان بڑا عالم، ادیب اور شاعر تھا۔ عربی اور فارسی میں بے تکلف شعر کہتا تھا۔ اس سلطان نے کشمیری زبان کی کتابیں، قلمی نیز آثار عربی و فارسی و سنسکرت کو جمع کیا اور ایک بڑے کتب خانے کی بنیاد رکھی۔ یہ کتب خانہ سری نگر شہر میں تا عہد حکومت سلطان فتح شاہ (892۔898ھ) برقرار تھا۔‘‘اس خاندان کا آخری بادشاہ یوسف شاہ بن علی شاہ تھا جس کی بادشاہت 994ھ میں اکبر بادشاہ کے ہاتھوں ختم ہوئی۔(اقبال نامہ اکبری)الغرض سواتی پٹھانوں نے الغ بیگ اور بابر کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے مردانہ وار مقابلہ کیا اگرچہ شکست کھائی تاہم برسوں تک اس علاقہ پر قابض رہے یوسفزیوں کی آمد پر ان سے مقابلہ کی تاب نہ لاتے ہوئے ضلع ہزارہ کا رخ کیا اور وہاں سواتی پٹھان پکارے جانے لگے۔ علاقہ سوات سے نکل کر ہزارہ میں جس علاقہ پر انھوں نے قبضہ کیا اسے سلطان پکھال کے نام سے پھکلی نام دیا گیا۔ پھر اٹھارویں صدی میں سید جلال بابا کی قیادت میں اس قبیلہ نے ہزارہ کے شمالی علاقہ سے ترکوں کو نکال کر تمام پہاڑی اور میدانی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبیلہ کئی ذیلی شاخوں میں منقسم ہے۔ مثلاً گبری، ممیالی، عالی، متراوی دیشان اور دودان، دودگان یا دیگان جو ایک ہی نام ہیں اور اس وقت ان کو دو دیال کہتے ہیں۔ فتوح البلدان کا مصنف لکھتا ہے:’’دودان ایک قوم تھی شام کی سرحد(آرمینہ) میں جو مدعی ہے کہ وہ بنی دودان بن خریمہ میں سے ہے۔ ‘‘ بموجب تورات ، دودان بن یقشان بن ابراہیم علیہ السلام۔‘‘معلوم رہے کہ آرمینیہ میں اسرائیلی جلا وطنوں کا ذکر ہو چکا ہے۔ بنی ا سرائیل میں دودان ایک خاندان بھی تھا یہ لوگ محمد غوری کے ساتھ اشغر میں آئے تھے۔تواریخ حافظ رحمت خانی میں متراوی قبیلہ کا ذکر ہو چکا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو یوسفزئی بیان کرتے ہیں۔ گبری کی وجہ تسمیہ کے متعلق معلوم رہے کہ کوہ گبر دریائے توچی کے قریب علاوہ میں ورغڑ کے متصل افغانستان کی مشرقی سرحد پر جہاں اس وقت بٹنی افغان رہتے ہیں،بٹنی ق ذات کے پٹھان دراصل افغان ہیں ۔ یہ لوگ وہاں پرایک وادی میں رہائش پزیر تھے اور محمد غوری کے ساتھ وہاں سے چلے آئے تھے۔ وہاں کی رہائش کی وجہ سے ان کا نام گبری اور بعد میں سوات میں رہائش کی وجہ سے سواتی مشہور ہوئے ،ان سواتی پٹھانوں میں چھوٹے چھوٹے مختلف افغان قبائل شامل ہیں جن میں بٹنی قبیلہ کی بھی ایک شاخ تھی جو بٹخیلہ ۔ بٹگرام اور بٹل کے ناموں سے ظاہر ہے۔ بعض مورخین ان کے نسب کے متعلق مخالف رائے رکھتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ افغان قبائل میں سے ہیں۔ ان کی مادری زبان اب بھی پشتو ہے۔ اور اس وقت یہ لوگ مواضعات بٹل۔ الائی شنکیاری، بٹگرام، مانسہرہ، بفہ، اوگی ، بیلیاں ، گڑھی حبیب اللہ اور بالاکوٹ وغیرہ میں آباد ہیں اور یہ لوگ اپنے آپ کو افغانا ور پختون بولتے ہیں یہ لوگ بڑے محنتی اور بہادر اور آزادی پسند واقع ہوئے ہیں۔ سکھوں اور انگریزوں سے سخت جنگیں لڑی ہیں۔ ان میں پختون ولی کے جذبات بھی نمایاں ہیں۔

نوید عالم خواجہ خیل یوسفزئی سواتی، سواتی قوم کی چند ذیلی شاخیں بیان کرتے ہیں ابا خیل امیر خان خیل خواجہ خیل غازی خیل وغیرہ نمایاہیں تو اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ سواتی قبیلہ پختون قوم سے تعلق رکھتا ہے..

سوات کا نیا سیاحتی مقام

دشت لیلیٰ ۔ جس پر جا کر چار اضلاع کی خوبصورتی کو دیگھا جا سکتا ہے

سوات۔دیر۔بونیر۔مالاکنڈ ۔

حوالہ جات حمزہ خان شاخ ترمیم