نام

سید اشعر بخاری

نسب

سید اشعر بن سید مظفر بن سید حسین بن سید نظر حسین شاہ اکیسویں پشت میں سیدجلال الدین سرخ پوش بخاری(اچ شریف والے)سے امام زین العابدین رح تک ۔

لقب

شاعر اسلام

تخلص

اشعر

پیدائش

کراچی شہر کے ڈسٹرک گڈاپ ٹاون کے محلہ صدیق گوٹھ اللہ والی میں 11نومبر1999ء بروز جمعرات بمطابق 3 شعبان 1420ھ بوقت صحر آپ کی پیدائش ہوئی۔

شوق

آپ کو شاعری کا بہت شوق تھا یہی وجہ ہے کے لقب شاعر اسلام سے نوازا گیا آپ کی شاعری میں کثیر اشعار نعتیہ کلام پر مبنی ہیں اور کچھ نظم و منقبت و اصلاحی اشعار ہیں آپ کا پسندیدہ شاعر شاعر رسولؐ جناب حسان بن ثابت رض ہیں اور بر صغیر میں مشہور شاعر شاعر مشرق علامہ اقبال و اکبر الہ آبادی بھارت میں ٢١ء ویں صدی کے مشہور شاعر جناب عمران پرتاب گڑھی،جناب راحت اندوری اور پاکستان میں جناب بابا ہدہد الہ آبدی اور شاعر اسلام مفتی سعید ارشد الحسینی صاحب کی شاعری کا طرز وانداز بیحد پسند ہے۔

ابتدائی تعلیم


آپنے اپنی تعلیم کی ابتدا اللہ رب العزت کے پاک کلام کو پڑھنے سے کی اورمدرسہ جمعیت تعلیم القرآن ٹرسٹ سے(جو گھر کے بالکل سامنے واقع ہے) تقریباً 5 سال کے انتہائی کم عمر میں قرآن کریم کا ناظرہ ختم کیا اور پھر وہیں دوبارہ دہرانا شروع کیا اور تقریباً 10 مرتبہ قرآن کریم کو دہرایا آپ کی خواہش یہ تھی کہ قرآن کریم کو حفظ کرے مگر وقت کی قلت کی وجہ سے یہ ممکن نہ تھا ۔


عصری تعلیم

آپنے قرآن کریم کے دس مرتبہ ختم کے بعد تقریباً سات سال کی عمر میں اپنے علاقہ سے چند منٹ کے فاصلے پر واقع ایک سرکاری اسکول میں داخلہ لیا جو گورنمنٹ بوائز پرائمیری اسکول سیکٹر 5/ڈی2 کے نام سے مشہور ہے قرآن کریم کی برکت سے آپ قومی زبان اردو اسکول جانے سے پہلے ہی پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے اور انگلش بھی تقریباً پڑھ لیتے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ داخلے کے وقت ممتحن استاذ نے پاس کیا اور سوم جماعت میں بیٹھنے کی اجازت دی مگر حضرت کا دل نہ مانا اور تعلیم کی ابتدا اول جماعت سے ہی کرنے کی درخواست دی جس پر استاذ بھی متفق ہو گئے اور والدین بھی آپنے وہاں پورے پانچ سال تعلیم حاصل کی اور پندرہ امتحانات سالانہ اور ششماہی کی صورت میں  دیے اس کے علاوہ ماہانہ ٹیسٹ وغیرہ الگ اللہ کے فضل و کرم سے تمام کے تمام امتحانات میں اللہ نے اول پوزیشن پر مستحکم کیا۔

پانچ سالہ تعلیم کے اس دور میں کئی اساتذہ نے درس دیا جن میں سے فقط اساتذہ کے نام تحریر کر رہا ہوں استانیوں کے نام لکھنے سے قاصر ہوں۔ اساتذہ پرائیمیری اسکول(مدت تعلیم پانچ سال) سرمحمدیونس،سرمحمدسلطان احمد(مرحوم)،سر نصیر،سرقربان علی و دیگر۔

عصری تعلیم پرائیمیری کے بعد

   چونکہ اسکول پرئیمیری یعنی پانچ جماعت تک محدودتھا تو اس کے بعدایک اور اسکول میں داخلہ لیا جو پرائیویٹ اسکول تھا جو ایس۔ایس۔فیوچربرائٹ گرامراسکول کے نام سے مشہور ہے (اس کی کراچی میں کئی برانچ ہیں) اس میں چھٹی جماعت میں قابلیت کی بنا پر بغیر کسی امتحان و ٹیسٹ کے داخلہ لیا اور چھٹی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک وہیں تعلیم حاصل کی اور ان دو سالوں میں سہماہی ششماہی اور سالانہ ملاکرتقریباً نو امتحانات دیے اور ہر امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔

دینی تعلیم درس نظامی

 .    چونکہ عربی زبان سے بچپن ہی سے بہت لگاؤ تھا اسی لیے عربی لینگوئج کورس کرنے کا ارادہ کیا اور والد سے اس کا ذکر کیا تو بھائی نے مشورہ دیا کہ عریبک لینگوئج کورس کرنے سے بہتر ہے کہ درس نظامی کر لو کیونکہ والد صاحب کی طرف سے کھلی چھوٹ تھی کہ جو مرضی علم حاصل کرو جب تک میں ہوں تو اس بات کا جب والد سے ذکر کیا کہ بندہ درس نظامی کرنا چاہتا ہے تو والد صاحب بہت زیادہ خوش ہوئے چونکہ والد صاحب تمام بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس سے پہلے بڑا بھائی بھی درس نظامی کر رہا تھا اور درجہ خامسہ میں تھا(الحمد للہ اب ان کی فراغت ہو چکی) 

جامعہ مدنیہ سیکٹر5/ای نیوکراچی (میں حضرت مولانا فیض الباری صاحب رحمہ اللہ کی زیر سرپرستی میں) درجہ اولیٰ میں داخلہ لیا اور اپنی دینی تعلیم کا آغاز کیا درجہ اولیٰ سے ابتک یعنی تخصص فی الفقہ الاسلامی تک وہیں جامعہ مدنیہ میں ہی زیر تعلیم ہے اور یہاں بھی الحمد للہ ہر امتحان میں پوزیشن حاصل کی اور آئندہ بھی ان شاء اللہ کوشش رہے گی کہ اپنی پوزیشن پر برقرار رہیں ان شاء اللہ۔


اساتذہ کرام(درجہ اولٰی)

مولاناروح الامین صاحب حفظہ اللہ مفتی احسان اللہ صاحب حفظہ اللہ مفتی غلام مرتضٰی صاحب نوراللہ مرقدہ مفتی ضیاءالرحمٰن صاحب حفظہ اللہ


اساتذہ کرام(درجہ ثانیہ)

مفتی عبد الرحمٰن صاحب حفظہ اللہ مفتی عبد الرحیم صاحب حفظہ اللہ مولاناروح الامین صاحب حفظہ اللہ مولانانثاراحمد صاحب حفظہ اللہ مفتی غلام مرتضٰی صاحب رح مفتی عبیداللہ صاحب حفظہ اللہ ( شیخ الحدیث جامعہ مدنیہ)


اساتذہ کرام(درجہ ثالثہ)

مفتی عبد الرحمٰن صاحب حفظہ اللہ مولانا روح الامین صاحب حفظہ اللہ علامہ ساجدخان نقشبندی صاحب حفظہ اللہ مفتی محموددانش صاحب حفظہ اللہ مولانا سلیم اللہ صاحب حفظہ اللہ مفتی احسان اللہ صاحب حفظہ اللہ


اساتذہ کرام(درجہ رابعہ)

مفتی عبد الرحیم صاحب حفظہ اللہ مفتی مسرور احمد صاحب حفظہ اللہ مفتی عبد الرحمٰن صاحب حفظہ اللہ مولانا نثار احمد صاحب حفظہ اللہ مفتی احسان اللہ صاحب حفظہ اللہ مفتی انس حبیب صاحب حفظہ اللہ مولانا صالح محمد درویش صاحب حفظہ اللہ


اساتذہ کرام(درجہ خامسہ)

مفتی عبد الرحیم صاحب حفظہ اللہ مفتی عبدالحمٰن صاحب حفظہ اللہ مفتی عرفان اللہ صاحب حفظہ اللہ مفتی مسرور احمد صاحب حفظہ اللہ مولانا صالح محمد درویش صاحب حفظہ اللہ مفتی انس حبیب صاحب حفظہ اللہ


اساتذہ کرام(درجہ سادسہ)

علامہ ساجد خان نقشبندی صاحب حفظہ اللہ مفتی عبد الرحمٰن صاحب حفظہ اللہ مفتی عبد الرحیم صاحب حفظہ اللہ مفتی محمود دانش صاحب حفظہ اللہ مفتی احسان اللہ صاحب حفظہ اللہ مفتی عرفان اللہ صاحب حفظہ اللہ


اساتذہ کرام(درجہ سابعہ،موقوف علیہ)

مفتی احسان اللہ صاحب حفظہ اللہ،مفتی عبد الرحیم صاحب حفظہ اللہ،مفتی محمود دانش صاحب حفظہ اللہ،مفتی عرفان اللہ صاحب حفظہ اللہ،علامہ ساجد خان نقشبندی صاحب حفظہ اللہ،مولاناصالح محمد درویش صاحب حفظہ اللہ


(پھر اس کے بعد درس نظامی کی تکمیل اور دورہ حدیث کیلٸے جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ یوسف بنوریؒ ٹاؤن(نیو ٹاؤن)میں داخلہ لیا اور وہاں تقریبا دو ہفتے کلاس میں حاضری دی اور وہاں کے اساتذہ قاری مفتاح اللہ صاحب،مولاناعبدالرؤف غزنوی صاحب،مولانامحمدزیب صاحب،مولاناعبدالرؤف ہالیجوی صاحب،مولانا انور بدخشانی صاحب،مولاناقاری قاسم صاحب،مولاناقاری محب اللہ صاحب،مولاناامداداللہ صاحب،مولانافضل محمد صاحب حفظہم اللہ سے فیض حاصل کیا۔

پھر کچھ ذاتی معاملات کی بنا پر مدرسہ کو الوداع کہنا پڑا اور دوبارہ اپنے ہی سابقہ مدرسے جامعہ مدنیہ سیکٹر 5ای میں دورہ حدیث کے لیے داخلہ لیا اور 13 فروری 2022ء 1443ھ کو درس نظامی سے فراغت ہوئی اور دستار فضیلت سر پر سجائی گئی۔

درس نظامی سے فراغت کے وقت اپنے ساتھیوں جامعہ اور اساتذہ کی کاوشوں اور قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ نظم ساتھیوں اساتذہ اور جامعہ کے خدمات پر تحریر کی ملاحظہ فرمائیں:۔

(فضلاء جامعہ مدنیہ 1443)

الوداع اے میرے جامعہ مدنیہ الوداع اے میرے مادرِ علمیہ

وقتِ رخصت ہے اب وادیِ نور سے جائے محظوظ سے ، عہدِ مسرور سے

نور کی طشت میں علم ملتا یہاں عدل و انصاف کا دور چلتا یہاں

حسنِ اخلاق سے ہے یہ آراستہ تقوی و زھد سے ہے یہ پیراستہ

صفّہ کے طرز سے یہ طریقت ملی ہمکو اصحاب سے یہ روایت ملی

رب کے قرآن سے ہے منوّر فضا قال قال النّبی سے معطّر فضا

محسنین و مربّی اتالیق ( اساتذہ) ہیں محترم مثلِ والد بتحقیق ہیں

پیکرِ خُلق و اخلاص و عرفان ہیں ایسے مشفق ملے رب کا احسان ہے

ترک مشغولیت کی ہمارے لیے اپنی راحت بھی چھوڑی ہمارے لیے

ہر قدم پہ وہ ہم کو تھے دیتے دعا ان کی محنت سے ہی تو بڑھا حوصلہ

مال و جاں راہِ حق میں دی رب کے لیے وقف کی زندگی شاہ عرب کے لیے

مہتمم حضرتِ فیض ب

باری ہوئے فیض سے ان کے فیضان جاری ہوئے

پایا فیضان دیوبندِ مسعود کا قاری طیّب کا اور مفتی محمود کا

دین کے تھے محافظ وہ رب کے ولی جن کے تلمیذ ہیں حضرتِ زرولی

طارق اعظم کو بھی فیض یابی ملی ساری دنیا میں پھر آفتابی ملی

حضرتِ شامزئی ، ڈاکٹر عادل بھی تھے یہ شاگرد اک شخصِ کامل بھی تھے

ہم سے یہ برگزیدہ جدا ہو گئے یہ سب راہی ملکِ بقا ہو گئے

لحد میں ان کی رحمت کی باران ہو حق میں ان کے خدایا مہربان ہو

جانشیں بعد ان کے ہوئے راہنما مولوی فضل اسلاف کے ترجماں

ان کی سادہ مزاجی کی ہے انتہا نقشِ والد سی ہے ان کی ہر اک ادا

ان کو رکھنا سلامت اے میرے خدا ان کا سایہ سروں پر ہو دائم سدا

آج مفتی عبیداللہ جانِ عزیز دیتے ہمکو بخاری کا درسِ حدیث

مفتی عرفان بھی علم میں سرشار ہیں وہ بھی درسِ بخاری کے کردار ہیں

بارگاہِ خدا میں یہ مقبول ہوں کاوشیں ساری ممدوح و انمول ہوں

سرخروئی دے اے رب اسامہ کو بھی اس کی تکرار میں علمی چاہت بڑھی

اور اسعد وسیم اور نور حسن دے ترقی جہاں میں دے باغ عدن

اسماعیل عاقب عبد الصبور اے خدا علم کا بھر دے سینوں میں نور اے خدا

اور وہاج کو دے فراست الہ دین کا کام لے اور دے عزت الہ

کر تو اشعر کو نسبت کا صدقہ عطا جد اعلی کے نقش قدم پر چلا

جس طرح ساتھ دنیا میں مل کر دیا حشر میں بھی یہ جنت میں سنگ ہوں وہاں

دیں کی خدمت کا ان کو کو ہو جذبہ عطا اعلی اخلاق اور زہد و تقویٰ عطا

دستگیری تو کر ان کی ہر جال سے یعنی شیطان اور نفس کی چال سے

دارِ فانی میں یوں ان کے کردار ہوں حشر کے روز جنت کے حقدار ہوں

حق کی ترویج کے عزم بردار ہوں واسطے دیں کے دشمن کے تلوار ہوں

یا الٰہی انھیں کامرانی ملے ہر قدم ، ہر جگہ شادمانی ملے

گلشنِ فیض کے جو بھی خادم بنے اس کی خدمت کے جو لوگ عازم بنے

آپنے الطاف سے تو صلہ دے انھیں اور خلدِ بریں میں جگہ دے انھیں

اور مہکتا رہے گلشن مدنیہ سارے عالم میں پھیلے مہکتی فضا

سفر فرقت اشعر اب شروع ہو گیا الوداع دوستوں دل کی ہے یہ صدا

جیسے دنیا میں سنگ یار تھے با وفا حشر میں پھر ملیں گے جو موقع ملا

الوداع الوداع الوداع الوداع الوداع الوداع الوداع الوداع

✍🏻: سید محمد اشعر بخاری

پھر اساتذہ کے مشورے سے دوبارہ یہی اسی جامعہ مدنیہ میں ایک سالہ تخصص فی الفقہ الاسلامی میں داخلہ لیا اور 5 فروری 2023 کو تخصص فی الفقہ الاسلامی سے فراغت ہوئی اور دستار فضیلت سر پر سجائی گئی ۔


اساتذہ کرام(دورہ حدیث)

مفتی محمود دانش صاحب حفظہ اللہ،مولانا صالح محمد درویش صاحب حفظہ اللہ،مفتی عبد الرحمن صاحب حفظہ اللہ،مفتی عرفان اللہ صاحب حفظہ اللہ،مفتی عبید اللہ صاحب حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ ہذا)،مولانا فضل الباری صاحب حفظہ اللہ (مہتمم جامعہ ہذا)


اساتذہ کرام(تخصص فی الفقہ الاسلامی)

مفتی عبد الرحیم صاحب حفظہ اللہ،مفتی احسان اللہ صاحب حفظہ اللہ،مفتی محمود دانش صاحب حفظہ اللہ،مفتی عبید اللہ صاحب حفظہ اللہ(شیخ الحدیث و رئیس دارالافتاء جامعہ ھذا)


16 جون 2021 بروز بدھ کو جامعہ ہذا کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا فیض الباری صاحب رح کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے مولانا فضل الباری صاحب حفظہ اللہ کو انکا جانشین مقرر کیا گیا۔ حضرت مہتمم صاحب کے انتقال پرملال کی خبر سننے کے بعد ان کی یاد میں ایک مرثیہ لکھا ملاحظہ فرمائیں:۔


۔۔۔بیادمولانافیض الباریؒ۔۔۔

علومِ انبیا کا وہ روشن قمر گیا اہلِ نظر سے صاحبِ فکر و نظر گیا

سیلِ رواں تھا فیض تھا اس کے علوم کا جانے سے اس کے علم کا شیریں بحر گیا

تاعمر رب نے اس سے لی خدمات دین کی علماِ دیوبند کا حقیقی ِپسر گیا

رونق تھی جامعہ میں اس کے وجود سے ڈھونڈیں گی اب نگاہیں، یارب کدھر گیا

ہم پر وہ فیض الباری باری کا فیض تھا فیضانِ علم لوگوں کے سینوں میں بھر گیا

طلبہ ہیں سارے غمگیں غمگیں اساتذہ رحلت کا تیری سانحہ کر چشمِ تر گیا

پھلے ہوئے ہیں ہر جگہ تلمیذ سب تیرے فیضان عام کر کے لحد میں اتر گیا

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص پورے شہر کو ویران کر گیا

جنت میں کر عطا اے رب اپنا پڑوس تو اشؔعر دعا کے واسطے تیرے ہی گھر گیا

✍🏻: سیدمحمداشعربخاری


مختلف کورسس

درجہ ثالثہ کے سالانہ امتحان کے بعد شعبان المعظم میں  ختم نبوت خط کتابت کورس کے لیے 21 روزہ دورہ کیا پنجاب کے ضلع چنیوٹ چناب نگرمیں دریائے چناب کے نزدیک عالمی مرکز ختم نبوت میں  قیام کیا۔

دورہ حدیث کے سال یعنی 1443ھ میں بزم کلیانوی کے زیر اہتمام مولانا عدنان کلیانوی صاحب کے زیر سرپرستی فن خطابت کورس میں حصہ لیا اور خوب استفادہ کیا ۔

ان شاء اللہ آگے بھی دین کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں