شاہ عبد اللطیف بھٹائی

صوفی شاعر
(شاہ عبد الطیف بھٹائی سے رجوع مکرر)

شاہ عبد اللطیف بھٹائی (سندھی زبان، شاہ عبد اللطیف بھٹائی) برصغیر کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایا۔

شاہ عبد اللطیف بھٹائی
(سندھی میں: شاه عبد اللطيف ڀٽائي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1690ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہالا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1751ء (60–61 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بھٹ شاہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سندھی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں شاہ جو رسالو   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

شاھ عبد اللطیف بھٹائی کی ولادت 1689ء، 1101ھ میں موجودہ ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میں ہوئی۔ آپ کے والد سید حبیب شاہ ہالا حویلی میں رہتے تھے۔ اور موصوف کا شمار اس علاقے کی برگزیدہ ہستیوں میں تھا۔[3]

شاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبد اللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔

سید حبیب شاہ کی پہلی بیوی سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ درویش کی خواہش کے مطابق اس کا نام عبد اللطیف رکھا گیا۔ لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔ پھر اسی بیوی سے جب دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام پھر عبد اللطیف رکھا گیا۔ یہی لڑکا آگے چل کر درویش کی پیشین گوئی کے مطابق واقِعی یگانہ روزگار ہوا۔

شاہ عبد الطیف بھٹائی کو "ست سورمیون کا شاعر" بھی کہا جاتا ہے۔[4]

ابتدائی تعلیم

ترمیم

شاہ عبد اللطیف نے ابتدائی تعلیم نُورمحمد جٹ بھٹی سے حاصل کی اور بھٹ شاہ بارہ میل دور گاؤں وائی کے رہنے والے اور مشہور مُدرس تھے آپ نے اپنے والد شاہ حبیب سے دینی تعلیم حاصل کی - [5]

آبا و اجداد

ترمیم

شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے آبا و اجداد سادات کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب علی المرتضی اور رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہے۔ امیر تیمور کے زمانے میں ہرات کے ایک بزرگ سید میر علی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اور آپ کا شمار اس علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔ 1398ء، -801ھ میں جب امیر تیمور ہرات آیا، تو سید صاحب نے اس کی اس کے ساتھیوں کی بڑی خاطر و تواضع کی، ساتھ ہی بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کی۔ تیمور اس حسن سلوک سے متاثر ہوا۔ سید صاحب اور ان کے دو بیٹوں میر ابوبکر اور حیدرشاہ کو مصاحبین خاص میں شامل کر کے ہندوستان لے آیا۔ یہاں آنے کے بعد میر ابوبکر کو سندھ کے علاقے سیہون کا حاکم مقرر کیا۔ اور سید میر علی اور حیدر شاہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ بعد کو سید حیدر شاہ بھی اپنے والد بزرگوار اور تیمور کی اجازت سے گھومتے پھرتے مستقل طور پر سندھ میں آ گئے اور ہالا کے علاقے میں شاہ محمد زمیندار کے مہمان ہوئے۔ شاہ محمد نے آپ کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ وقتی راہ و رسم پر خلوص محبت میں بدل گئی۔ کچھ دنوں بعد اس نے اپنی لڑکی فاطمہ کی شادی آپ سے کردی۔ چونکہ آپ کی ماں کا نام بھی فاطمہ تھا، اس لیے شادی کے بعد اس نام کو سلطانہ سے بدل دیا گیا۔ سید حیدر شاہ قریب قریب تین سال تک ہالا میں رہے پھر اپنے والد کی وفات کی خبر سن کر ہرات گئے جہاں تین چار سال تک رہنے کے بعد وہیں وفات پا گئے۔ کہتے ہیں جب سید صاحب ہرات روانہ ہوئے تو آپ کی اہلیہ حاملہ تھیں انھوں نے چلتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری عدم موجودگی میں بچہ پیدا ہوا تو لڑکا ہونے کی صورت میں اس کا نام میر علی اور لڑکی ہو تو فاطمہ رکھا جائے۔ چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور وصیت کے مطابق اس کا نام میر علی رکھا گیا۔ میر علی کے خاندان میں بڑے بڑے صاحب کمال بزرگ پیدا ہوئے، ان بزرگوں میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے علاوہ، شاہ عبد الکریم بلڑی وارو، سیدہاشم اور سید جلال خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔[6]

حالات زندگی

ترمیم

شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی ولادت کے کچھ دنوں بعد ان کے والد اپنے آبائی گاؤں چھوڑ کر کوٹری میں آکر رہنے لگے۔ پانج چھ سال کی عمر میں آخوند نور محمد کی مشہور درسگاہ میں تحصیل علم کے لیے بھیجے گئے۔ عام روایت ہے کہ شاہ صاحب نے الف کی سوا کچھ اور پڑھنے سے صاف انکار کر دیا۔

جن دنوں شاہ حبیب کوٹری میں آ کر آباد ہوئے ان دنوں کوٹری میں مرزا مغل بیگ ارغون کا ایک معزز خاندان سکونت پزیر تھا۔ شاہ حبیب کی پاکبازی اور بزرگی نے مغل بیگ کو بہت متاثر کیا۔ کچھ دنوں بعد وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ مریدوں میں شامل ہو گئے۔ جب کبھی مرزا کے گھر میں کسی کو کوئی بیماری ہوتی شاہ حبیب کو دعائے صحت کے لیے بلایا جاتا۔ گو کہ مرزا کے گھر میں سخت قسم کا پردے کا رواج تھا لیکن شاہ حبیب کے لیے اس حکمِ خداوندی کو فراموش کردیا گیا۔ گھر کی مستورات بلا تکلف ان کے سامنے آجاتیں اور حسب ضرورت دعا تعویذ لے کر آنے والی بلاؤں کو ٹالتیں۔ آپ نے سندھی شاعری سے لوگوں کی اصلاح کی۔ شاہ جو رسالو آپ ہی کی ایک عظیم کوشش ہے۔

وفات

ترمیم

آپ 1752ء میں 63 سال کی عمر میں بھٹ شاہ میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ہر سال اس دن کے موقع پر شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی عرس تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

کلام

ترمیم

آپ کے کلام کو "شاہ جو رسالو" کا نام دیا گیا ہے

شاہ جو رسالو

ترمیم

شاہ جو رسالو کی مختلف چیپٹر (جنہیں سُر کہا جاتا ہے) ہیں۔[7]

  1. سر کلیان، اس سر میں رب تعالی‘ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے
  2. سر یمن کلیان، اس سر میں رب تعالی‘ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے
  3. سر کھنبھاٹ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  4. سر سریراگ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  5. سر سامونڈی، اس سر میں ملاحوں کی ہمت حوصلہ بیان کیا گیا ہے
  6. سر سھنی، اس سر میں سھنی میھار کا قصہ بیان کیا گیا ہے
  7. سر سسئی آبری، اس سر میں سسئی پُنوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے
  8. سر معذوری، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  9. سر دیسی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  10. سر کوهیاری، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  11. سر حسینی، اس سر میں حضرت حسین کا قصہ بیان کیا گیا ہے
  12. سر لیلا چنیسر، اس سر میں لیلا چنیسر کا قصہ بیان کیا گیا ہے
  13. سر مومل رانو، اس سر میں مومل رانو کا قصہ بیان کیا گیا ہے
  14. سر مارئی، اس سر میں عمر مارئی (ماروی) کا قصہ بیان کیا گیا ہے
  15. سر کاموڈ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  16. سر گھاتو، اس سر میں ملاحوں کی ہمت حوصلے کا قصہ بیان کیا گیا ہے
  17. سر سورٹھ، اس سر میں سورٹھ اور بادشاہ رائے ڈیاچ کا قصہ بیان کیا گیا ہے
  18. سر آسا، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  19. سر رپ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  20. سر کھاھوڑی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  21. سر بروو سندھی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  22. سر رامکلی، اس سر میں جوگی فقراء کا قصہ بیان کیا گیا ہے
  23. سر کاپائتی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  24. سر پورب، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  25. سر کارایل، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  26. سر پربھاتی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  27. سر ڈهر، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے
  28. سر بلاول، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118919288 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb10461371p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. "شاہ عبداللطیف بھٹائی، سندھ کے بے مثال شاعر" 
  4. الطیف-بھٹائ/ ست سورمیون کا شاعر؛ شاہ عبد الطیف بھٹائی - Laaltain[مردہ ربط]
  5. Roznama Dunya: اسپیشل فیچرز :- سائیں شاہ لطیف بھٹائی
  6. "شاعر محبت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ Pioneers of Islamic Beliefs And Protection. Islamic Magazine Tahaffuz Karachi, Pakistan"۔ 06 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2016 
  7. "WICHAAR DOT COM***** Punjabi News and Comprehensive Punjabi Journal*****"۔ 17 مارچ 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2016 

سانچہ:ضلع حیدرآباد