شجرہ نسب چاکرانی رندبلوچ

بلوچ کا شجرہ صرف بلوچ قبائل کے بزرگوں کے ہاں یہاں تک ہے کہ بلوچ حضرت امیر حمزہ کے بیٹے میر عمارہ کی اولاد ہے جو حضوراکرم دوجہاں کے چچ بھی ہیں اور بلوچ حلب سے آے ہیں ؟ کچھ بلوچ اپنے شجرہ میں میر عمارہ کو حضرت امیر حمزہ کا بیٹا اور کچھ لوگ ان کا باپ لکھتے ہیں۔ جبکہ اسلامی تاریخ میں واضح لکھا ہے کہ حضرت امیر حمزہ حضرت عبد المطلب کے بیٹے قریش کے سردار اور میر عمارہ کے والد ہیں۔ کیونکہ حضرت امیر حمزہ کی کنیت ابو عمارہ ہے۔ یہ بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ عرب کے شہزادوں میں سب سے امیر ترین شہزادہ میر عمارہ تھا۔ اور تاریخ میں یہ بھی واضح ہے کہ میر عمارہ کی والدہ ام عمارہ نوشیروان عادل بادشاہ کی بیٹی اور اس وقت کی ماہر طبیبہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت امیر حمزہ میرعمارہ کے بیٹے ہیں جو آقاء دوجہان کے دورنبوت سے قبل ہی دنیافانی سے کوچ کرگے۔۔یہ تحریر شجرہ نسب اقوام بلوچ خود سرداررندان لکھااور اپنی اولاد کے ہاتھ دیا ابھی تک محفوظ ہے چاکرانی قوم کے سربراہ کے پاس۔! بلوچ قوم یا حضرت امیرحمزہ کے پڑدادا کے والد سے شروع کرتے ہیں۔ حضرت امیر حمزہ کے پڑدادا کے والد کا نام علمش رومی تھا جو اس وقت کے ایک ا میر شاہ عباس کو ایک بیتاتھا جس کانام ہارون تھا اور ہارون کوچار بیٹے تھے ایک بچپن میں فوت ہو گیاتھاباقی تین کانام درج دیل ہیں۔ 1۔میرعالٰی 2۔میرجلال خان 3۔نوزخان میرجلال خان کوپانچ بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں! 1۔میرجاتن خان 2۔میررند 3ٰ۔میرکورایٰ 4۔میرلاشار 5میر ہوتا۔

میر جاتن خان کو اکثر میر جلال خان کا بھائی تصور کرتے ہیں مگر میر جاتن خان اس کا بڑا بیٹا تھا۔ میررندکے پانچ بیٹے اورمیرلاشار کے چاربیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں۔ میر رند کے بیٹوں کا نام۔ 1۔میرمحمد خان 2۔میرعبداللہ خان 3۔میرعلی 4۔میرعالٰی 5۔میرعباس تھے اور میرلاشارکے بیٹوں کے نام یہ ہیں 1۔میراسمعیل خان 2۔میرمھیم خان 3۔میراسحاق 4۔میرسلیمان تھے میررند کے بیٹے میر محمد خان کے تین بیٹے تھے اور میر لاشار کے بیٹے میر اسمعیل خان کے بھی تین بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں۔ میررند کے بیٹے میر محمد خان کے بیٹوں کے نام۔ 1۔ میر شہداد خان 2۔میرشیہک خان 3۔میرچاکر یالقب میرچاکراعظم تھے اور میر لاشار کے بیٹے میراسمعیل خان کے بیٹوں کے نام۔ 1۔میر عبد اللہ خان 2۔میرگوہرام خان 3۔میررامن خان تھے

میر جاتن خان کے دو بیٹے تھے بڑے بیٹے کا نام میر بجار خان اور چھوٹے بیٹے کا نام میر زنگے خان تھا۔ بلوچ قبائل اپنے شجرہ کی لڑی میر جاتن خان کے ساتھ ملا کر اپنے شجرہ کی تصدیق کرتے ہیں۔ رند اور لاشار قبائل میں تیس سالہ جنگ نے جہاں بلوچ قبائل کو منتشر کر دیا وہاں میر بجار خان نے نا صرف اس نا ختم ہونے والی جنگ کا خاتمہ کیا بلکہ تمام بلوچ قبائل نے سردار اعلیٰ کے طور پر تسلیم کیا۔ اور کچھ عرصہ بعد جب بلوچ قبائل منتشر ہو گئے تو ہر قبیلہ کا اپنا ایک سردار مقرر کر دیا گیا۔ لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے جو کئی صدیوں سے چلی آرہی ہے کہ تمام بلوچ قبائل اپنی خوشی کا طرہ اور اپنے غم میں پگ میر بجار خان سے بندھوایا کرتے تھے۔ دشمن کے حملے یا جنگ کی صورت میں جتوئی قبیلہ تمام بلوچ قبائل کا دفاع کرتا تھا۔بلوچ قبیلے کے چالیس ہزار جنگجو تھے جن میں پچیس ہزار جنگجو صرف جتوئی قبیلے کے تھے۔جتوئی قبیلے کی طرف سے بلوچ قبائل کے دفاع کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بلوچ مری قبیلہ اور بجارانی قبیلہ بھی میر بجار خان کی اولاد سے ہیں اس مناسبت سے سردار قبیلے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ۔ میر بجار خان کے چار بیٹے تھے بڑا بیٹا میر نوتک خان جو میر چاکر خان کا داماد تھا اس کو ریاست ملتان کا علاقہ نخلستان کا سردار بنا دیا اور ہندوستان کی تجارت کی عظیم بندرگاہ اس کے حوالے کر دی۔ دوسرا بیٹا میر عفان شاہ بیگ المعروف میر شائق خان کو بلوچستان تیسرے بیٹے میر شاہ بہلک خان کو ساہی وال اور چھوٹے بیٹے میر نوحٰق خان کو سندھ کا سردار مقرر کر دیا۔ جتوئی قبیلے کی اصل سرداری میر نوتک خان کے بڑے بیٹے میر لوہار خان کی اولاد میں ہے جو لوہارات کی لڑی سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ اور تمام بلوچ قبائل جتوئی لوہارات کو اپنا اعزازی سردار مانتے ہیں۔ میر بجار خان فاتح ہندوستان کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں انھوں نے 1555 میں ہندوستان فتح کر کے ہمایوں کو دوبارہ تخت نشین کرایا۔اور ریاست سیت پور رام پور فتح پور پر قبضہ کر کے اپنے قبائل آباد کیے۔ 1556 کو میر بجار خان نے ہیبت خان نیازی سے ملتان کی سلطنت بھی چھین لی اور شیر شاہ کے مقام پر اپنا مسکن بنایا۔ جس سے تمام آبی گذرگاہوں کا نظام چلاتے تھے۔ ہندوستان کے کئی شہروں میں کثیر جائداد اس کی ملکیت ہے۔

جتوئی سردار لوہارات کا شجرہ نسب۔

حضرت امیر حمزہ سے میر عمارہ سے میر احمد سے میر بلوص سے میر دوست سے میر شاہ عباس سے میر ہارون خان سے میر جلال خان سے میر جاتن خان سے میر ابراہیم خان سے میر بجار خان سے میر نوتک خان سے میر لوہار خان سے میر جہان خان سے میر بہار خان سے میر سید خان سے میر بلوچ خان سے میر ہیبت خان سے میر مزار خان سے بڑا بیٹا میر رحیم خان اور چھوٹا بیٹا میر بلوچ خان (لاولد) میر رحیم خان سے میر مزار خان سے میر عبداللّٰہ خان لوہارات۔ کسی بھی بلوچ قبیلے کا شجرہ اگر جتوئی لوہارات سے آ ملے تو وہ جتوئی قبیلہ کہلائے گا اور ان کا سردار اعلیٰ لوہارات خاندان کا موجودہ سردار ہو گا۔

میر چاکر رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جوانمردی، جوش و جذبہ، گفتار و کردار، ایثار م قربانی، ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں" میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران میں اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ قلات پر حملے کے دوران میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ہو سکی میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوش حالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہے اور آج بھی میر چاکر کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں بقول میر چاکر "مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے" اور میرچاکر اپنے قول کا دھنی تھا اپنے قول کے مطابق ایک مالدار عورت "گوھر" کو امان دی اور اس کی حفاظت کف لیے جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں لاشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور لاشاریوں کو خاک و خون میں نہلا گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے علاوہ میرھان، ھمل، جاڑو، چناور، ھلیر، سپر، جیند، بیبگر، پیرو شاہ اور دیگر سینکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے خاص کر اگر وہ رند بلوچ ھو بقول چاکر خان رند کے "سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے" بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو ان کے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اور رندوں کی ایک کہاوت ہے کہ"مرے ہوئے رند کو کوئی راستہ نہیں ملتا دونوں طرف سے ان کی زندگی اسیر ہے" بلوچ لوگ بالخصوص رند بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کا نعمت سمجھتے ہیں سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش کا مختلف روایات ہیں ان میں سب سے زیادہ معتبر 1486ء اور قلات کو 1486ءفتح کیا کہ در آن وقت سردار چاکر کی عمر صرف 16 سال تھی اور سال 1488ء میں سبھی پر قبضہ کیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489ءمیں شروع ھوا جو 1519ءمیں اختتام پزیر ہوا 1520ء میں میر چاکر ملتان کی طرف روانہ ہوئے اور 1523ء میں مستقل طور پر ستگھڑہ میں قیام کیا اور 1555ءمیں میر بجار خان جتوئی کی سرپرستی میں ہمایوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر دہلی فتح کیا اس کے بعد سیت پور کی ریاست بھی فتح کی۔اور 1565ءمیں یہ عظیم قائد اس دنیاے فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ستگھڑ میں دفن ہوئے۔بعد از میر چاکر کے بڑے بیٹے میر محمد خان پر بادشاہت کا تاج سجامیر محمد خان بھی دنیاے فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جا ملے اس کے بعد جونیر میر چاکر پر یہ تاج سجا جو زیادہ عرصہ قائم نہ راہ سکاانکے چچازاد بھایوں نے جعلسازی سے میر چاکر کا تاج اپنے سر لے گے اور میر چاکر کو قتل کر دیاچاکرانی اصل میر چاکراعظم کی اولاد میں سے ہے ویسے تو چوالیس قبیلے میرچاکر اعظم کے ساتھ بلوچ قبیلے کے تھے کہا جاتا ہے کہ میرجلال خان کے بعد سرداررندان خان کا لکھ ہوا شجرہ آج بھی میر چاکر کے اولاد چاکرانی مین سے کسی کے پاس ہے جو میر محمد خان کے کی اولاد میں سے ہے۔ ویسے تو چاکرانی الگ الگ قبیلون میں بٹے ہوئے ہیں پر چاکرانی ایک ہی قوم ہے۔ میرچاکر کے اس علاقے میں تین قلعے تھے۔ پہلا سوران، دوسرا بھاگ کے قریب گدڑ کے مقام پر اور تیسرا سبی قلعہ جو میر چاکر قلعہ کہلاتا ہے سوران اور بھاگ دونوں قلعے زلزلوں میں منہدم ہو کر کھنڈر کی شکل اختیار کر چکے۔ جب کہ سبی قلعہ اب بھی موجود ہے، مگر منہدم ہونے کے قریب ہے۔ قلعہ میر چاکر بلوچستان کے تاج میں نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے

قلعے کے آثار ترمیم

جنوب کی طرف مرکزی دروازے کے آثار موجود ہیں جو بارہ فٹ چوڑا ہے۔ اس کے اوپر دو بڑے برجوں کے نشان ہیں جن میں تیر انداز فروکش ہوتے تھے۔ پہلے برج پر چڑھنے کے لیے قریب ہی سیڑھیاں ہیں۔ وہ ایک دریچے پر ختم ہوتی ہیں۔ اس دریچے سے ملحق ایک گودام میں اناج ڈالا جاتا تھا۔ اس قلعے کی ہر چیز شاندار ہے لیکن اناج کے دو گودام لائق توصیف ہیں۔ پہلے گودام کی لمبائی 80 فٹ اور دوسرے کی 70 فٹ ہے، جبکہ ان کی کشادگی 30 فٹ تھی۔ یہ پختہ اینٹوں سے بنائے گئے۔ نچلے حصے میں ایک دروازہ ہوتا تھا جہاں سے بوقت ضرورت اناج نکالا جاتا۔ اس کے قریب ایک اور ویسا ہی برج ہے جس کے دائیں طرف چند سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔ اس حصے میں نہایت موٹی فصیل واقع ہے۔ یہاں کچھ بوسیدہ کمرے مورچوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ دراصل فوجیوں کی رہائش گاہیں تھیں۔ وہیں سے قلعے کی حفاظت ہوتی‘ حملہ آور لشکر کی نگرانی اور بوقت ضرورت دشمن کے لشکر پر تیراندازی کی جاتی تھی۔ نیچے نظر دوڑائیں تو سبی کے خوبصورت شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ قلعے کے وسیع آنگن میں ایک خوبصورت باغ تھا‘ اب وہ بھی اجڑ چکا۔ وہاں خود رو جھاڑیاں، ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کے ڈھیر‘ چاروں طرف پھیلی بلند و بالا فصیل اور اس کے ہیبت ناک برج عالم گریہ میں ہیں۔ قلعے کے دوسرے کونے پر بھی ویسا ہی برج واقع ہے۔ اس کے ساتھ کمروں کے آثار ہیں۔ ان کمروں کی دیواریں خوب چوڑی اور دروازے نہایت ہی مضبوط ہیں۔ کمروں کی چھتیں ڈھل چکیں۔ کمروں کی یہ قطار قلعے کے تیسرے کونے تک چلی گئی ہے۔ کی نجی رہائش گاہ قلعے کی مغربی فصیل کے اندرونی جانب چاکر کی نجی رہائش گاہ واقع تھی۔ اس کی حفاظت کے لیے دو چھوٹی چوکیاں بنائی گئی تھیں۔ نزدیک ایک تہ خانے کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ تہ خانے سے زیر زمین ایک راستہ شمالی چوکی کو جاتا تھا۔ ایک پرانی مسجد کے آثار بھی ہیں جو شہید ہو چکی۔ مسجد کے ساتھ کئی حجروں کے کھنڈر نظر آتے ہیں۔ فصیل کے آخری کونے میں منہدم دیواریں ایک وسیع اصطبل کی ہیں، جہاں اعلیٰ نسل کے اسپ تازی رکھے جاتے تھے۔ فصیل کے ساتھ ساتھ آگے جائیں تو آخری برج پر پہنچ جائیں گے۔ یہ برج دوسرے برجوں کے مقابلے میں قدرے چھوٹا ہے۔ ساتھ ہی سیڑھیاں ہیں۔ ان پر چڑھیں تو فصیل پہ پہنچ جائیں گے۔ فصیل کے ساتھ کئی کمرے نظر آئیں گے۔ بارش اور طوفانوں کی وجہ سے اب یہ اپنی اصل شکل و صورت کھو چکے۔ آپ قلعہ کی فصیل پر چڑھتے جائیں تو دروازے پر پہنچ جائیں گے۔ قلعے کے درمیان میں چند سیدھی دیواریں منہدم حالت میں ملتی ہیں۔ ہو سکتا ہے اُس زمانے میں ان پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہو۔ قلعے کے تینوں جانب فصیل کے نشانات موجود ہیں۔ قدیم زمانے میں فصیل یا دیواریں دفاع کے مقبول ترین انداز تھے۔ قلعہ کی بیرونی فصیل قریباً کئی ایکڑوں پر محیط ہے۔ یہ پرانی چونگی تک چلی گئی ہے۔ یہ چونگی میرچاکر کی بیرونی آمدروفت اور ناکہ (وصولی) کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اس فصیل کے آثار چاکر روڈ کے ساتھ ساتھ تقریباً آدھے کلومیٹر تک اب بھی موجود ہیں۔ یہ فصیل 8 سے 10 فٹ چوڑی ہے۔

چھوٹا شہر ترمیم

قلعے کے سامنے چھوٹے سے شہر کے بھی آثار نمایاں ہیں۔ وہاں دوران میں موسم گرما دور دراز علاقوں سے کثیر تعداد میں قبائل کی آمد کی وجہ سے قلعہ کے باہر میدان میں خیموں کا شہر آباد ہو جاتا تھا۔ لوگوں کی مختلف ضروریات پوری کرنے کے واسطے منڈی میں خوجوں کی بڑی بڑی دکانیں کھل جاتی جن میں ہرات کا مخمل اور عطر، تبریز کے عجائبات، دمشق و قاہر ہ کے اسلحے موجود ہوتے۔ ان دکانداروں نے سبی کے قریہ قریہ میں اپنے کارندے متعین کر رکھے تھے۔ وہ سرداروں اور معززین کی مانگ پر سبی آ کر انھیں چیزیں فراہم کرتے۔ اسی میدان کے ایک حصے میں اعلیٰ نسل کے مویشیوں کی وسیع منڈی لگتی۔ دوسرے حصے میں اہم ترین میلے سبی میلہکا ہر سال انعقاد ہوتاہے۔

تعمیر کنندہ میر چاکر نامی یہ قلعہ صوبہ بلوچستان کے شہر سبی کے مضافات میں واقع ہے- اس قلعے کی تاریخ 15ویں صدی سے جا ملتی ہے- یہ قلعہ اونٹوں کے قافلوں کے لیے روایتی رہائش گاہ کے طور پر بھی اپنی خدمات سر انجام دیتا رہا ہے- یہ قلعہ قبائلی میرچاکراعظم نے تعمیر کروایا تھا- میر چاکر کا قول"بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں"