شمال مشرقی دہلی کے فسادات
24 فروری 2020 کو شمال مشرقی دہلی میں فسادات اور پرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں 53 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔[9][10] جبکہ 200 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں[6] اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک راہنما کپل مشرا کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور تشدد پر ابھارنے سے متعلق تین شکایات درج کرائی گئی ہیں۔
شمال مشرقی دہلی فسادات | |||
---|---|---|---|
(اوپر کی تصویر) شیو وہار کے علاقے میں فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھروں اور کاروباری اداروں کو نذر آتش کر دیا گیا.[ا] ( جب کی نیچے والی تصویر) حکومت دہلی اور مسلم وقف بورڈ کی جانب سے دہلی کے علاقے مصطفی آباد میں ایک امدادی کیمپ. تقریبا 1500 بستر کا انتظام کیا گیا۔ جس میں 800 خواتین لیے اور 700 مردوں کے لیے.[ب] | |||
تاریخ | 24 فروری 2020 – 1 مارچ 2020 (7 دن)[3] | ||
مقام | |||
وجہ | نفرت انگیز کلام[4]،شہریت ترمیمی بل 2019ء | ||
مقاصد | شہریت (ترمیم) بل کے خلاف مظاہرے روکنا | ||
طریقہ کار | ہنگامہ، منظم قتل عام، آتش زنی، لوٹ مار، قتل، گولی بازی | ||
مرکزی رہنما | |||
| |||
متاثرین | |||
اموات | 53[7] | ||
زخمی | 200+[6] | ||
گرفتار | 2200 (حراست سمیت)[8] |
پس منظر
ترمیمشہریت کے نئے قانون کی منظوری کے خلاف بھارت میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا آغاز اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں شہریت کے ترمیمی قانون کی منظوری سے ہوا[11][12][13][14] مظاہرین محض اس قانون ہی نہیں بلکہ وہ قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف بھی احتجاج کر رہے ہیں۔[15] 22 اور 23 فروری 2020 کی درمیانی رات کو 500 سے 1000 خواتین شمال مشرقی دہلی میں سیلم پور–جعفر آباد روڈ کے علاقے میں دھرنے کے لیے جمع ہوئیں اور مظاہرین نے سیلم پور میٹرو اسٹیشن میں آمد و رفت کے راستے بند کر دیے۔[16][17] بقول مظاہرین، ان کا مظاہرہ بھارت بندھ کی حمایت میں اور بھیم آرمی کے کہنے پر ہوا تھا۔ اس کا آغاز 23 فروری کو ہونا تھا۔ پولیس اور نیم فوجی دستے یہاں متعین کر دیے گئے۔[18]
کپِل مشرا کی دھمکیاں
ترمیم23 فروری 2020ء کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنما اور سابق ایم ایل اے کپل مشرا نے شہریت کے ترمیمی قانون کے مخالفین کو دھمکیاں دیں۔ اس کی تقریر کے دوران میں شمال مشرقی دہلی کی پولیس کا سپرنٹنڈنٹ وید پرکاش سوریا بھی موجود تھا۔ مشرا نے پولیس کو بھی دھمکی دی کہ اگر مظاہرین تین دن کے اندر اندر یہاں سے نہیں گئے تو اس کے اپنے دستے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔[19][20]
کپِل مشرا کے خلاف تشدد پر اکسانے کی تین شکایتیں (دو پولیس میں اور ایک بھارتی عدالت عظمی میں) درج ہوئی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے کارپوریٹر ریشما ندیم نے پہلی جبکہ حسیب الحسن نے دوسری شکایت درج کرائی۔ ان شکایتوں میں بتایا گیا کہ کپل مشرا نے نفرت انگیز اور تشدد پر اکسانے والی تقریریں کی ہیں۔ تاہم 25 فروری تک مشرا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔[21] بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد راون، سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ اور سید بہادر عباس نقوی نے بھارت کی عدالتِ عظمیٰ میں درخواست پیش کی کہ وہ پولیس کو 23 فروری کی رات کو ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔ اس درخواست میں مشرا پر ان ہنگاموں کی منصوبہ بندی اور ترغیب دینے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔[22] ان تمام شکایتوں کے باوجود 25 فروری تک مشرا کو نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ اس کے خلاف پولیس نے کوئی کارروائی کی۔[23]
فسادات کا خط زمانی
ترمیم24 فروری
ترمیم24 فروری کو جعفر آباد اور موج پور میں ہنگامے ہوئے جس میں ایک ہیڈ کانسٹیبل رتن لال کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا اور مظاہرین میں سے بھی ایک فرد کی جان گئی۔سی اے اے کے حامی مظاہرین اور مخالفین نے ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا اور ہاتھا پائی بھی کی۔ ہنگاموں کے دوران میں گھروں، گاڑیوں اور دکانوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ پولیس کی نفری نے چاند باغ کے علاقے میں مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج بھی کیا۔[24][25][26] سیلم پور، جعفر آباد، موج پور، کردم پوری، بابر پور، گوکل پور اور شیو پوری سے بھی پرتشدد کارروائیوں کی اطلاعات ہیں۔[27][28] تمام متاثرہ علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے مگر فسادی اس کے بعد بھی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث پائے گئے۔[29][30][31]
حکومتی ردِ عمل
ترمیموزارتِ داخلہ نے ان مظاہرین کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے سے منسلک کیا۔[32] وزارت نے ان پر قابو پانے کے لیے فوج بلانے سے بھی انکار کیا اور کہا کہ مرکزی افواج اور پولیس کی خاصی تعداد موجود ہے۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں کے 6٫000 سے زیادہ جوان علاقے میں تعینات ہیں۔[24]
25 فروری
ترمیم25 فروری کو اشوک نگر میں ایک مسجد کو نقصان پہنچایا گیا اور مسجد کے ایک مینار پر ہنومان کا علم لگا دیا گیا۔ ہجوم نے آگ لگی ہوئی مسجد کے گرد جمع ہو کر ‘جے شری رام‘ اور ‘ہندوؤں کا ہندوستان‘ کے نعرے بھی لگائے۔ مسجد کے قریب والی دکانیں لوٹ لی گئیں۔ مقامی افراد کے مطابق فسادی مقامی نہیں بلکہ باہر سے آئے تھے۔[33] زخمیوں میں 70 سے زیادہ افراد کو گولی لگی۔ شمال مشرقی دہلی کے علاقے بھجن پور، چاند باغ اور کراوال نگر میں لٹھ بردار اور سریوں سے لیس افراد گھوم رہے تھے۔[24]
صحافیوں پر حملے
ترمیمفسادات کے دوران میں صحافیوں پر ہجوم کی طرف سے کئی حملے کیے گئے۔ جے کے 24x7 نیوز کے ایک صحافی کو 25 فروری کو گولی مار دی گئی جو اس وقت موج پور علاقے میں کام کر رہا تھا۔[34] این ڈی ٹی وی کے دو صحافیوں اور کیمرا مین پر بھی ہجوم نے حملہ کیا کہ وہ علاقے کی مسجد کو نذرِ آتش کرنے کا منظر ریکارڈ کر رہے تھے۔ ایک اور صحافی کو مختلف چوٹیں پہنچیں۔ اس ٹیم کے ساتھ موجود ایک خاتون صحافی نے مداخلت کی اور بتایا کہ یہ سب ہندو صحافی ہیں تو ان کی جان بچی۔[35]
25 فروری کو دی ٹائمز آف انڈیا کے تصویری صحافی پر شیو سینا کے کارندوں نے اس وقت ہلہ بولا جب وہ ایک جلتی ہوئی عمارت کی تصویر بنا رہا تھا۔ ہجوم نے اس کے ماتھے پر تلک لگانے کی کوشش کی اور بتایا کہ اس طرح اس کا کام آسان ہو جائے گا کہ مظاہرین کو علم ہوگا کہ وہ ہندو ہے۔ جلتی ہوئی عمارت کی تصاویر کھینچنے کے مقصد پر بھی انھوں نے سوالات اٹھائے اور کہا کہ وہ اس کی پتلون اتار کر دیکھیں گے کہ اس کا ختنہ ہوا ہے یا نہیں (ہندو مت میں ختنہ نہیں کیا جاتا)۔[34] اس صحافی سے بعد میں اور بھی کئی مظاہرین نے اپنا مذہب ثابت کرنے کا مطالبہ کیا۔[34]
بہت سے صحافیوں نے اپنے تجربات کو سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئیٹر پر پیش کیا۔ ٹائمز ناؤ کے ایک صحافی نے ٹوئیٹ کی کہ اس پر سی اے اے اور دائیں بازو کے حامیوں نے حملہ کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ مظاہرین کی منت سماجت کر کے وہاں سے نکلی کیونکہ ان کے پاس لاٹھیاں اور پتھر تھے۔[34]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Furquan Ameen (2020-02-28)۔ "Shiv Vihar: Home for 15 years, but not any more"۔ دی ٹیلی گراف (بھارت)۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مارچ 2020
- ↑ Pheroze L. Vincent (4 March 2020)، "After riots, volunteers offer healing touch at Delhi relief camp"، The Telegraph (Kolkata)، New Delhi، اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2020
- ↑ https://www.hindustantimes.com/india-news/reports-of-tensions-in-southeast-and-west-delhi-are-rumours-says-delhi-police/story-3JLMvK8N6DJHcOjyPvb8uM.html
- ↑ "Delhi violence: Four video clips that court made cops watch"۔ India Today۔ 26 February 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2020
- ↑ "Action must against provocative speeches: Gautam Gambhir on Kapil Mishra inciting violence in Delhi"۔ India Today (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ^ ا ب "It's Official: Police Says 53 Dead, 200+ Injured, 2200 Arrests in Delhi Riots"۔ The Wire۔ 8 March 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 مارچ 2020
- ^ ا ب پ ت Seemi Pasha (12 March 2020)۔ "Ground Report: As Amit Shah Praises Delhi Police, Riot Victims Tell a Different Story"۔ The Wire (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2020
- ↑ "Delhi riots: 690 cases registered, violence victims find shelter in relief camps"۔ India Today۔ March 7, 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 مارچ 2020
- ↑ "Top Cabinet Security Meeting As 20 Killed In Delhi Clashes: 10 Points"۔ NDTV.com۔ 26 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2020
- ↑ "Northeast Delhi Clashes: Paramilitary out in riot-hit northeast Delhi as toll rises to 13"۔ Times of India۔ 26 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2020
- ↑ "Ten killed in Delhi violence during Trump visit"۔ BBC News۔ 25 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "Shaheen Bagh: The women occupying Delhi street against citizenship law – 'I don't want to die proving I am Indian'"۔ BBC۔ 4 جنوری 2020۔ 8 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020
- ↑ Asmita Bakshi (2 جنوری 2020)۔ "Portraits of resilience: the new year in Shaheen Bagh"۔ Livemint (بزبان انگریزی)۔ 13 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020
- ↑ "Shaheen Bagh residents brave the cold as anti-CAA stir enters Day 15"۔ The Hindu۔ 29 دسمبر 2019۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020
- ↑ "Not bothered who wins Delhi elections, say Shaheen Bagh protesters"۔ The Economic Times۔ 4 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 فروری 2020
- ↑ "Jaffrabad anti-CAA protests: Over 500 women block road connecting Seelampur with Maujpur and Yamuna Vihar; Delhi Metro shuts station"۔ The First Post۔ 23 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "Began with roses, ended with bullets: How CAA protests in Delhi unfolded"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 25 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "Anti-CAA Protesters Block Seelampur-Jaffrabad Road, Cops Deployed"۔ The Quint۔ 23 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "Two complaints filed against BJP leader Kapil Mishra for inciting violence in North-East Delhi"۔ DNA India (بزبان انگریزی)۔ 25 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "Kapil Mishra warns cops: Clear road in 3 days.۔۔ after that we won't listen to you'"۔ The Hindustan Times۔ 24 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "Jaffrabad anti-CAA protests: Over 500 women block road connecting Seelampur with Maujpur and Yamuna Vihar; Delhi Metro shuts station"۔ The First Post۔ 23 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "In plea to Supreme Court, Bhim Army chief Chandrashekhar Azad blames BJP's Kapil Mishra for Delhi clashes"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 25 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑
- ^ ا ب پ
- ↑ "Head constable killed during clashes over CAA in northeast Delhi: Police"۔ The Economic Times۔ 24 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 فروری 2020
- ↑ "Cop Killed In Delhi Clashes Over CAA, Trump Due At 7:30 pm: 10 Points"۔ NDTV.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 فروری 2020
- ↑ "Delhi Violence Over CAA Protest LIVE Updates: Police uses tear gas to disperse crowds in Chandbagh as fresh violence erupts; Kapil Mishra's speech to be probed"۔ Firstpost
- ↑ "Delhi violence: Capital remains on edge as 5 die in fresh clashes during Trump visit"۔ India Today۔ 25 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "CAA clash: Section 144 imposed in parts of North-East Delhi, Cops appeal for peace"۔ Economic Times۔ 25 فروری 2020
- ↑ "Northeast Delhi Violence: Fresh Stone Pelting In Maujpur & Brahmpuri; Arson In Karawal Nagar"۔ ABP News۔ 25 فروری 2020۔ 26 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "LIVE: Death toll rises to 11, High Court asks CBSE board to consider rescheduling exam for centres in northeast Delhi"۔ ThePrint۔ 25 فروری 2020۔ 26 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Anti CAA protests in Delhi: Entire violence appears to be orchestrated, says MHA"۔ The Times of India۔ 24 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "Delhi Riots: Mosque Set on Fire in Ashok Nagar, Hanuman Flag Placed on Minaret"۔ The Wire۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ^ ا ب پ ت "One journalist shot at, two other reporters attacked by mob in Delhi riots"۔ The News Minute۔ 25 جنوری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020
- ↑ "NDTV's Saurabh Shukla Shares How A Delhi Mob Attacked NDTV Crew"۔ The NDTV۔ 25 فروری 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020