حافظ لطیف فقیر عظیم محمد چھٹہ 
          * تعارف نامہ*

لیجئے "حافظ لطیف حاضر ہے جسکا مجھ پر قرض تھا پہلی فرصت اور ابتداء میں اتار رہا ہوں۔چنانچہ فقیر صاحب کے عشق لطیف کی آویزیش کے واقعات گذشتہ کئی سالوں تک میری تحقیق وتدقیق کا مرکز بنے رہے مگر فقیر کی داستان حیات لکھنے کا فیصلہ نہ کر سکا اور چپکے چپکے اپنے ضمیر کی شکایات سنتا رہا۔فقیر صاحب سے میری عقیدت اپنے قبلہ من سے کم نہ تھی ۔لیکن میرے تذبذب کی صرف یہ وجہ تھی کہ اتنی قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے پشیمان تھا۔دوسرا یہ کہ زمین کی وہ سطح جس پر فقیر شاہ صاحب کے عشق کا گھوڑا دوڑا چکا تھا مجھے اپنے تخیئل کے ہر آسمان سے بلند نظر آتی تھی ۔احباب مجھ سے عزم وہمت کے اس دریائے ناپیدا کنارے کی تصویر کھیچنے کا مطالبہ کررہے تھے۔میری بھی مثال اس مصور سے مختلف نہیں تھی جس نے اپنے تخیئل کے صحرا میں ان کے عشق کا گیت گانے والی ندیاں تک نہ دیکھی ہوں۔۔۔۔۔۔۔بہرحال آج میں نے یہ کام شروع کیا اور آج ان احباب کی خواہشات پوری کررہا ہوں جہنوں نے اس تصویر کے لئے میرا قلم منتخب کیا۔اگر اس تصویر میں کوئی خوبی نظر آئے تو ازبر خدا تم اسے فقیر صاحب عقیدت کے پھل کا کرشمہ سمجھئے جن کے ذوق نظر کی تسکین کا خیال مجھے اس تصویر کے لئے بہترین رنگ استعمال کرنے کی ترغیب دیتا رہا۔فقیر کی یہ داستان میرے اس جنون کی زندہ تصویر اور اس خواب کی پائندہ تعبیر ہے جو مجھے ہر لحظہ بے چین رکھتا تھا اور جسے ابتداء میں دیوانے کا خواب تصور کیا جاتا تھا۔لیکن فقیر کی داستان کے درد واحساس اور اپنے بزرگوں ودوستوں کی غیرت وحمیت نے عزم وعمل کی قوت اور ایثار وخلوص کے ولولہ سے اس خواب کو ایک تابندہ حقیقت بناکر دیا اور اپنی عالی ہمتی وبلند ظرفی سے میرے پھیلے ہوئے دامن کی اس زمانے میں لاج رکھ لی ۔جو آپ کی عالی ہمت وبلند ظرفی میرے لئے کامرانیاں بہم پہچانے کا باعث ہوئی ہے۔آج فقیر کی داستان صفحہ قرطاس کے غیر فانی نقوس بن چکے ۔چنانچہ جب میں نے ہوش سنبھالہ تو یہی حالت رہی کہ وہ عظیم ہستی اپنے خالق حقیقی سے واصل بحق ہوچکی تھی اس کا مطلب یہ نہیں یہ نہ تھا کہ خلوص ودیانت سے نیکی کے کام کرنے کا وقت ہی ختم ہوچکا تھا یہ مہلت ہمیشہ باقی ہے اور اس وقت تک باقی رہے گی۔جب تک عالم ہستی کتم عدم کے پردے میں روپوش نہیں ہوجاتا۔نصرت خداوندی ہمیشہ توفیق عمل کو دیکھتی ہے اور نیتوں کے حال جاننے والا اور مطلق ان کوششوں کو شرف قبولیت سے کبھی محروم نہیں رکھتا جن کی بنیاد خلوص ودیانت پر رکھی گئی ہو۔چونکہ فقیر کی داستان حیات میرے لئے سوہان روح بنی تھی۔مگر میں نے عہد کرلی اور دلی درد وسوز کے ساتھ اللہ کو اس مقصد عظمیٰ کی توفیق کے لئے پکارا میری یہ آواز ایک کار خیر کے سچے جذبے کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے نکلی تھی جو حسن قبول سے ہمکنار ہوئی۔اس مقصد عظمیٰ کو لکھنے میں میرا دامن گذشتہ چند ماہ سے ایک ایک لحظہ دراز رہا اور یہ میری عمر کا بہترین حصہ اس مقصد عظمیٰ کے لئے جسے قدرت کاملہ نے ازل ہی سے میری خطا کار زندگی کا نصب العین بنا رکھا ہر وقت التجائے مجسم بنا رہا۔لیکن جب میں نے احساس جذبہ وایثار وخلوص کی طرف سے اپنے عجزو بے بضاعتی کی جھولی پھیلائی تھی اور ارباب خیرو برکت نے میری صدائے درد کو سن کر اپنی اپنی جودوسخا کے ابر نیساں سے امداد واعانت کے اس قدر موتی برسائے اتنے گہرے لٹائے کہ میری ارمانوں کی کشت ویراں میرے عزائم کی خشک زمین سر سبز وشادابی سے لہلہا اٹھی۔میری اس پکار پر دوستوں بزرگوں نے پوری دریا دلی سے اس پر لبیک کہی ۔۔۔۔خصوصاً ان دوستوں اور بزرگوں کی بلند ہمتی اور عالی ظرفی کے نقوش ثبت کررہے تھے میری ناچیز پکار کو گوش التفات سے سنا اس پر خلوص وایثار کے بے مقدار صدف نچھاور کیئے اور اپنے سحاب کرم کے گہرے باریوں سے میرے مقصود ومراد کی جھولی یہاں تک بھر دی کہ دیکھتے دیکھتے فقیر صاحب کی داستان پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔ حافظ لطیف جو میری کاوش کا ثمرہے فقیر کی داستان حیات لکھتے وقت مجھے معمولی اختصار سے کام لینا پڑا کیونکہ اگر شروع وسط کے ساتھ لکھتاتو طویل ہوجاتی اسلئےاگر ابہام رہ گیا ہوتو آپ یقیناً فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔تاہم میرا خیال ہے اگر کسر لفظی کی نیا پر کہیں ابہام کا امتحال ہوتا ہوا محسوس کرتے اور مندرجات میں لبانکنے کرکے مہربانی کی انتہا جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ نیا پر کوئی ابہام پایا جاتا ہو جو میرے شعور میں ممکن ہے وہ پختگی اور نکھار نہ ہو ۔جو کہنہ مشق کے یہاں ملتا ہے کیونکہ میرا ادب میں پہلا قدم ہے۔میرے اناڑی پن کی وجہ سے میرا اسٹائل ذرا سا انحراق کرتا ہوا ہے تاہم مجھے امید ہے کہ ناظرین میری تخلیقات کا مطالعہ اسی نقطہ نگاہ سے کریں گے اور یہ بھی توقع ہے کہ اس داستان کا مطالعہ کر لینے کے بعد ناظرین مجھے میری غلطیوں اور خامیوں سے بلاتکلف آگاہی بخشیں گے۔نیز اپنے مفید مشوروں سے مسفید فرمائیں گے۔تاکہ میں ان قیمتی مشوروں کی روشنی میں آئندہ اصلاح کرسکوں جو صحیح معنوں میں پیکر حسن ثابت ہو۔ آخر میں یہاں اپنے محترم دادا ولی محمد مرحوم صاحب کے متعلق کچھ کہے بغیر شایدتعارف نامہ مکمل نہ ہو۔ولی محمد مرحوم صاحب موصوف فقیر عظیم محمد کی کہانی کی تکمیل کے لئے مجھے وہ تمام سہولتیں مہیا کرتے رہے ۔جن کی داستان حیات لکھتے وقت خواہش کرسکتا تھا اور میں تشکر کے رسمی الفاظ سے احسان مندی کے ان جذبات کی توہین نہیں کرنا چاہتا جہنوں نے فقیر صاحب کی داستان حیات لکھنے کے لئے میرے دل میں ایک امنگ ایک خوشی ایک جذبہ اور ایک نئی روشنی پیدا کی پھر اس مہربانیوں اور نوازشوں کا سلسلہ یہ کہ فقیر صاحب کی داستان حیات کو سنا کر اپنی محبت اور اخلاق کا ثبوت دیا (Thank you so Mach) آپ کے اسی خلوص واخلاق کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ان جذبات کی قدر کرتا ہوں جو انکے لئے میرے دل میں ہیں۔

    " گر قبول افتدز ہے عزو شرف" 
                                                                 ۔              (شاہ نواز خان چھٹہ)
   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ويا نه مور مري اڃا  ڪي ھنج آھين حيات 
جي رھين رندن وٽ رات پوئي سد سنسارجي 

اس بیت کو پڑھنے کے بعد کسی بڑے سانحہ کا درد ہلکا ہوتا ہے شاہ صاحب کے اپنے دور میں اغیار کے ہاتھوں قتل اور غارتگری کے سبب قوم کو پوچھنے والا نے قوم کی خستہ حالی کا ذکر اس درد سے بیان کیا جو بڑی شدت سے تازہ کردیا ۔تاریخ کے دور کے حوالے سے اس بات میں کتنی قدر صداقت ہے وہ "کھوجیا" کا کام ہے جو انہیں تہ بالا کرکے فیصلہ کرے۔مگر بھٹائی صاحب نے آدرشی آدمیوں کو ذبح ہوتے دیکھا اس پر آپ نے فرمایا۔

   ويا مور مري ھنج نه رھيو ھڪڙو 

وہ اس دور کی تاریخ میں سچائی تھی جو اس قوم کو ایسی ضربیں سہنی پڑی۔بھٹائی کی شاعری پر باقاعدہ کام ابھی ۔نہ کسی ادارے نے کیا اور نہ ہی کسی فرد نے یعنی ایسا کام جو مکمل اور مستند سمجھا جائے اس لئے ہم وہی کھیل ابھی تک سنتے کہ نہ فلاں بیت کی باطنی معنی یہ ہوگی اور نہ ہی ظاہری یہ ہوگی دوسری طرف جدید سماجی نظریے کے مطابق بھٹائی صاحب کے اشعار کا جائزہ جزوی طور محض چند بیت سے استفادہ کرتے لیا گیا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے جدید علمی اور فنی معیار کے مطابق بھٹائی صاحب کے فن پر کوئی مکمل کام کیا جائے اور وہ صرف یہی ادارہ کرسکتا جن کے پاس وسائل میسر ہیں۔

ويا نه مور مري اڃا  ڪي ھنج آھين حيات 
جي رھين رندن وٽ رات پوئي سد سنسارجي  


یہ بیت کس کا ہوسکتا ہے؟ اس بیت میں نہ ہی بھٹائی صاحب کے خیال کو رد کیا گیا ہے اور نہ ہی یک طرفہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ مصروف جدوجہدانسان ختم نہیں ہوئے اور نہ ہی ہونگے یہ جیتی جاگتی حیاتی کا انمٹ اصول ہے آدرشن کی تکمیل سے ہر دور کے انسانوں کی محنت جاری رہتی ہے اور جاری رہنی ہے ہمیشہ کے لئے جیسے کل ایک تمام بلند پایہ کے ادیب بلک دانشور ہالینڈی نے ایک کتاب کی مھورت پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اتنے زیادہ منصور نہیں کہ ہم حق کے ہو کو جیسے تیسے جاری رکھیں۔ اس بات پر صرف افسوس ظاہر کیا جاسکتا ہے مگراپنے فرض کے طور آدمیوں میں حوصلہ برقرار رکھنے کی ذمہ داری قبول کرنے والے ادیبوں کو ان ذمہ داری سے گردن نہیں اٹھانی چاہیئے۔ یہی وہی بیت "حافظ لطیف" نام والا دریجی لسبیلہ بلوچستان کا مشہور بزرگ فقیر عظیم محمد چھٹہ کا ہے جو اپنے ایبازوں اور واہیوں میں " عظیم" یا پھر شاہ صاحب کا والہ وشیدا جن کے بغیر شاہ صاحب کے کلام اولین کی تاریخ نامکمل رہتی ہے وہ ایک پہنچے ہوئے برگزیدہ شخص تھا ان کا شمار شاہ صاحب کے ان فقراء میں ہوتا ہے جن کو شاہ صاحب کے پر ستار اور سچے عاشق کہا جاتا ہے اور کئی حیثیتوں سے ہم کو "سرمد"کی یاد دلاتا ہے ان کا ذکر کرنا مقدم ہے یا عہد ماضی جو ہم سے بہت دور ہوچکا ہے اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک شاعر کو مشاعروں اور محفلوں نے جگہ نہ دی ہو لیکن پھر بھی لوگ اسے پہچانتے تھے آج زمانہ کی ترقی اور بڑھتی ہوئی آبادی نے اس جگہ اور ذرائع اختیار کیے ہیں ایسے مراکز قائم کیئے گئے ہیں جن سے ایک فنکار کو پہچانا جاسکتا ہے۔انکی دیوانگی اور شوریدگی ان زمانہ سے آج تک " ضرب المثل" ہے ان کا مقبول اور لقب "فقیر" پر واضع رہنا چاہیئے "فقیر" عظیم محمد کا تخلص تھا مگر انہوں نے جہاں جہاں تخلص فقیر سمجھا ہے وہاں اپنا نام اپنی شاعری میں عظیم بھی استعمال کیا ہے۔ مگر لوگ انہیں "فقیر" کے القابات سے یاد کرتے تھے شاہ صاحب کے عشق نے ان کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا اور تادم زیست اس صوفی شاعر کے (گلستان خاطر) میں عشق کے سوائے کوئی پھول نہیں کھلا ۔عشق لطیف نے اس کے دل کو جلا کر رکھ دیا تھا اور ایک لمحہ کے اس کو کبھی راحت اور آرام میسر نہیں ہوا۔ بقول عظیم یوں لگتا تھا اب دنیا میں میرے لئے باقی نہیں رہا عشق کی دیوانگی مجھے متوسط گھرانے سے نکال لائی تھی اور وہاں لوٹ کر جانا نہ چاہتا تھا میں نے عشق میں فقیری جامہ پہن لیا اور داڑھی بڑھائی اور کشکول گدائی لے کر لوگوں کے دروازے پر بھی گیا تاکہ میرے ذہین سے اعلیٰ طبقے اور اعلٰی ہستی کی رہی سہی بو بھی نکل جائے۔ اور میں اپنے آپ کو عام انسانوں سے بھی کمتر سمجھوں اس طرح عشق مجازی نے عشق حقیقی کی طرف میری رہمنائی کی اور مجھے ایک نئی محبت کا عرفان بخشا آہستہ آہستہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ قدرت نے میرے دل میں عشق لطیف کا شعلہ اس لئے بھڑکایا تھا کہ وہ آگ مجھے جلا کر بھسم کردےاور اس خاگستر سے عشق حقیقی کی چنگاری نمودار ہوئی مجھے اب دنیا اور دنیا کے کاروبار سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ آپ بھٹائی صاحب سے ایک بار اتنا شدید نمونے سے مانوس ہوگیا کہ جو ابتدائی شرط شاہ صاحب کے کلام اولین کو گانے لگا آپ کے بیتوں کی بناوٹ اور اسلوب بھی بڑا حصہ تھا۔جو لگتا ہے کہ اس نے بھٹائی کے کلام اولین سے استفادہ حاصل کیا ہے ۔شاہ صاحب کے عشق میں مدہوش ہوکر آپ انتہائی خود دار بنے کبھی کبھی کئی دنوں تک فاقے میں رہتے تھے لیکن مرد مجاہد درویش نے حالات کے سامنے کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالے یہ انکے کے لئے مہمیز ثابت ہوئے پر ایک بات یقینی ہے کہ وہ عام اپنی مشہور تعریف ہر دلعزیزی اور ادب کے تاریخ میں اتنا عظیم مقام ورازکو حاصل کرنے کے لئے انہیں کسی فانی انسان کے شکر گزاری کی ضرورت نہیں یہ سب انکے اور شاہ صاحب کے اعجاز ہیں۔ ان میں کوئی شک نہیں کہ مبالغہ آمیز صلاحیتں اور جامع الکمالات کے نقطہ نگاہ سے فقیر صاحب صحیغہ لطیف پر قابل رشک تھا۔جو آپ عشق لطیف پر بجا طور ناز کرسکتے تھے۔یہ سچ ہے کہ علم ابجد جاننے والوں نے اپنے اپنے تجربے اور مشاہدات کی سوچ کی بناء پر وہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ انسان کی زندگی اپنے مشہور نام پر کافی اثر رکھتی ہے وہی نام ہے جس کے مناسب سے یوسف نام والا آدمی صورت میں نہ بلکہ سیرت میں حسین ہے،عثمان نام والا غنی اور شاہو کار،ابراہیم نام والا خلیل یعنی دوست نواز اور نادر نام والا سخت اور جابر ہوتا ہے۔اسی تجربے اور مشاہدے سے جس قدر واقعی کوئی حقیقت ہے تو پھر ہم کو اس بات پر یقین کرنے سے ہر گز انکار نہیں کرنا چاہیئے جیسے "عظیم" نام والا آدمی زیادہ تر عظیم ہوتا ہے۔مجھے علم ابجد والوں کے اسی قول کے اعتبار سے انسان کی زندگی پر اس نام کا کافی اثر پڑتا ہے ہر حالت میں قائل ہونا پڑتا ہے کیونکہ ہمیں فقیر عظیم محمد نے وہ حقیقت صادر کرکے دکھائی ہے کہ وہ ہر حالت میں عظیم تھا۔جہنیں قدرت نے مخصوص فطری صلاحیتوں سے نوازاہے اسکی ہمیں تعریف کرنے کے بجائے وہ خود ایک مسلم الثبوت تھا۔جہنوں نے اب ہمیشہ کے لئے اس دار فانی کو الوداع کہا اور اپنے خالق حقیقی سے واصل بحق ہوگئے مگر عشق لطیف میں آج بھی دنیا میں نہ ہوتے ہوئے بھی بلندی پر نظر آتا ہے سندھ میں عظیم کے بعد آج کوئی ایسا شاہ صاحب کا والی وشیدا سامنے نہیں جو انکی تخیل کی تکمیل کو مکمل کرسکے عظیم نے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی اور جب سدا کے لئے آنکھیں بند کیں تو بڑی کسمپری کی حالت تھی نہ انکے قدر دانوں کو وہ وقت یاد رہے اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں کو یاد رہے وہ جاتے جاتے مرزا غالب کے ایک شعر کا عمل طرز بھی بن گئے۔

  ہم  نے مانا کہ  تغافل نہ کرو گے لیکن 
  خاک ہوجائین ہم  تم  کو خبر ہونے تک 

اور یہی ہوا ہم کو جب خبر ہوئی تو وہ خاک ہی ہوچکے تھے یہی صدا اب ہمیشہ کے لئے برنجاست ہوچکی ہے۔بقول عظیم اے میرے عقیدت مند جگ جگ جیو جب تم میرے پاس پہنچوگے تو میں خدا کے پاس پہنچوں گا۔واقع ایسا ہی ہوا۔ اب آیئے سندھ کا سدا زندہ،انقلابی شاعر شاھانہ ملک الشعر،صاحب دل صوفی بزرگ ،لاکھواں لال بھٹائی گھوٹ،سید عبدالطیف بھٹائی جو دنیا کے اندر ایک عظیم ہستی گزرا ہے۔آج تک انکے عظمت کے گیت گائے جاتے ہیں اور خود اپنا یہ لفظ تھے کہ!!!

   توئي لڄ لطيف چيئ آھي سنڌي عام 

انکے پر ستار اور دیوانے عاشق فقیر عظیم محمد چھٹہ جو ایک وحیدالعصر گزرے انکی سوانح عمری پر ایک سرسری نظر ڈالیں

          سوانح عمری 

ضلع لسبیلہ کے اس عظیم سپوت کی پیدائش کا فخر خاک تحصیل دریجی کو حاصل ہے۔ آپکی تاریخ پیدائش کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ فقیر عظیم کب پیدا ہوئے محقق طور پر آج تک نہ معلوم ہوسکا فقیر عظیم کی تاریخ پیدائش کےمتعلق کہیں کوئی خبر نہیں ملتی البتہ تاریخ پیدائش کے بارے میں تو قطعی اطلاعات نہ سہی کچھ اشارے مل جاتے ہیں کہ فقیر عظیم 1880ء کے او آخر میں پیدا ہوئے ہیں جو آپ اپنے آبائی گاوُں تحصیل دریجی ضلع لسبیلہ کے ایک ممتاز سادات گھرانے (میرکانی نژاد) میں آنکھ کھولی اور یہ اللہ آمین کا بیٹا اللہ آمین سے پالا گیا۔ آپ کے والد محترم نور محمد چھٹہ کو اللہ پاک نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا سب سے بڑا بیٹا فقیر عظیم محمد دوسرا بیٹا ولی محمد جس نے 3 دسمبر 1994ء بمطابق ١۴١۵ھ کو اس دنیا سے ہمیشہ کے رحلت فرما گئے اور تیسرا بیٹا فقیر محمد جو غیر شادی شدہ تھا آپ نے آغاز جوانی میں اس دار فانی کو لبیک کہا اور اپنے خالق حقیقی سے واصل بحق ہوگئے۔ نور محمد چھٹہ اک معتبر شخصیت کے مالک تھے مارچہ قبیلہ کے سربراہ تھے ۔ قبیلہ کے سرداروں کے علاوہ والیان راست لسبیلہ ودیگر قبائل کے سربراہ بھی آپ کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔انہوں نے بیشتر حصہ چھٹہ قبیلہ کی خدمت میں گزارا انکے تمام قبائل کے سرداروں سے گہرا مراسم رہے۔آپ نے ١٣۵٨ھ میں عالم ناسوت سے رحلت فرمائی۔

            تعلیم 

اس وقت دریجی تحصیل میں کوئی تعلیمی درسگاہ نہ تھی۔چنانچہ انکے والد محترم نے فقیر عظیم کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے ملیر کراچی میں عرس چھٹہ ولد کریڑ چھٹہ کے ہاں تعلیم کے بھیجا جو وہاں اسکول مدرس تھا فقیر عظیم نے عرس کے زیر سایہ وہاں سندھی کے تین درجے کے ساتھ ساتھ قرآنی تعلیم ملیر میں حاصل کی۔ اسکے بعد والدین سے ملنے اپنے آبائی گاوُں دریجی آیا اس وقت اسکی عمر تقریباْ پندرہ برس کی تھی ۔اس پندرہ برس کی البیلی عمر میں آپ نے اپنی تعلیم کو خیر باد کہا۔انکے والد محترم وعزیزواقارب انہیں ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ وہ تعلیم کو ترک کرنے کے بجائے جاری رکھیں لیکن آپ نے ان کی مالہ وما علیہ باتیں سنی ان سنی کر جاتے اور کتراتے رہتے۔

           ملازمت 

اس دوران برٹش حکومت تھی عنفوان شباب کو پہچنے کے بعد آپ نے علاقائی پولیس (لیویز) میں وہاں کے لسبیلہ اور سندھ کے سرحدی پولیس جمعدار جناب دوس محمد بھوتانی صاحب کے کلمہ خیر سے لیویز کے سپاہی کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرلی۔تقریباْ پانچ سال تک آپ اپنی ڈیوٹی کے فرائض نہایت دیانتداری سے سر انجام دیتے رہے اس کے بعد آپ نے اپنی ملازمت سے استفٰی دے دیا۔

      صحیفہ لطیف سے انس 

فقیر عظیم محمد بچپن ہی سے شاعری کی طرف راغب تھے لیکن ملازمت سے سبکدوش ہونے بعد آ پ کو قدرتی طور پر شاہ عبدالطیف کے کلام اولین (شاھ جو رسالو) سے مالوف پیدا ہونے کے بعد انہوں نے باقاعدہ شاعری کی ابتداء "شاھ جو رسالو" سے کی۔ آپ نے کئی لوگوں سے رسالہ طلب کیا مگر اس وقت چند ایک لوگوں کے پاس رسالے موجود تھے باایں ہمہ کوئی ایسا مردم شناس بھی نہ تھا جو اس طلب گار کی طلب کو مٹا سکے آخر الامر اسے اپنے علاقہ موضع کھوسڑہ کے باریجہ قبیلے کے اک شخص جس کانام حاجی مغر باریجہ تھا انکے پاس ایک قلمی رسالہ موجود تھا جو انکے اپنے فرزند مرحوم کا تھا جس نے اس رسالے کو اس عمق کے ساتھ پڑھا کہ وہ رسالے کے ابیازوں کی نچلے حصوں میں گم رہ گیا اور دنیا ومافیہا سےبے نیاز ہوکر اپنا وجود کھوبیٹھا اکثر وبیشتر زندگی فقرو فاقہ میں بسر ہوتی۔آخرکاراسی دیوانگی میں اس داعی اجل کو لبیک کہا بعد میں وہ رسالہ حاجی مغر نے اپنے بیٹے کی آخری نشانی سمجھ کر اپنے پاس محفوظ رکھا لیکن فقیر عظیم محمد کے پاس ادب انہیں اس شرط پر رسالہ دیا کہ وہ انہیں یہ رسالہ پڑھنےکے بعد واپس لوٹا دے گا یہ رسالہ چھتیس سروں پر مشتمل تھا فقیر عظیم محمد نے اس رسالے کو اس گہرائی کے ساتھ پڑھا کہ وہ رسالےکے بیت کی گہرائیوں میں گم رہ گیا اس نے اس دنیاوی طرز معاشرت کو باستشنا کرکے اپنے وجود کو کھو بیٹھا اور وہ باولا ہو گیا وہ شب و روز بھٹائی کے بیت پڑھتا اور زاروکار روتا رہتا تھا اسی دیوانگی میں اکثروبیشتر دشت نوری میں تہنا بھٹکتے پھرتے تھے دنیا کی دلچسپوں سے کنارہ کش ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لی۔اس کی دیوانگی کو دیکھ کر انکے والد صاحب بہت پر یشان ہوگئے انہوں نے کئ بار فقیر کو رسالے پڑھنے سے منع کیا لیکن آپ فنانی الشیخ میں ایسے کب باز آتے تھے۔بہرحال کچھ عرصہ رسالے کو پڑھنے کے بعد فقیر نے وعدہ کے مطابق رسالہ حاجی مغر باریجہ کو واپس کردیا چونکہ رسالہ ان کے پاس قلیل عرصہ تھا اور اس قلیل عرصے میں اسے حفظ کرنا تو درکنار جچاتلا پڑھنا بھی دشوار تھا تاہم اسے سینکڑوں اشعار از بر ہوگئے تھے۔

          ہرنیا کی بیماری 

آغاز جوانی میں آپ ہرنیا Hernia (چھکی) کے مریض تھے ایک دن ہرنیا کی تکلیف مالایطاق نے آپکا برا حال کر رکھا اس درد کی تکلیف کے باعث آپ ننگے سر اور پاوُں زبانی شاہ کے بیت پڑھتا اورروتا ہوا مشرق کی سمت روانہ ہوا اور غائب ہوگیا اسکے والد محترم نور محمد چھٹہ نے فقیر کی کدوکاش کرتے ہوئے اپنے گاوُں سے دور افتادہ علاقہ موضع تلانگہ میں قبیلہ لدھانی کے ایک شخص کنڈو ولد لدھو کے گھر پایا۔والد صاحب نے اسے گھر چلنے کو کہا مگر وہ نہیں چلا۔آخر کار کنڈو لدھانی نے نور محمد کو یہ باور کرایا کہ جب تک عظیم میرے پاس ہے میں اس کی پوری طرح سے خیال رکھونگا آپ واپس جائیں فقیر کو علاقہ تلانگہ کے باشندوں جن میں قبیلہ لدھانی اور گھریہ سے اس قدر محبت تھی کہ عمر کا پیمانہ لبریز ہوتے وقت ان کو یاد کر کے روتا تھا۔ پھر انکے والد نے عظیم کو کنڈو کی تفویض کرنے کے بعد گھر چلا آیا۔ اسی دوران اسکی ہرنیا کی بیماری روز بروز بڑھتی جارہی تھی اور وہ بے ہوش ہوجاتا پھر لوگ اسے ٹانگوں میں پکڑ کر اوپر کرتے اور سر نیچے کچھ دیر کے بعد پھر اس کی انتریاں اپنی جگہ پر واپس آجاتیں اور پھر اسے سیدھا بٹھا دیتے۔ہرنیا کے باعث آپ بلند آواز سے بیت نہیں پڑھ سکتے تھے پھر آپ آہستہ آہستہ میں دن رات بیت پڑھتا تھا آپکے بیت پڑھنے کا طرز بھی بلبل ہزار داستان تھا کیونکہ جب آپ بیت پڑھتے تھے تو اس قدرالحان طرز سے کہ سننے والے کا دل کہتا کہ سارا دن اس کے ابیازوں کو سنتا رہوں آپ کبھی کنڈو لدھانی کے گھر سے کچھ فاصلے دوسرے لدھانی قبیلہ کے لوگوں کے گھر جاتے اور ایک دو رات انکے ہاں قیام کرنے کے بعد پھر کنڈو کے گھر لوٹ آتاتھا۔جو کھانے کو ملتا کھا لیتا چائے اور حقہ کا بچپن سے خوپزیر تھا دوران سفر میں بھی حقہ زار راہ کے طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا جہاں جاتا حقہ کے لئے تمباکو اور چائے طلب کرتا حقہ خود بناتا تھا بقول عظیم کہ علاقہ دریجی میں اس وقت میں اکیلا چائے پیتا تھا جبکہ دوسرے لوگ بالکل چائے نہیں پیتے تھےبعض تو چائے کے نام سے واقف نہیں تھے۔ فقیر عظیم کنڈو لدھانی کے پاس رہنے کے دوران اس کی ہرنیا کادرد آئے دن بڑھتا گیا اس زمانے میں آپریشن کی سہولتیں موجود نہ تھیں آپ نے اس درد سے چھٹکارہ پانے کے لئے بزرگوں اور درویشوں سے دعا حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اس سلسلے میں آپ نے کنڈو سے راہ فرار اختیار کرکے سندھ کی طرف کوچ کیا آپ اپنی مستی کی نوعیت کے الگ الگ استحکام پذیر خرقہ پوش طریقوں کا تجربہ کرتے ہوئے سندھ کے ایک زندہ درویش سمن سرکار کی خدمت میں حاضر ہوئے جہنوں نے فقیر کو دیکھتے ہی جام ڈاتار رحمتہ اللہ کے مزار اقدس پر حاضر دینے کا آگیا دیا اس حکم کی تکمیل میں آپ جام ڈاتار کی مزار پر حاضری دی قبل کسی ڈاکٹر یا حکیم سے ملے بغیر انہیں رات کو خواب میں گھر جانے کا اشارہ مل گیا۔ادھر انکے والد محترم نورمحمد کو جب عظیم کی راہ فرار کی آگاہی ملی تو آپ نے فقیر کی کدوکاش تیز کردی لیکن فقیر عظیم کا کہیں اتا پتا معلوم نہ ہوسکا۔

           غم کدہ 

کہتے ہیں کہ نورمحمد کو جب عظیم کی کدوکاش کرنے والوں نے اپنی ناکامی کی خبر دی تو آپ اس غم افزا خبر نے پریشان خاطر کو غم کدہ میں تبدل کردیا ان کے اپنے لال کے بچھڑنے کا غم ایک مقدس یاد بن کر سیپ میں بند موتی کی طرح دل کے گہرے سمندر میں دفن ہوگئے جب کبھی بھی انکو عظیم کی یاد آتی تو دل پر ایک چوٹ سی پڑتی تھی روح زخمی ہوجاتی تھی اور دل میں غموں کے کالے بادل چھا جاتے عظیم کی یادیں انکی زندگی کا بڑا سرمایہ بن گئیں جو ہر وقت نورمحمد کے ساتھ رہتی تھیں شاید نورمحمد اس کو بھلانا چاھتا مگر غم اسے ایسا کرنے نہیں دیتاوقت کا مرہم گہرے سے گہرا زخم بھر دیتا تھا وہ ایسا مرہم چاہتا تھا جو اسے اس غم کو مٹا دے مگر ایسا کبھی نہیں ہوسکتا جو غم کا زخم انسان کے روح پر لگ جائے اسے کوئی مٹا نہیں سکتا سوائے وہی خوشی غموں کے بعد میسر آئے تو وہ دوبارہ اپنے آپ کو خوشیوں کی طرف مائل کرلیتا نور محمد اپنے غم کے زخم پر نظر ڈالتا تو اس کے بیتے ہوئے دنوں کی یادیں شمع روشن کی طرح اس کے سامنے جھلملانے لگتی جو ہر پل تڑپاتی اور رلاتی تھیں نورمحمد اپنے بیٹے کے بچھڑنے کے غم کو بھلانے کی خاطر ہر وقت شوخی بکھارتا تھا مگر جب عظیم کی یاد آجاتی تو اس طور طریقے بھی بدل جاتے اب وہی نورمحمد سنجیدہ پریشان حال دکھائی دیتا ہر بات پسند نہیں کرتا مسکرانے والا نورمحمد آج شوخی محفلوں میں بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا اسکے باوجود نورمحمد اسی شخصیت کے مالک تھے جو اپنے لال کی جدائی کے غم کو سینے میں چھپا کر ہر شخص کے سامنے مسکراتا تھا مگر اندر سے انکا دل آبگینہ کی طرح ٹوٹ گیا تھا۔

      گلشن ویراں میں پھر بہار 

یہ سچ ہے کہ حقیقی خوشی دکھ جھیلنے کے بعد حاصل ہوتی ہے پچھلے چند ماہ نور محمد کو کسی پل سکون نہیں تھا مگر آج وہ دن ان سے بچھڑ گیا شام افق میں ڈوب گئی عام سورج نہیں تھا۔پچھلیاں گزری ہوئیں شامیں نورمحمد کے سب غم لے کر اپنا بستر گول کر گئیں نئی شام مسکراتی اپنا دامن وار کئے نورمحمد کے سامنے ہنستی مسکراتی آن کھڑی ہوئی نورمحمد نےنئی شام کے افقوں کو سر سبز کھیتوں پر چھاتے دیکھا تو ماضی کی اداسیوں کو اپنی مسکراہٹوں کا سلام پیش کررہا تھا۔مشرق کی سمت ایک گھوڑا سوار اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑارہا تھا انکا رخ سیدھا نورمحمد کی گھر کی طرف تھا نورمحمد جو باہر روز مرہ کی طرح گھر کا کام کررہا تھا جونہی انکی نظر گھوڑا سوار پرپڑی تو وہ چونک پڑا۔جوں جوں گھوڑا تیز رفتاری سے اپنے فاصلے کو کم کرتا رہا اور نور محمد کی دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی۔یہ سوار گھوڑے کو تیزی سے دوڑاتا ہوا نورمحمد کے گھر کے کچھ فاصلے پر رکا اور نورمحمد۔.۔۔نورمحمد کہہ کر بلند آواز سے اسے پکار رہا تھا۔نورمحمد پہلے ہی اس سوار کے منتظر تھے جب اس نے اسکی پکار سنی تو آپ کے قدم بے اختیار اسکی جانب بڑھنے لگے یہ سوار جو ابھی ابھی شاھ صاحب کی مزار سے نئے آئے تھے جہنوں نے نور محمد کو بھٹائی صاحب کی مزار پر عظیم کو دیکھنے کی نوید سنائی یہ نوید سنتے نورمحمد خوشی سے پھولے نہ سمائے حقیقت میں پچھلے چند ماہ انکے اندر غموں کے پہاڑ ٹوٹے ہوئے تھے مگر آج اس نوید نے اسے ہر چیز سونا بنا دیا کہتے ہیں کہ اس رات کو نورمحمد نے خوشی کے باعث جاگ جاگ کر گزاری۔اگلی صبح نورمحمد نے خوشی خوشی سے بھٹ شاھ کی طرف ایک نئے سفر کا آغاز کیا تین روز متواتر مسافت طے کرنے کے بعد نورمحمد اگلی صبح بھٹ شاھ کے مزار اقدس پر پہنچے تو عظیم انکو مزار پر ہی مل گئے۔بڑی مشکل سے انہیں ڈاکو اور پولیس کی مار پیٹ کے خطرناک قصے سنا کر انہیں گھر لے آئے۔ ہفتہ عشرہ اپنے گھر پر رہنے کے بعد اپنے ایک جان دوقالب دوست کنڈو لدھانی کے پاس ملنے چلا گیا۔چند روز کنڈو کے ہاں قیام کیا ایک روز والدین کے پاس جانے کا کہہ کر وہ طلوع آفتاب سے قبل دریجی کی سمت روانہ ہوا اسی دن صبح (ضحا) کے وقت ایک چراوھا نے کنڈو کو آکر بتایا کہ فقیر عظیم لک گیپھوڑ کی دوسری جانب بے ہوش پڑا ہے چنانچہ کنڈو نے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ لیا اور چارپائی پر بستر ڈال کر نکلے وہاں پہنچے تو وہ بے ہوش پڑا تھا اور اس کے ساتھ ایک پیالہ ٹوٹا ہوا پڑا تھا اس پیالے کو دیکھ کر کنڈو اور انکے ساتھیوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ محیرالعقول ہوکر رہ گئے کہ یہ پیالہ کہاں سے آیا ہے جبکہ عظیم کے پاس پیالہ بلاقف تھا ہی نہیں۔جب اسے اٹھایا تو وہ ایکدم ان سے چھلانگ لگا کر بھاگا الا اتنی برق رفتار سے کہ بادی النظر ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔قبل ازیں ان دنوں وہ ہرنیا کا مریض تھا اور بلا توقف دوڑ نہیں سکتا تھا انہیوں نے پاوُں کے نشانات پر انکا پیچھا کیا اور چند میل دور ایک مقام (عدل کی کھڈی) کے مقام پر ایک نیم کے درخت کے نیچے ملا پھر انہوں نے اسے بازو میں پکڑا تو بلا اکراہ واجبار ان کے ساتھ ہولیا اور وہ اسے کنڈو کے گھر لائے چونکہ کنڈو اس کا گہرا دوست تھا اس لئے آپ نے کنڈو کے عندالاستفار سے اپنی " سرگذشت" یوں بتائی۔

          سرگزشت عظیم 

میں تم لوگوں سے اجازت لے کر جب اپنے والدین کی طرف روانہ ہوا جب جب لک گیپھوڑ کو عبور کرکے دوسری طرف پنہچا تو ایک نالے کی دیوار کے پاس سے گزرتے وقت اچانک ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور ہرنیا کی وجہ سے میرا امعا نیچے اتر گئیں پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا جب معمولی ہوش آیا تو گھوڑوں کے پاوُں کی دھب۔دھب کی آواز سنائی دی میں نے دیکھا کہ مشرق کی سمت چار آدمی گھوڑوں پر سوار آئے اور چاروں گھوڑوں سے اتر کر میری طرف آئے ایک پاوُں کی طرف کھڑا ہوگیا جو کافی سہگمین صورت والا تھا دو دائین اور بائیں جانب کھڑے ہوگئے جو بہت خوبصورت ماہ جبیں تھے اور ایک میرے سر کی طرف کھڑا ہوا وہ بے حد خوبصورت اور فیروزی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھا پاوُں کی طرف کھڑے ہوئے شخص نے کہا کہ اب یہ ختم ہے اسے چھوڑ دو فیروزی رنگ کے کپڑوں والے شخص نے کہا کہ نہیں پھر اس نے میرے دائیں طرف کھڑے شخص سے چابی دو اس نے چابی اس شخص سے لے کر میرے سر پر رکھ کر زور گھمائی پھر بائیں طرف والے سے کہا اب تم اپنا کام کرو اس نے چھری نکالی اور میرے ناف کے نیچے سے میرا آپریشن شروع کیا اور انتریاں باہر نکالی ان کے پاس ایک مشکیزہ تھا اس سے میری انتریاں پانی سے دھوئیں اور دوبارہ شت وشو کرکے میرے پیٹ کے اندر ڈال دیں پھر بائیں طرف والے سے کہا کہ تم اسکی سلائی کرو اس نے دھاگہ اور سوئی نکالی اور میرا پیٹ سی لیا۔سر کی طرف بیٹھے ہوئے شخص نے مجھے ایک پیالے میں پانی دیا اور پینے کو کہا میں نے پانی پی کر پیالہ واپس کیا تو اس شخص نے وہ پیالہ وہیں پہ توڑ دیا۔پر مجھے پانی کاذائقہ رتن شاہ کی وائی (نالے) محسوس لگا۔ اور پھرمجھے الوداع کہہ کر اپنے گھوڑوں کی جانب جانے لگے تو میں نے فیروزی کپڑوں والے سے عندالاستفار کیا کہ آپ کون ہیں؟ تو اس نے مختصراً اتنا کہا کہ میں شاھ عبدالطیف بھٹائی ہوں آج کے بعد تونے میرا کلام لوگوں کو سنانا ہے۔فقیر عظیم کی اس قدرتی آپریشن سے ایسا عندیہ ملتا کہ جیسے جنگل میں گھومنے والے کسی سنیاسیوں کے کاروان نے انکی آپریشن کی ہے۔فقیر عظیم کے سر پر چابی اور آپریشن کے نشانات عالم ناسوت کو الوداع کرتے وقت انکے جسم پر واضع عیاں تھے۔

           خرق عادت 

اس قدرتی آپریشن کے بعد فقیر کو قدرتی طور پر شاھ ولی اللہ کی خرق عادت کے چار نمونے ظہور پذیر ہوئے۔جو انکی موجہ درج ذیل ہیں۔

قبل ازیں بیت پڑھتے وقت انکی لسان اٹکتی تھی اور الفاظ صاف سمجھ میں نہیں آتے تھے اس معجزے کے بعد ازخود انکی توتلائی ختم ہوگئی اور ایسے بیت پڑھتا کہ ہر بیت کے لفظ بے لاگ لپیٹ سننے میں آتے تھے۔
سر رامکلی میں تیس بیت ایسے ہیں جو "الف" سے لے کر "ی" تک ختم ہوتے ہیں جب فقیر ان ابیازوں کو پڑھتے تو انہیں جنوں طاری آجاتی اور آپ وجد کے عالم میں اپنی زبان کو کھینچ کر باہر نکالتے اور اسی عالم میں آپ پانی مانگتے تو پورا گھڑا (مٹکا) پانی پی لیتا تھا کچھ دیر تک یہی عالم رہتا تھا بعد میں آپ کلمہ طیبہ پڑھ کر ہوش میں آجاتے اور پھر اپنی زبان کو ایک زور دار آواز کے ساتھ اندر کرلیتا۔
اس قدرتی آپریشن کے واقع کے بعد آپ نجومیوں کی طرح پیشن گوئیاں کرتے تھے کبھی کبھار اچانک بیٹھے بیٹھے کہتے کہ ابھی ابھی فلاں آدمی کا انتقال ہوگیا ہے حالانکہ اسکی بیماری کا کسی نے سنا نہ تھا اور چند روز پتہ چلتا کہ واقعی وہ آدمی اسی دن اسی وقت انتقال کر گیا تھا اسی طرح کئی بار آپ نے پیشن گوئیاں کی تھیں اور واقعی سچ ثابت ہوئیں۔
اس آپریشن کے بعد فقیر ہر جمعہ کی صبح فجر کی آذان سے قبل بعد نماز جمعہ تک اپنی بصارت سے محروم رہتے تھے اپنی چارپائی پر پڑے رہتے تھے پیشاب وغیرہ کی حاجت کی صورت میں لوگ انہیں ہاتھ میں پکڑ کرلے جاتے تھے۔
          شادی اور اولاد 

فقیر عظیم محمد کی دیوانگی اور شوریدگی ان زمانے سے آج تک "ضرب المثل" ہیں آپکی دیوانگی اور شوریدگی کا عالم تقریباً چالیس سال تک رہا اسکے بعد قومی سردار امیدعلی خان بھوتانی نے فقیر کو اپنے پاس رکھا فقیر عظیم کی سردار امیدعلی خان سے ہم جلس اور انکے ساتھ ہم صحبت ہونے کے بعد آپ کی دیوانگی وشوریدگی انحطاط پذیر ہوتی گئی ۔آخر کار پینتالیس سال کی عمر میں سردار امیدعلی خان نے فقیر عظیم کو مینگل قوم (میراجی) خاندان سے شادی کرائی ۔ 1963 میں آپ ایوب خان کے دورہ حکومت میں دریجی یونین کونسل سے B.D بی۔ڈی کا ممبر منتخب ہوئے۔فقیر کی شادی کے بعد انہیں اللہ نے چار اولاد ناث اور ایک اولاد ذکر سے نوازا انکا یہ اکلوتا اولاد ذکر " امیر بخش " بڑے ناز وانداز سے پالا پوسہ گیا آپ لیویز فورس دریجی ضلع لسبیلہ میں ایک جمعدار کی حیثیت سے ملازم رہا 1992 کو مدت معینہ کے بعد اپنی ملازمت سے Retired سبکدوش ہوا۔10ستمبر 1998ءبمطابق ١٩جمادی الاول ١۴١٩ھ کو اس دار فانی کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہا۔ فقیر عظیم کی چوتھی اور آخری اولاد انثیٰ جس کا نام چنگاں تھا وہ بچپن میں ہی انتقال کرگئی ۔اس لڑکی کے بارے میں لوگوں کی روایت ہے کہ فقیر نے اپنی سندھی شاعری میں ایک بیت کہا جس میں انہوں نے پانچویں اولاد یعنی آخری لڑکی کا نام لیا۔مگر بیت کے آخری مصرعے میں صرف چار اولاد کانام لیا قدرت کو شاید انکے بیت کے آخری مصرعہ مستجاب الدعوات ہوا اور یہ آخری بیٹی اللہ کو پیاری ہوگئی۔ فقیر عظیم محمد کی ایک فطرت تھی وہ عموماً اپنے گھر، پڑوس اور تمام جاننے والے لوگوں پر انکے اپنے حلیے۔کردار اور عادت کے مطابق اپنا فرضی نام ان پر رکھتے دیتے تھے یہی وجہ تھی کہ فقیر ان لوگوں کو انکے اصلی ناموں کے بجائے اپنے رکھے ہوئے فرضی ناموں سے پکارتے تھے۔ فقیر عظیم دوسری فطرت یہ بھی تھی آپ زیادہ تر چھوٹے چھوٹے بچوں بے حد پیار کرتے وہ بچے اپنے ہوں پرائے اس سے اسکو سروکار نہیں تھا ۔اور بچے بھی فقیر عظیم سے کافی انس رکھتے۔عموماً جہاں فقیر کو گزرتے دیکھتے بابا۔۔۔۔بابا عظیم کہہ کر ان کے پاس دوڑ کر آتے ان بچوں کو آپ ٹافیاں دیتے اور اٹھا کر پیار کرتے۔پھر آپ ان بچوں کے کانوں کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے مسلتے تھے خاص کر جس بچے کے کان زیادہ نرم وملائم ہوتا اس سے زیادہ محبت رکھتے تھے۔کیونکہ آپ کو نہ صرف بچوں کے کان مسلنے کی عادت تھی بلکہ کان مسلنے سے اسے مزہ بھی آتا تھا۔

          ذاتی شاعری 
صاحب دیوان کوی عاشق لطیف فقیر عظیم محمد نے شاہ عبدالطیف کے "شاھ جو رسالو" کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی شاعری بھی کی جو بارہ سو ابیازوں پر مشتمل تھی۔اس ذاتی ابیازوں کو اک کتابی شکل میں تیار کیا تھا۔مگر اک رات شاھ عبدالطیف نے خواب میں آکر فقیر عظیم سے شکوہ کیا کہ فقیر اب تم نے اپنا ذاتی رسالہ تیار کیا ہے میری امانت یعنی میرا رسالہ واپس دے دو۔اس پر بقول فقیر میں نے شاھ صاحب سے معذرت کی کہ آئیندہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔علی الصبح میں نے اپنی تیار شدہ لکھی ہوئی شاعری کو پھاڑ کر جلا ڈالا اور دوبارہ اپنی نئی کار ہائے نمایاں نہ لکھنے کا عہد کرلیا۔
   سندھ کے ایک حکمران سے سنجوگ 

عشق لطیف میں آپ اکثر پیدل شاھ صاحب کی مزار پر ہر جمعرات کو حاضری دیتے تھے۔کچھ دن وہاں قیام کرتے اور فقیروں کی طرح وہاں گھومتے پھرتے اورشاہ صاحب کے زبانی بیت پڑھتے رہتے۔ اسکے اس عشق کو دیکھ کر بھٹ شاہ کے متوالی فقراء اسں کےعاشق ہوگئے اور اس کی ملحوظ خاطر کرتے تھے اسے حقہ کے لئے تمباکو لے کر دیتے تھے۔ شاہ بھٹائی کے از خود رفقہ میں حاجی قادر بخش مرحوم وامام جامع مسجد بھٹ اور فقیر بھٹ شاہ اسکے گہرے دوست بن گئے اس کے علاوہ سندھ کے کئی ادیبوں اور لیککوں نے فقیر عظیم محمد سے ملاقاتیں کیں اور ان سے شاہ صاحب کے ابیاز سنے اور ان سے استفادہ حاصل کئے جن میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اور سابق ڈپٹی کمیشنر امداد سرائی شامل ہیں۔ بقول عظیم کہ اس نے پوری سندھ اور پورے پنجاب کو دیکھا تھا۔چونکہ شاہ صاحب سندھ کے مشہور بزرگ اور صوفی شاعر تھے اس لئے اس وقت کے حکمران کچہریاں لگاتے اور فقیروں سےبیت سنتے ان بیت کہنے والوں میں اکثر کس وناکس کے لوگ ہوتے تھے ۔فقیر نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ میں سندھ کے گاوُں میں گیا تو لوگوں سے سنا کہ آج شام یہاں " کچہری" لگے گی اور فقراء شاہ بھٹائی کےابیاز کہیں گے اور صحیح بیت کہنے والوں کو انعامات سے نوازے جائیں گے۔چنانچہ بھٹائی کے بیت کا نام سن کر میں خوشی سے جھوم اٹھا اور شام کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔اللہ اللہ کرکے شام ہوئی میں وہاں پہنچا تو ہزاروں لوگوں کا ازدمام تھا۔میں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس خرقہ پوشوں کی طرح ازدمام کے ایک کنارے میں مل بانٹ کے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد بیت بازی شروع ہوئی وہ بیت کے ساتھ ساتھ اس کی صراحت (تشریح) بھی کرتے تھے۔چنانچہ ایک فقیر نے اک بیت پڑھاجو ددج ذیل تھا۔

  پکو  اڏم  منهئين  گهر  اڏم  لانڍ 
  اڏيو جن ورانڍ تن صبح سوير  لڏيو 
اس بیت کی اُس فقیر نے  لفظ "ورانڈ" کا لغوی معنی  (برآمدہ) بتایا اور ازدمام کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ الفاظ شاہ صاحب نے انگریزی لفظ Verandah سے لیا ہے جس کا مطلب برآمدہ ہے۔ 

چنانچہ اس نے جو تشریح کی تو وہ سراسر غلط تھی بہرحال اس نے تشریح پوری سناکر ازدمام کی طبیعت کو یکسو کیا۔تو نواب نے خوش ہوکر اس فقیر کو انعام دینے لگا مجھے بھٹائی صاحب کے بیت کی غلط تشریح کرنے پر مجھے صبر کا یارانہ رہا اور میں اٹھ کھڑا ہوگیا اور نواب سے مخاطب ہوکر کہا اے نواب اگر آپ کو طوعاً وکرہاً ہی انعام دینا ہے تو اس فقیر کو دے۔ ورنہ یہ تشریح سراسر غلط ہے۔اس پر پورا ازدمام میری طرف راغب ہوا اور انعام لینے والا فقیر کو غصہ آگیا اور اس نے مجھ پر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ دیئے اور نواب کو بھی غصہ آگیا اس نے مجھے قہرآلود نظروں سے گھورتے ہوئے کہا اے چرباک اگر تجھے صحیح تشریح آتی ہے تو سْنا اور یہ انعام تو لے۔مجھے نواب کے الفاظ اجیرن ضرور لگے مگر کیا کرتا؟ کیونکہ قہر درویش بر جان درویش۔ بہرحال میں نے کہا کہ فقیر نے جس لفظ "ورانڈ" کا مطلب برآمدہ کہا ہے وہ سراسر غلط معنی ہے بلکہ یہ بھٹائی صاحب نے بالائی سندھ کا لفظ "ورانڈ" کہا ہے جس کا مطلب "شام" اور اس روح سے میں نے تمام وکمال بیت کا مطلب سنایا تو ہر ایک کے دل میں تہ نشین ہوا تو وہ سب عش عش کر اٹھے۔اس پر نواب نے خوش ہوکر مجھے انعام دیا اور کہا اے فقیر اگر تجھے کوئی شاہ صاحب کے ابیاز آتا ہے تو سنا ۔چنانچہ میں نے چند بیت اپنے طرز سے سنائے اور تشریح بھی کرتے گئے تو نواب نے کہا کہ ہمیں تشریح سننے کی ضرورت نہیں ہے تو خالی ہمیں بیت سنا اور فی بیت کے حساب سے میں تم کو ایک روپیہ دونگا۔اس بات پر میں نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے نواب تو ایک روپیہ فی بیت کہتا ہے مگر میں تم کو اتنے شاہ صاحب کے ابیاز سناوُنگا کہ ایک پیسہ فی بیت پر حساب سے بھی تمھارا گھر خالی کر دونگا۔کیونکہ فقیر عظیم محمد کو شاہ صاحب کا چھتیس سْروں پر مشتمل رسالہ لغوی معنوی، تشریح،داستان درداستان کے علاوہ بعض ایسے شاہ صاحب کے ابیاز جو رسالے میں موجود نہیں مگر انہیں قدرتی طور پر حفظ تھے۔جو آپ بلاشبہ اس کار گاہ بزم ہستی میں ایک بلند پایہ کے بزرگ اور وحیدالعصر تھے۔جہنوں نے اپنی تازیستِ حیات سندھ کے صوفی شاعر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے صحیفہ کو پڑھنے اور ان پر عمل کرنے میں گزارے انکو عشق لطیف پر عشوہ تھا اور آپ ان پر جنم جنم عشوہ گری تھی۔بقول فقیر کہ اس وقت چند ہی ایسے بھٹائی صاحب کے دیوانے عاشق تھے۔جن کو پورا چھتیس سروں والا رسالہ زبانی یاد تھا۔ آج کل تو بازاروں میں صرف تیس سروں والے رسالے ملتے ہیں اور چھتیس سروں والا رسالہ شاید کسی کے پاس موجود ہو۔ بقول فقیر کہ میں نے بیت کی ابتداء رسالے کے ابتدائی سر "کلیان" کے پہلے بیت سے تقریباً نو بجے سے کی اور سردی کی رات تھی اور چند بیت پڑھنے کے بعد میں اپنے ہوش وحواس کو کھو بیٹھا اور صبح فجر کی نماز کے وقت مجھے کسی نے بازو میں پکڑ کر جھنجھوڑا مجھے ہوش آیا کہ میں رسالے کا تیسواں سر پڑھ رہا ہوں اس وقت ازدمام میں چند آدمی بیٹھے تھے اور وہ غلط بیت کہنے والا فقیر اپنے گروہ سمیت رفو چکر ہوچکا تھا۔ مجھے نواب نے شاباش دی اور مجھ سے اپنی پہلی گستاخی کی معافی مانگی اور کہا کہ اے فقیر میرے پاس اصل رسالہ موجود تھا تو.بیت پڑھتا تھا اور میں رسالے میں دیکھتا جاتا تھا تونے سب بیت بلکل صحیح پڑھے ہیں۔میرے طرف سے یہ سو روپے کا ادنیٰ انعام لے۔ بقول فقیر کہ اس وقت سو روپے کی کافی قیمت تھی۔

          ہجراں نصیب 

فقیر عظیم کو سردار امیدعلی نے اپنے پاس رکھا تو ان سے ہم صحبت ہونے کے بعد فقیر عظیم بے حد سردار امیدعلی خان سے شیرو ہو چکے تھے۔اب فقیر کو سردار سے جتنی کوزش تھی اس کا اندازہ لگانا بہت ہی مشکل ہے جس طرح کہتے ہیں کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اس مصداق امیدعلی صاحب کو بھی ان سے والہانہ لگاوُ تھا۔سردار امیدعلی خان ہمیشہ فقیر عظیم کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔افسوس یہ کہ موت کے ظالمانہ ہاتھ نے دونوں کو ایک دوسرے سے جلد جدا کردیا مورخہ 28 مارچ 1974 بروز جمعرات بوقت 8 بجے کراچی ہسپتال میں علالت کے سبب اقوام چھٹہ کے قومی سردار امیدعلی صاحب اپنی قوم کو ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گئے۔ اسی رات انکی میت ایمبولینس کے ذریعے ان کے آبائی گاوُں واقع تحصیل دریجی صبح 5بجے لائی گئی سردار کی اچانک موت پر پورے دریجی میں ایک کہرام مچ گیا۔ہر ایک دھاڑیں مارکر پیٹ رہے تھے اس سانحہ کے بارے میں کیا لکھوں؟ قلم میں مارا نہیں زبان میں قدرت نہیں کہ اس الم ناک واقعہ کا ذکر کرسکے ۔جس نے پوری ایک قوم اور ایک پورےخاندان کے چین وراحت کو لوٹ لیا۔بیٹوں کے سر سے شفقت ومحبت کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور بیٹیوں کے سر کے دوپٹے گر گئے۔انکا میکا اجڑ گیا کہہ نہیں سکتا ہمت نہیں پڑتی کیونکہ آج سردار امید علی اپنی قوم اور اپنے اولاد کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ گیا۔

وائے  گلچین ازل کیا  تجھ سے نادانی ہوئی 
پھول وہ توڑا کہ گلشن بھر میں ویرانی ہوئی 

کارکنان قضا وقدر کے بعد ابوالعجبیوں کے تماشے اور بھی دیکھے تھے لیکن یہ سانحہ موت کتنا بڑا طوفان ہے۔انکے تقدس اور زہد کا یہ عالم تھا کہ جب جنازہ اٹھا تو پورے محلہ میں ایک بار پھر کہرام مچ گیا لوگ بار بار میت سے لپٹ جاتے اور دھاڑیں مار مار کر پچھاڑیں کھاتے تھے۔حیادار اور باعصمت خواتین ماتم میں پردہ بھول گئیں۔فقیر عظیم پہلے ہی حساس اور بیمار ذہین والا شخص تھا انکو جس وقت امیدعلی صاحب کی شمع گل ہونے کی خبر سنی تو آپکو یہ منحوس خبر نے اسکی روح پر کوڑے برساتی ہوئی ابھری اور دو موٹے موٹے آنسو تھر تھر اسکے پلکوں سے ٹوٹ گئے۔ آپ کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور اس نے اپنا سر ماتھا پیٹ لیا بہت رویا بڑا گڑ گڑایا۔ خدائے برتر وبزرگ سردار امیدعلی کی برکت کا سایہ قوم پر ہمیشہ قائم وبرقرار رکھے! اور قلم میں اتنی طاقت کہاں کہ اس جانگداز مصیبت کا حال لکھ سکے اور روزسیاہ کی کیفیت کا ذرا سا بھی حال معرض تحریر میں لاسکے۔اور زبان میں اتنی قدرت کہاں کہ جو کچھ گزر چکا ہے ایسے ذہین نشین کرائے جو کچھ مصیبت قوم اور فقیر پر آئی ہے اگر سمندر پر پڑتی تو وہ خشک ہو جاتا اور اگر دن پر آتی تو اسکی کیفیت شب دیجور کی سی ہو جاتی ہر عقل جانتی ہے کہ اس قسم کے حادثات میں صبروشکیبائی سےبڑ ھکر اور کوئی بھی نہیں ہے کہ انسان رضا وتسلیم سے متعلقہ آیات الہی اور ارشادات رسالت پناہی کے روبر سر تسلیم خم کردے۔29 مارچ کی دوپہر 11بجے امیدعلی کی میت کو کوٹ قبرستان دریجی میں دفنائی گئی۔سردار امیدعلی کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی جن میں ملک سکندر مرحوم ایم۔این۔اے P.P.P سردار مینگل کے صاحبزادے ۔جام تماچی انڑ اور دیگر کئی معززین نے بھی شرکت کی۔

          ایک اور ہجر 

امیدعلی کی موت کے جانکاہ کی فقیر تاب قامت ضبط نہ کر سکے اور یہ صدمہ ہی کیا کم تھا ؟ بعد میں انکشاف سوہان روح بن گیا لیکن اس سے بڑا ایک اور صدمہ ان کی قسمت میں تھا اور وہ یہ کہ ابھی فقیر اپنے ہمدم کے صدمے کو بھلا نہ سکا کہ شاید قدرت نے انہیں ایک اور صدمہ دینا تھا۔ایسا ہی ہوا ۔چھ سال بعد فقیر کی زندگی کی ساتھی انکی رفیقہ حیات سونی بی بی نے فقیر کا ہمیشہ کے لئے ساتھ چھوڑ کر راہی عدم چلی گئی۔ تب فقیر کا آن کی آن خواہشوں کا یہ شیش محل زمین بوس ہوگیا۔ظاہر ہے ایسی صورت میں اگر ہر معاملے میں انسان ناکامی کا منہ پڑے ۔زندگی کا ہر میدان ان کے لئے شکست کا سامان پیدا کرے تو ظاہر ہے ایسی صورت میں دل برداشت ہوگی اور زندگی انکے لئے درد کا اک جام بن جائے گی اسے اپنا وجود ہی اس عظیم کائنات میں بے معنی لگے گا اور نہ دنیا راس آئے گی اور نہ وہ دنیا کو راس آئے گا۔کیونکہ جب زندگی کی سب سے بڑی آرزو میں ناکامی ہوتی ہے تو پھر دنیا کی کوئی کامیابی انہیں خوشیوں سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔ یہ فقیر کے نصیب کی بات ہے کہ پہلی عمر کی محبت اور پچھلی عمر کی عبادت قسمت والوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔ سونی بی بی کے اچانک بچھڑنے کے بعد فقیر کے حالات میں اس قدر تبدیلی آئی جس سے وہ بری طرح متاثر ہوا۔وقت نے سرکش گھوڑے کی طرح پانسہ پلٹا اور پھر قسمت کا مسافر کبھی نہ سنبھل سکا اور انکی زندگی کا ایک نیا رخ کا آغاز ہوا۔ اس صدمے کے باعث فقیر عظیم نے تازیست بستر پر پڑے رہتے اور اپنی بقیہ زندگی بستر پر رہ کرگزاری۔ جب سابق ڈپٹی کمیشنر ٹھٹھہ امداد سرائی کو فقیر کے علیل ہونے کی خبر ہوئی تو اخبار کے ذریعے شاہ صاحب کے والہ وشیدہ کے علاج کے لئے سندھ کے عوام سے پر زوراپیل کی کہ وہ شاہ صاحب کے فقیر کے علاج کے لئے تعاون کریں اور فقیر کو کراچی میں " صغرا بائی مل" ہسپتال ناظم آباد میں علاج کی غرض سے ایڈمٹ کر دیا۔ڈاکٹروں نے لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق حسب الببول (According to urine) کے سبب انکی آپریشن کی۔ ہسپتال کے دوران خواب میں فقیر نے شاہ صاحب کو دیکھا شاہ صاحب نے شکوہ کیا کہ اے فقیر تم نے میری ہرنیا والی آپریشن کے ساتھ ایک اور آپریشن کروادی ہے۔بقول فقیر میں نے شاہ صاحب سے عرض کی میں اپنی ضعیفی کی وجہ سے لاچار ومجبور تھا ۔ان لوگوں نے مجھے احساس ہمدردی کی بناء لاکر ہسپتال ایڈمٹ کروایا۔ ڈاکٹروں نے ٹیسٹ لیبارٹری کے مطابق "حسب الببول" کے سبب میری آپریشن کروانا لازمی قرار دیا۔ مجھے خود آپریشن کا وہم گمان میں نہیں تھا کہ ایسا ہوگا۔ میں معافی چاہتا ہوں آپ ناراض نا رہیں بلکہ میرے لئے دعا کریں۔اس پر شاہ نے میری طبیعت کی صحتیابی کی دعا کی۔ چند روز ہسپتال میں رہنے کے بعد جب فقیر کی طبیعت بہتر ہوئی تو انہیں ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا۔ اور امداد سرائی نے کچھ روز اپنے پاس رکھا ان سے شاہ صاحب کے ابیاز سنے اور لکھے۔بعد میں فقیر کو گھر پہنچایا۔تقریباً ایک سال اسکی طبیعت میں بہتری رہی مگر پچھلے صدموں اور عمر کی وجہ سے دوبارہ چارپائی کو ساتھی بنا لیا۔ فرط غم سے ہفتوں کھانا پینا ترک کر دیا۔ مورخہ 9 نومبر 1982ء بمطابق ٢٣ محرم ١۴٠٣ء بروز منگل صبح 10 بجے فقیر کی روح پرواز کر گئی ۔ اس طرح سندھ دھرتی اک اور حافظ لطیف سے محروم ہوگئی۔.