سنی دعوت اسلامی: ایک آئیڈیل تحریک تحریر: علامہ قمرالحسن بستوی (ہوسٹن ،امریکہ) پیش کش:مظہر حسین علیمی (ممبءی) اہل سنت وجماعت کی دعوت وارشاد کی عالمی تحریک سنی دعوت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں اس سال یعنی دسمبر ٢٠١٥ء میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ۔مورخہ ١١۔١٢۔١٣دسمبر جمعہ ،سنیچراور اتوار کو خطاب کرنے کا شرف بھی میسر آیا۔جشن سیمیں (سلور جوبلی )کے سنہرے موقع پر تحریک کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔تحریک کے اغراض و مقاصد نیزمستقبل پر گرفت کے حوالے سے بھی امیر سنی دعوت اسلامی محترم حضرت مولانا محمد شاکر نوری صاحب قبلہ سے بھی معلومات حاصل ہوئیں ۔میں اپنے خیالا ت کی بنیاد پر یہ کہہ سکتاہوں کہ تحریک اپنے مقاصد میں صدفی صد کامیاب ہے ۔ اس کا تنوع ،کام کرنے کا جدیدانداز،حالات پر گہری نظر ،اسلامی اقدار کی ترویج واشاعت سبھی کچھ تحریک کے دامن میں جمع ہے ۔اس کے سالانہ اجتماع کی کامیابی خود اس کی مقبولیت کی منھ بولتی دلیل ہے ۔وادیِ نور (آزاد میدان) کا ہر سہ روزہ لاکھوں افراد سے بھراہونااس بات کی دلیل ہے کہ تحریک دلوں میں جگہ بناچکی ہے اور لوگوں کا اعتماد حاصل کرچکی ہے ۔ فالحمد للہ ! ایک طرف جہاں دعوت وارشاد کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلا ہواہے وہیں بیرون ممالک بھی اس کی شاخیں کام کررہی ہیںاور خوشی کی بات یہ ہے کہ نئی نسل اس کو قبول کررہی ہے اور اس سے اکتساب کرکے نہ صرف ایک دین دار مسلمان بلکہ ایک اچھاانسان بھی بن رہی ہے ۔امیر تحریک کے بیانات سے مغربی ممالک میں نوجوان نسل جوبے راہ روی کا شکار تھی ایک اچھامسلمان اور اچھاانسان بن چکی ہے ۔ دوسری طرف تحریک نے تعلیمی حوالے سے جومعیاری کام کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔جیساکہ امیر دعوت نے بتایاکہ پورے ملک وبیرون کم ازکم ایک سو گیارہ اداروں کو جدیدطرزتعلیم مع علوم اسلامیہ قائم کرناہے جبکہ اس میں کے اکثر قائم ہوچکے ہیں ۔چناں چہ ١٤ دسمبر بروزپیر ایک خصوصی وژٹ کے ذریعہ شہر بھیونڈی سے متصل آبادی مہاپولی کادورہ کرایاگیاجہاں جامعہ حرانجم العلوم مہاپولی کی زیارت سے مشرف ہوئے وہیں اس کے ٹھیک بغل میں حراانگلش اسکول مہاپولی کی زیارت ہوئی ۔یہ امیر تحریک کی ژرف نگاہی اور بلند فکری ہے کہ انھوں نے من لم یعرف اھل زمانہ فھوجاہل (جس نے زمانے والوں کو نہیں پہچاناوہ جاہل ہے) کے فارمولے کو پیش نظر رکھ کردونوں جہتوں میں اعتدال وتوازن قائم رکھاہے ۔ آج کے دور میں علوم دینیہ ساتھ عصری علوم اور لسانی مشق وشناخت تبلیغ کے لیے ضروری ہے ۔اسلام کے خلاف اٹھنے والے طوفان کارخ موڑنے کے لیے علما کو بنیادی دلائل کے ساتھ عصری تجربات اگرہوں گے تو ان کی تبلیغ زیادہ مؤثر اور کار گر ثابت ہوگی،اور یہ چیزیہاں آکر مشاہدے میں آئی۔بارک اللہ فیہ۔ ایک طرف جہاں محاسن تعلیم سے طلبہ کو آراستہ کیاجاتاہے وہیں اخلاقی قدروں کا پیکر بھی بنادیاجاتاہے ۔اس وقت اخلاقیات کی کساد بازار ی ہے اور ہمارے دینی مدارس سے ہمارے بزرگوں کی روش آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔اس وقت اور ایسی صورت میں اور وہ بھی عروس البلاد ممبئی عظمیٰ میں طلبہ کا اخلاقی اندازاور طور طریقہ دیکھ کر دل سے دعائیں نکلیں کہ مولاناموصوف نے ان کے رگ و ریشے میں تہذیب ، شائستگی ، قدردانی اور آداب واخلاق کو پیوست کردیا ہے ۔طلبہ کودیکھاکہ وہ مسلکی تحفظات اور دینی ترجیحات میں ممارست رکھتے ہیں ۔ذٰلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ۔ یہ کہاجاسکتاہے کہ سنی دعوت اسلامی مستقبل کا ایساآئینہ ہے جس میں دین متین کی ہرکرن جگمگاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔مزیدمستزاد یہ کہ جس طرح بچوں پر دینی فکر اور روح کو غالب کرنے کے انتظامات کیے گئے ہیں اسی طرح بچیوں کے لیے بھی خصوصی انتظامات ہیں تاکہ بچیاں بھی دین متین کی تعلیم سے آراستہ ہوکر دین کی خدمات انجام دیں ۔علاوہ ازیں تصنیف وتالیف کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور نہ صرف یہ کہ دینی اور اصلاحی کتب ہی اس مکتبہ سے شائع ہوتی ہیں بلکہ مسلک اہل سنت و جما عت کی صیانت وحفاظت جس نہج سے بھی ہوسکتی ہے اسے بروے کار لایا جاتاہے چناں چہ مولانامحمدشاکر صا حب نے اجتماع کے بعد جوکتابیں تحفہ کیں ان میں مولاناتوفیق احسنؔ برکاتی کی تصنیف ممبئی عظمیٰ کی مختصر تاریخ بھی تھی جو اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم اور ممبئی کی سنی تاریخ کی دستاویزی حیثیت کی حامل ہے ۔نیزعلماے اہل سنت کی دیگر مطبوعات بھی اشاعت پذیر ہوتی ہیں ۔من جملہ سنی دعوت اسلامی عصرحاضر کی جامع ،ہمہ گیر اور کامیاب تحریک ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کو مزید ترقی عطافرمائے اور اس سے بیش از بیش کام نیزاس کو اہل سنت کا ایک علامتی تشخص بنادے ۔ آمین بجاہ حبیبہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم (ماخوذازماہنامہ سنی دعوت اسلامی شمارہ ۵۔۲۰۱۶ء)