Mirza Hafeez Aoj
تعارف
ترمیممرزا حفیظ اوج کا تعلق درس و تدریس کے شعبے سے ہے اور عرصہ بارہ سال سے اسی پیشہ کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مرزا حفیظ اوج شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نثر نگار بھی ہیں، حال ہی میں ان کی ایک نعتیہ کتاب ذکر منیر منصہء شہود پر آچکی ہے۔ شاعری کی اصناف میں حمد، نعت، مناقب، غزل اور نظم میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور نثر میں مضامین، کالم، افسانے، ناول اور دیگر اصناف نثر میں لکھ چکے ہیں۔ مرزا حفیظ اوج کا تعلق پاکستان کے شہر ملتان سے ہے[1] مرزا حفیظ اوج غضنفر ادب اکیڈمی پاکستان کے نائب صدر ہیں
نمونہ کلام
ترمیمکونین میں ہیں صاحبِ اسریٰ حضور آپ
دیدار یابِ حسنِ معلی حضور آپ
جبریل بوسہ لے کے کفِ پائے شاہ کا
کہتے ہیں چلیے جانبِ سدرہ حضور آپ
مشتاقِ عشق، حسنِ معلی ہے آج خود
ہیں آج صدرِ بزمِ معلی حضور آپ
سارے نبی ہیں مقتدی اقصیٰ میں آپکے
اور مقتدائے افضل و اعلیٰ حضور آپ
باغِ جنان و عرشِ معلی سجے ہیں آج
چلئے کے بزمِ اسریٰ کے دولھا حضور آپ
رف رف، براق، روحِ امیں پیچھے رہ گئے
طے کر رہے تھے راہ وہ، تنہا حضور آپ
قصرِ دنیٰ میں اور رسا کون ہو سکا
قوسین کا بس ایک حوالہ حضور آپ
اللہ رے یہ اوجؔ کہ زیرِ قدم ہے عرش
کون و مکاں سے آج ہیں بالا حضور آپ[2]
آپ شمس الضحیٰ، آپ نور الہدیٰ
آپ ماہِ مبیں، آپ بدر الدجیٰ
”کُن“کے روح رواں، آپ جانِ جہاں
سیدِ کن فکاں، اے شہہِ دوسرا
یا نبی یا نبی یا نبی یا نبی
جا بجا ہے یہی ذِکرِ خیر الوریٰ
یا رسولِ عرب یا رسولِ عجم
اے نبیء اُمم آپ قبلہ نما
بے سہاروں کو حصرِ اماں آپ ہیں
مجرموں غم کے ماروں کے حاجت روا
ذاتِ حق جن پہ جلوہ نما ہو گئی
میرے آقا سے کچھ بھی نہیں ہے چھپا
انبیأ سارے اقصیٰ میں تھے مقتدی
اے زہے سرورا، سیّدا، مقتدیٰ
آپ ارفع و اعلیٰ ز کونین ہیں
اوجؔ کونین در پر ہیں ان کے گدا[3]
انبیائے سابقیں ہیں سب نجوم و ماہ تاب
سب کا شمس المرسلیں ہے آپ ہی سے اکتساب
رفعتوں میں عظمتوں میں آپ کا ثانی نہیں
درگروہِ انبیا ہیں آپ وہ عزت مآب
رات نے خیرات پائی ہے نبی کی زلف سے
چہرہء سرکار سے ہے پُر ضیا یہ آفتاب
انعکاسِ حسنِ اکمل کی تواں رکھتے نہیں
”پر توِ روئے نبی سے آئنے ہیں آب آب“
بالیقیں شہ رگ سے بھی اَقرب ہے رب العالمیں
اور رسولِ پاک بھی جانوں سے اَقرب ہیں جناب
رحمتِ حق سے نہ ہوں مایوس اُنکے کلمہ گو
جو شفاعت کا سہارا رکھتے ہیں روزِ حساب
اوجؔ ِ قسمت پر ہی رہتے ہیں نبی کے فیض سے
ہم غلامانِ محمد، ہم ثنا خوانِ جناب[4]
حصارِ کریمی
میں بعد از حمد، نعتوں سے جو دن آغاز کرتا ہوں
درودوں کی صداؤں میں
سلاموں کی ردواؤں میں
عطاؤں ہی عطاؤں میں
کریمی گھیر لیتی ہے
مرے ہر کام کی جیسے کوئی تسہیل کرتا ہے
مجھے تشکیل کرتا ہے
مری تکمیل کرتا ہے
کریمی گھیر لیتی ہے
مرا رُخ پھیر لیتی ہے
درِ جانانِ عالم سے مجھے وہ ربط دیتی ہے
مرے سیلِ محبت کو شعارِ ضبط دیتی ہے
سلیقہ بخش دیتی ہے
حیاتِ جاودانی کا
فرازِ زندگانی کا
مرا روشن دِیا کر کے مجھے دستور دیتی ہے
نظامِ ضو فشانی کا
پیمبر کی نشانی کا
نظامِ ضو فشانی کا مجھے دستور دیتی ہے
مرے شب زاد سے دل کو
عجب سا نور دیتی ہے
مرے رعشہ زدہ ہاتھوں کو تابِ موسوی دے کر
چراغِ طور دیتی ہے
مجھے اک نور دیتی ہے
بہ اوجؔ ِ طور دیتی ہے
عجب منشور دیتی ہے
مجھے بس نور دیتی ہے
کریمی گھیر لیتی ہے
مجھے بس نور دیتی ہے
یہی منشور دیتی ہے[5]
ذکر منیر جنوری 2020ء میں طبع ہوا اور یہ موصوف کا پہلا نعتیہ مجموعہ ہے اور اس کتاب کے کل صفحات کی تعداد 144 ہے ۔ موصوف نے کتاب کا انتساب اپنے والد مرزا حبیب احمد اور والدہ محترمہ نسیم اختر کے نام کیا ہے ۔ اس کتاب میں پہلا مضمون عباس عدیم قریشی کا ہے اور دوسرا مضمون جناب نور الحسن نور نوابی کا ہے جبکہ کتاب کا پیک فلیپ صبیح رحمانی کا لکھا ھوا ہے جبکہ کتاب کے گرد پوش کا دائیں فلپپ شیر افگن خان جوہر کا تحریر کردہ ہے اور بائیں فلیپ پر مصنف کا تعارف رقم کیا گیا ہے۔ ذکر منیر کے بارے میں صبیح رحمانی کچھ اس طرح لکھتے ہیں:
'ذکر منیر " مرزا حفیظ اوج" کی عقیدت و مودت کا ایک مرقع ہے جس میں مدحت ِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چراغ روشن کیے گئے ہیں ۔ اس نعتیہ کلام میں جذبے کے وفور کے ساتھ فکر کی چھوٹ بھی پڑتی دکھائی دیتی ہے ۔ زبان و بیان کے معیار کبھی لحاظ رکھا گیا ہے اور ساتھ ہی نئے پیرائے بھی تراشے گئے ہیں'