Happy Mother's day

  • ھیپی مدرز ڈے *

آج ابھی کچھ دیر پہلے فیسبک کا اکاونٹ کھولا تو سامنے لکھا ہوا آیا :

Happy Mother's Day

عجیب سا احساس دامن گیر ہوگیا کہ ان فرنگیوں نے بھی ہرچیز...ہر رشتے کو محض وقت کے ساتھ خاص کردیا ہے... حالانکہ بعض رشتے اورخاص کر والدین کا رشتہ ایسا ہے کہ اس جیسا عظیم رشتہ جس کا دنیا ومافیھا میں کوئی نعم البدل نہیں... ایسے رشتے جو زمان ومکان اوروقت کی قید سے ماورا ہیں... ان رشتوں کو وقت کے ساتھ قید کرنا اور انہیں صرف انہی مخصوص ایام میں یادکرنا خود اپنےساتھ نا انصافی کے مترادف ہے... وہ کیا جانیں ان رشتوں کی قدر جن کےہاں رشتوں کی حیثیت صرف ایک ریلیشن کی حد تک محدود ہے... ہمارے نزدیک تو ہردن، ہر لمحہ اور ہرساعت مدرز ڈے بھی ہے اور فادرز ڈے بھی... الحمدللہ....! بحیثیت مسلمان ہمیں فخر ہے اسلام جیسے عظیم مذھب پر اور حضورِ پرنور صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہوں جنہوں نے ہمیں ان رشتوں کی پاکیزگی اور ان رشتوں کے تقدس سے روشناس کروایا...اور بتایا کہ والدین کا مقام اور مرتبہ کیا ہے بلاشبہ ان والدین کی اہمیت اور قدر و منزلت کو جس طرح دین اسلام نے بیان اور اجاگر کیا ہے وہ کسی اور نے نہیں کیا....

کہتے ہیں کہ محبت کی ابتداء اور انتہاء کو دنیا میں ناپنے کا اگر کوئی پیمانہ ہو تو وہ صرف اور صرف ایک لفظ میں مل سکتا ہے اور وہ لفظ ہے "ماں"... دنیا کے سارے رشتے ناطے ایک طرف اور ماں جیسا لازوال رشتہ ایک طرف.... ماں...محبت کی وہ ابتداء ہے جو اپنی اولاد کو نو مہینے اپنے پیٹ میں پالتی ہے...ان نو مہینوں میں وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دنیا میں آنے والے اس بچے کے لئے خود سراپا دعا بن جاتی ہے...وہ بچہ جو ابھی دنیا میں آیا بھی نہیں ہوتا اس کی خاطر وہ کس کس تکلیف سے نہیں گزرتی لیکن مجال ہے کہ ایک ذرا سی شکن بھی اس کے ماتھے پر اس اولاد کے لئے آتی ہو جو آنے سے پہلے ہی اسے تکلیف میں مبتلا کردیتی ہے.... وہ اولاد جو کبھی یہ احساس نہیں کرپاتی کہ کس کس تکلیف سے گزر کر اس کی ماں نے اسے اس مقام تک پہنچایا ہوتا ہے جس مقام پر وہ آج ہے... کسی نے کہا ہے ..

"اس طرح میرے گناہوں کو دھو دیتی ہے ماں بہت غصےمیں ہوتی ہےتو رو دیتی ہے" .... "ایک مدت سے ماں نہیں سوئی تابش میں نےایک بارکہاتھا مجھے ڈر لگتاہے" .... "لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی بس ایک ماں ہےجومجھ سےخفانہیں ہوتی !" .... واقعی ماں اپنی اولاد سے کبھی ناراض نہیں ہوتی کیونکہ وہ سراپا شفقت ہوتی ہے...اولاد خواہ کچھ بھی کرلے...ایک ماں ہی ہوتی ہے... جو سب کچھ بھول بھال کربھی...اپنی اولاد کو اپنے گلے سے لگالیتی ہے... یہی وجہ ہے کہ اس ماں کا اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں رکھا... والدین میں ماں سے محبت بھی اولاد کو فطری طور پر بے تحاشہ ہوتی ہے... لیکن...جب وہ دنیا سے چلی جاتی ہے تو اس وقت ایسامحسوس ہوتا ہےکہ دنیا اندھیری ہوگئی.... میری والدہ محترمہ کی جب رحلت ہوئی تو اس وقت بعینہ میری بھی یہی کیفیت تھی... اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی صفت رحیمی کو ماں کے ساتھ خاص کر کے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سو ماؤں اور بعض کے مطابق ستر ماؤں سے زیادہ رحیم ہے...

"آتی نہیں ہے کہیں سے ٹھنڈی ہوا جابسی ہےقبرمیں جب سےمیری ماں!" ...

آپ نے اپنے اطراف میں کبھی چرند و پرند کو دیکھا ہے....؟ ایک چڑیا اپنے بچے کی خاطر سانپ جیسے قوی الحبشہ سے بھی لڑجاتی ہے... کبھی غور کیا ہے کہ کیوں....؟ " ماں کی ممتا " ہی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی خاطر اپنی جان پہ کھیل جاتی ہے لیکن اپنی اولاد کو آنچ تک نہیں آنے دیتی... ممتا کا یہ وہ جذبہ ہے جو صرف انسانوں میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ جانوروں اور پرندوں تک میں پایا جاتا ہے... اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھا ہے... قرآن کریم میں ان کے مرتبے کو کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے کہ " ولاتقل لهما اف " کہ ان کو اف تک نہ کہو...

یہ ماں ہی ہوتی ہے جو انتہائی بھوک کے عالم میں بھی اپنےمنہ کانوالہ اپنی اولادکیلئےچھوڑ دیتی ہے اور پھر کہتی ہے "بیٹا تم کھالو مجھے بھوک نہیں ہے"...

ہمارے ایک استاد ہیں اللہ تعالیٰ ان کو صحت وتندرستی عطاء فرمائے وہ فرمایا کرتے تھے کہ "ماں سے محبت کرو ان کا احترام کرو اس لئے کہ ماں کی پریشانی کو دیکھ کر ہی اللہ تعالیٰ نے صفامروہ کو حج کا رکن بنایا... ذرا یاد کیجئے وہ منظر... جب اسماعیل ذبیح اللہ طفل تھے اور رب کے حکم پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنی اہلیہ اور نومولود طفل کو مکہ کی اس بیابان وادی میں تن تنہا چھوڑ کر چلے گئے... جہاں نہ پانی تھا نہ سبزہ نہ اورکچھ... صرف ایک ماں اور ان کا نومولود طفل... اور طفل بھی وہ جو اپنے وقت کانبی تھا... یادکیجئے وہ منظر.... جب مارے پیاس کے حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنی ایڑیاں زمین پہ رگڑ رہے تھے تب اس ماں حضرت ہاجرہ علیھا السلام نے پانی کی تلاش میں جو سات چکر صفا اور مروہ پہاڑی کے درمیان کاٹے تھے جس میں وہ کبھی تیز چلتیں توکبھی ہلکے اس پہاڑی سے اس پہاڑی پر ایک طویل فاصلہ طے کرتیں آخرکس لئے اس اولاد کی خاطر... اس ماں کی یہ ادا رب کریم کو ایسی بھا گئی کہ ان سات چکروں کو جو ایک ماں نے اپنی اولاد کی پریشانی میں کاٹےتھے قیامت تک آنے والے ہر اس انسان کے لئے لازمی کر دئیے جو حج کا فریضہ بجالاتا ہے... سبحان اللہ ...! (ماں کی پریشانی اور ان کی یہ ادا جسے ہم آپ ادا کرتے ہیں جب عمرے یا حج کے لئے جاتے ہیں اور صفا مروہ کے درمیان جب سعی کرتے ہیں توکبھی سعی کرتے وقت یا سعی سے فارغ ہوکر ایک کونے میں بیٹھ کے اس منظر کو یاد کیجئے تو اس سعی کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے....) اس لیے گزارش اتنی سی ہے کہ وہ احباب جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بھی حیات ہیں وہ ان کی قدر کریں اور ان کی خدمت کر کے اپنی دنیا وآخرت کو سنواریں اور جن کے والدین اس دنیا سے جاچکے ہیں وہ ان ھستیوں کے لئے ایصال ثواب کریں اور روز کریں اس لیے کہ حدیث میں آتا ہےکہ " انسان جب اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے اعمال بھی منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین اعمال کے ان تین اعمال میں سے ایک نیک اولاد بھی ہے جو اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ ہے جو والدین کے چلے جانے کے بعد بھی ان کے لیے نیک اعمال اور ایصال ثواب کرتی رہتی ہے... اللہ تعالیٰ ہمیں ان عظیم رشتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے والدین کی قبروں کو روشن اورمنور فرمائے...آمین

اللھم رب الرحمھما کما ربیانی صغیرا....!!

یاسرحبیب