صوبہ کابل (پشتو: کابل، انگریزی: Kabul Province) مشرقی افغانستان میں واقع چونتیس صوبوں میں سے ایک ہے۔ اس صوبے کا صدر مقام کابل شہر ہے جو افغانستان کا دار الحکومت بھی ہے۔ صوبہ کابل کے حالیہ گورنر حاجی دین محمد ہیں۔

صوبہ
نقشہِ افغانستان میں کابل صوبہ
نقشہِ افغانستان میں کابل صوبہ
ملک افغانستان
دار الحکومتکابل
حکومت
 • گورنراحمدالله عليزئی
رقبہ
 • کل4,462 کلومیٹر2 (1,723 میل مربع)
آبادی (2012)[1]
 • کل3,950,300
 • کثافت890/کلومیٹر2 (2,300/میل مربع)
نام آبادیکابليان/کابلی
منطقۂ وقتUTC+4:30
آیزو 3166 رمزAF-KAB
اہم زبانیںپشتو
دري

جغرافیہ ترمیم

 
کابل اور جلال آباد درمیان ایک وادی، دریائے کابل بھی واضع ہے

صوبہ کابل سطح سمندر سے 1800 میٹر (6000 فٹ) بلندی پر واقع ہے جو دنیا میں سطح سمندر سے بلند دارالحکومتوں میں سے ایک ہے۔ کابل کا مرکز پہاڑوں کے درمیان واقع ہے جہاں شمال جنوب اور مشرق سے مغرب کی جانب کئی تجارتی شاہراہیں گزرتی ہیں۔ ایک ملین سال پہلے کابل کا علاقہ لوگر اور پغمان کے پہاڑوں، چریکار شمال اور ننگرہار کے پہاڑی سلسلے میں گھرا ہوا تھا۔ اس وقت یہ برفانی علاقہ تھا اور یہاں برف کے بہت بڑے تودے یا گلیشئیر ہوا کرتے تھے۔ یہ تودے بتدریج پگھلتے رہے اور یہاں بارشوں اور سیلابوں کے سبب وادی میں پانی بھر گیا۔ کئی گہرے کنویں جو اب بھی شہر کے مشرقی حصے میں موجود ہیں اس وقت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ وادی کابل مشرق میں کوہ پغمان، کوہ قروغ جنوب مغرب، کوہ شیر دروازہ شمال مشرق میں گھرا ہوئی ہے۔ یہاں ایک ہی دریا بہتا ہے جو دریائے کابل کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دریا کوہ پغمان سے بہتا ہوا شہر کے جنوب کی جانب 70 کلومیٹر تک بہتا ہے جو مغرب کی جانب ہے۔ یہ مشرقی سمت میں بہتا ہے اور کابل سے ہوتا ہوا جلال آباد اور پھر پاکستانی علاقہ میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں یہاٹک کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔
کابل میں موسم خشک رہتا ہے اور مئی سے نومبر کے دوران انتہائی خشک موسم دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں درجہ حرارت انتہائی تیزی سے تبدیل ہوتا ہے جو رات و دن، مختلف موسموں اور جگہوں میں انتہائی تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ افغانستان کے موسمی حالات غیر معمولی ہیں جہاں ہمہ وقت بغیر بادلوں کے نیلا آسمان رہتا ہے اور سال کے 300 ایام سورج چمکتا ہے۔ سردی کے دنوں میں بھی یہاں برفباری کے دوران آسمان صاف رہتا ہے، حالانکہ یہاں ہر سال ایک فٹ تک برفباری ہوتی ہے۔ موسم سرما میں درجہ حرارت 15- ڈگری جبکہ موسم گرما میں 15 سے 30 ڈگری سیلسیس رہتا ہے۔ سال کا سب سے سرد مہینہ جنوری ہوتا ہے اور گرم ترین مہینہ جولائی ہے۔

تاریخ ترمیم

 
کابل کے علاقے پغمان میں ایک یادگار

کابل کی معلوم تاریخ تقریباً 5000 سال پرانی ہے۔ یہ بیک وقت ہندو مت اور بدھ مت کا مرکز رہا ہے۔ عربوں نے اس علاقہ کو ساتویں صدی میں فتح کیا اور کابل کی ہندو شاہی نے اس علاقہ کو تھوڑے عرصے میں واپس لیا۔ سلطان محمود غزنوی نے 1002ء میں اس شہر کو فتح کیا اور جنگ میں ناکامی کی وجہ سے اس وقت کے ہندو راجا جے پالا نے خودکشی کر لی تھی۔
اس کے بعد سے تقریباً عرصہ کابل خود مختار علاقہ تصور کیا جاتا رہا ہے اور 1700ء میں درانی حکمرانوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1839ء میں پہلی جنگ افغان میں برطانوی فوجوں نے کابل پر قبضہ کیا۔ 1842ء میں انگریز حکومت نے کابل کے افغانوں کے ساتھ ایک معایدہ کے تحت کابل سے فوجیں واپس بلا لیں، اس معایدہ کے تحت افغان برطانوی حکومت کے وفادار رہنے اور دو طرفہ حملوں سے گریز پر متفق ہوئے تھے۔ گو اس معایدہ پر عمل درآمد ہوتا رہا لیکن اس دوران برطانوی فوج کے ایک یونٹ نے کابل شہر کے ایک حصے کو آگ لگا دی جس کے بعد یہاں حالات کشیدہ رہے اور وقتاً فوقتاً دو طرفہ جھڑپیں نقصان کا باعث رہیں، بعد ازاں 1879ء میں برطانوی فوجوں نے یہاں مکمل قبضہ کر لیا۔ برطانوی افواج کا یہ حملہ ان کے چند افسران جو یہاں رہائش پزیر تھے کو ذبح کرنے کے بعد کیا گیا۔ 23 دسمبر 1979ء کو سویت افواج نے کابل کے ہوائی اڈے پر قبضہ کیا اور یہاں کمیونسٹ حکومت تشکیل دی۔
سویت افواج کے افغانستان میں دس سال قیام کے دوران کابل مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ فروری 1989ء میں سویت فوج نے افغانستان کے اس علاقے سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ کلیدی حصوں پر افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست کے سامنے کے بعد سویت حکومت قائم رہنا ممکن نہ رہا۔ اس شہر میں سویت فوجوں کے انخلاء کے بعد بڑی تباہی ہوئی کیونکہ افغان جہاد میں شامل اتحادی ٹکڑوں کے مابین پر تشدد جھڑپوں کا خمیازہ اس مرکزی صوبہ و شہر کو ادا کرنا پڑا۔ 1996ء میں طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور یہاں اسلامی حکومت قائم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ کابل شہر کو دار الحکومت بنا دیا گیا یہاں اسلامی شریعت نافذ کر دی گئی۔ افغان قبائل کے بیشتر افراد اس اسلامی حکومت سے مطمئن جبکہ کئی ناخوش بھی تھے۔ 12 نومبر 2001ء کو امریکی قیادت میں نیٹو افواج نے کابل پر قبضہ مکمل کر دیا، طالبان اور ان کی مرکزی قیادت شہر سے نکلنے پر مجبور ہو گئی۔ یہاں نئی حکومت تشکیل دی گئی اور بحالی کے کاموں کا آغاز کیا گیا۔

سیاست ترمیم

 
افغان جرگہ کے عمائدین

کابل تاریخ میں مختلف حکمرانوں اور جنگجو سرداروں کی سیاست کا محور رہا ہے۔ یہ صوبہ مختلف ادوار میں کئی سیاسی جماعتوں اور جنگجو سرداروں کے قبضے میں رہا۔ اس صوبہ پر قبضہ دراصل افغانستان کی حکومت کی بھاگ دوڑ سیاسی طور پر حاصل کرنے کے مترادف رہی ہے۔ 1996ء میں طالبان کے قبضہ سے پہلے یہ علاقہ مختلف جماعتوں کے زیر اثر رہا اور 1996ء میں اس کی سیاسی حیثیت یکسر تبدیل ہو گئی۔ کابل کی سیاست اسلامی رجحانات کے جانب مائل ہو گئی اور نئے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ یہ تمام قوانین طالبان کی مرکزی شوریٰ نے متفقہ منظوری سے نافذ کیے۔ طالبان کی حکومت قائم ہونے پر پورے افغانستان بشمول کابل کے ایک ہی حکمران یعنی ملا عمر نے انتظامی بھاگ دوڑ سنبھالی جو طالبان کے مرکزی امیر بھی تھے جنھوں نے گذشتہ ساٹھ سالوں میں پہلی بار تقریباً افغانستان میں ایک ہی حکومت کی عملداری ممکن بنائی۔ یہ حکومت اس وقت تک قائم رہی جب امریکہ نے 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر حملہ نہ کر دیا۔ اسلامی قوانین کو غیر موثر قرار دے کر صوبہ کابل سے نئے آئین کے نفاذ کا عمل شروع کیا گیا اور کابل کے بیشتر حصے میں بڑے پیمانے پر بحالی کا عمل شروع کیا گیا۔ لویہ جرگہ جو افغانستان کے نئے آئین کے تحت قائم کیا گیا تھا، اس جرگہ نے متفقہ طور پر سیاسی مسائل اور حالات کی بہتری کے لیے کابل میں نئے قوانین متعارف کروائے۔ انھیں قوانین کے تحت کابل کے شہریوں کو پہلی بار رائے شماری کا حق دیا گیا۔ گو افغانستان کے نئے آئین کی تمام افغانستان میں پوری طرح عملداری قائم نہیں ہو سکی ہے لیکن امریکی حملہ کے بعد اگر تمام تر سیاسی و انتظامی حالات اگر امریکا کی منشا کے مطابق رائج ہوئے ہیں تو وہ علاقہ صرف صوبہ کابل کاہے-
دو دفعہ معطل ہونے کے بعد جب 9 اکتوبر 2004ء میں پہلے افغان صدارتی انتخابات ہوئے تو تقریباً 8 ملین افغان شہریوں نے رائے شماری میں حصہ لیا۔ افغانستان کے متحدہ ادارہ برائے انتخابات نے 3 نومبر کو ان انتخابات کی توثیق کر دی اور حامد کرزئی کو افغانستان کا نیا صدر قرار دیا جنھوں نے %55 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ حامد کرزئی کے مضبوط حریف یونس قانونی نے صرف %16 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ انتخابات مکمل طور پر غیر جانبدار اور شفاف تھے، یونس قانونی سمیت دوسرے صدارتی امیدواروں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا۔ مبصرین کے خیال میں حامد کرزئی کو سرکاری وسائل اور امریکی حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے وہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے وگرنہ وہ افغانستان کی سیاست میں اتنی قد آور شخصیت ہر گز نہ تھے کہ افغان صدارتی انتخابات میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کر پاتے۔ عالمی سطح پر ایک کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا گیا، اس کمیشن کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق صدارتی الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی لیکن یہ اتنے بڑے پیمانے پر ہر گز نہ تھی کہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر اثرات ڈال سکتی۔ کئی لوگوں نے الزامات لگائے کہ انھیں حامد کرزئی کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا گیا جبکہ کئی دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ انھیں پیسے فراہم کیے گئے تھے۔
اس وقت افغانستان کی سیاست کا محور صوبہ کابل اور پھر مرکزی شہر کابل ہے۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کی مدد سے افغانستان میں نیا آئین نافذ کیا گیا ہے جس کی رو سے افغانستان کو اسلامی جمہوریہ بنا دیا گیا۔ یہ آئین جنوری 2004ء میں نافذ ہوا۔ اس آئین کے تحت کابل ملک کا مرکزی علاقہ ہو گا اور لوگوں کی رائے شماری کے تحت حکومت انتہائی مضبوط اور اختیارات کے حامل صدر کے ہاتھ میں ہو گی۔ صدر کے علاوہ دو نائب صدور اور ایک قومی شوریٰ بھی قائم ہو گی۔ اس شوریٰ کے دو ایوان ہوں گے، جنھیں ولیسی جرگہ اور مشرانو جرگہ کہا جاتا ہے۔ اسی آئین کے تحت پورے ملک میں عدلیہ کا نیا نظام نافذ کیا گیا ہے اور مرکزی عدالت کابل میں قائم کی گئی ہے۔ افغانستان کی عدالت عظمیٰ کو ستارا محکمہ کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ صوبائی سطح پر ہائی کورٹ اور اپیل عدالتیں بھی قائم کی گئی ہیں۔ صدر ایوان زیریں یا ولیسی جرگہ کے مشورے سے عدالت عظمیٰ کے ارکان کا تعین کرتا ہے۔

معیشت ترمیم

1960ء اور 1970ء کی دہائی میں صوبہ کابل کی معیشت کا دارومدار سیاحت پر تھا۔ کابل میں کپڑا سازی، کپاس کی پیداوار اور قالین سازی کی صنعتیں ہوا کرتی تھیں لیکن زیادہ تر صنعتیں بشمول سیاحت جنگ کی وجہ سے تقریباً تباہ ہو چکی ہیں۔ کابل میں قدرتی گیس، کپاس، اون، قالین، زراعت اور چھوٹے پیمانے کے کاروبار پائے جاتے ہیں۔ صوبہ کابل کا برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکہ، بھارت، جنوبی کوریا، کینیا، روس، پاکستان، چین اور ایران سے تجارتی معائدے ہیں۔ صوبہ کابل کی معیشت کو امریکی حملہ کے بعد بے پناہ تحفظ ملا ہے اور اس میں تقریباً %3500 بہتری آئی ہے جو گذشتہ پچیس سالوں میں جنگ کی وجہ سے انتہائی وگر گوں حالات سے دوچار تھی۔ افغانستان میں امریکی قبضہ کے بعد نئی کرنسی بھی متعارف کروائی گئی تھی، جس کی وجہ سے معیشت کو سہارا ملا۔ امریکی سرمایہ کاروں نے کابل میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اپنے کاروبار کی نئی شاخیں یہاں قائم کیں۔ نئے تعمیر شدہ کابل کے تجارتی مرکز میں 100 کے قریب دفاتر اور دکانیں قائم کی گئی ہیں جہاں زیادہ تر عالمی سرمایہ کاروں کے تجارتی مراکز قائم ہیں۔ صوبہ کابل کی معیشت میں تسلی بخش ترقی ہوئی ہے اور یہاں کاروبار اور نوکریوں کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ یہاں عام شہریوں کی طرز زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور غیر تعلیم یافتہ افغان طبقے کے لیے یہ مواقع انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی افغانوں کی مالی امداد کر رہی ہے جس سے خوراک، تعلیم اور کاروبار کے ذرائع قائم کیے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے علاوہ کئی عالمی ادارے بھی صوبہ کابل اور افغانستان کی معیشت میں بہتری لانے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔

طرز معاشرت ترمیم

افغانستان کے دوسرے علاقوں کی طرح صوبہ کابل کی آبادی بارے بھی مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ افغانستان کی وزارت برائے دیہی بحالی و ترقی کے مطابق یہاں %60 آبادی پشتون ہیں، پشتونوں کے بعد فارسی بولنے والے تاجک اور ہزارہ یہاں کثرت سے آباد ہیں۔ %40 آباد قبائل فارسی بولنے والوں پر مشتمل ہیں۔ ایک متضاد رائے جو نیول پوسٹ گریجویٹ اسکول کی جانب سے پیش کی گئی ہے کے مطابق صوبہ کابل کے دس اضلاع میں تاجک اکثریت میں ہیں جبکہ 3 اضلاع میں غزالی پشتون بلحاظ آبادی حاوی ہیں۔ کابل شہر میں آبادی کا تناسب مختلف علاقوں میں مختلف ہے۔ اکثریتی قبائل کے علاوہ صوبہ کابل اور کابل شہر میں ازبک، ترکمان، بلوچ، سکھ اور ہندو بھی آباد ہیں۔ افغانستان کے کسی اور صوبہ میں اتنا تنوع دیکھنے کو نہیں ملتا، جس کی واضع وجہ کابل کی افغانستان میں مرکزی حیثیت ہونا ہے۔ یہاں کی آبادی میں تقریباً %85 سنی مسلمان جبکہ %14 شیعہ مسلمان ہیں اور باقی ماندہ %1 سکھ، ہندو اور مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے اقلیت ہیں۔ یہاں آباد پشتون قبائل میں بنگش، شنواری، خوگیانی، واردک اور صافی ہیں۔

اضلاع ترمیم

صوبہ کابل کے اضلاع
اضلاع صدر مقام آبادی رقبہ[2] آباد قبائل کا تناسب(%) [3] تبصرہ
بگرامی بگرامی 85,000 70% پشتون، 30% تاجک [4]
چہار اسیاب قلعی نعیم 32,500 پشتون، تاجک اور ہزارہ [5]
دیہے سبز ترح خیل 47,900 70% پشتون، 30% تاجک [6]
فرضہ دینوائے فرضہ 19,100 پشتون اور تاجک [7] ضلع میر باچا کوٹ سے 2005ء میں علاحدہ ہوا
گل درہ گل درہ 20,300 50% پشتون، 50% تاجک [8]
استالیف استالیف 29,800 پشتون، تاجک اور ہزارہ[9]
کابل کابل (صوبائی و ملکی صدر مقام) 2,536,300 45% تاجک، 25% ہزارہ، 25% پشتون، 2% ازبک، 1% بلوچی، 1% ترکمان، 1% متفرق[10]
کلاکن کلاکن 26,900 90% تاجک، 10% پشتون [11]
خاکی جبڑ خاکی جبڑ 75,000 95% پشتون، 5% تاجک [12]
میر باچا کوٹ میر باچا کوٹ 46,300 90% تاجک، 10% پشتون[13] 2005ء میں تقسیم ہوا
موسیاہی موسیاہی 30,000 99% پشتون، 1% تاجک [14]
پغمان پغمان 150,000 70% پشتون، 30% تاجک [15]
چارباغ چارباغ 67,700 60% تاجک، 40% پشتون [16]
شکردرہ شکردرہ 72,900 تاجک اکثریتی علاقہ [17]
سروبی سروبئی 150,000 90% پشتون اور باقی ماندہ پاشیs [18]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. افغانستان کی جغرافیائی معلومات
  2. قبائل کی معلومات http://www.aims.org.af آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ aims.org.af (Error: unknown archive URL)
  3. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  4. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 07 اکتوبر 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  5. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  6. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  7. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 17 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  8. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 22 مئی 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  9. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  10. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  11. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  12. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  13. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  14. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  15. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  16. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 27 اکتوبر 2005 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009 
  17. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 15 جون 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2009