عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ (35ق.ھ / 34ھ) (پیدائش: 586ء — وفات: 655ء) اسلام لانے والوں میں آپ سابقون الاولون میں سے ہیں۔ آپ نقیب الانصار ہیں، بیعت عقبہ اولی و بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے۔عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے تمام غزوات میں شریک تھے۔جمع قرآن کرنے والوں میں آپ بھی شامل تھے۔آپ نے 34ھ میں وفات پائی ۔

عبادہ بن صامت
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام عبادہ بن صامت
پیدائش سنہ 586ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 655ء (68–69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رملہ، اسرائیل   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت ابو الولید
زوجہ ام حرام بنت ملحان
جمیلہ بنت ابی صعصعہ
والد صامت بن قیس بن اصرم بن فہر
والدہ قرۃ العین بنت عبادہ بن نضلہ الخزرجیہ
رشتے دار بھائی:
اوس بن صامت
عملی زندگی
طبقہ صحابہ
نسب الخزرجی الانصاری
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوات نبوی

نام و نسب ترمیم

عبادہ نام ، ابو الولید کنیت ، قبیلۂ خزرج کے خاندان سالم سے ہیں نسب نامہ یہ ہے ،عبادہ بن صامت بن قیس بن اصرم بن فہر بن قیس بن ثعلبہ بن غنم (قوقل) بن سالم بن عوف بن عمرو بن عوف بن خزرج ، والدہ کا نام قرۃ العین تھا ، جو عبادہ بن نضلہ بن مالک بن عجلان کی بیٹی تھیں، قرۃ العین کے جگر گوشہ کا نام اپنے نانا کے نام پر رکھا گیا۔ بنو سالم کے مکانات مدینہ کے غربی سنگستان کے کنارہ قبأ سے متصل واقع تھے یہاں ان کے کئی قلعے بھی تھے، جو اطم قوافل کے نام سے مشہور ہیں،اس بنا پر عبادہ کا مکان مدینہ سے باہر تھا۔

اسلام ترمیم

ابھی جوان تھے کہ مکہ سے اسلام کی صدا بلند ہوئی، جن خوش نصیب لوگوں نے اس کی پہلی آواز کو رغبت کے کانوں سے سنا، عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ انہی میں سے ہیں، انصار کے وفد 3 سال تک مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آئے تھے، وہ سب میں شامل تھے ، پہلا وفد جو دس آدمیوں پر مشتمل تھا وہ اس میں داخل تھے اور چھ شخصوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، ارباب علم کی ایک جماعت کا یہی خیال ہے [1]اگرچہ کثرت رائے ان کے اسلام کو دوسری بیعت عقبہ ثانیہ تک موقوف سمجھتی ہے، جس میں بارہ 12 آدمیوں [2] نے مذہب اسلام قبول کیا تھا، تیسری بیعت جس میں 72 اشخاص شامل تھے،حضرت عبادہؓ کی اس میں بھی شرکت تھی۔ [3] اخیر بیعت میں ان کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آنحضرت نے ان کو خاندان توافل کا نقیب تجویز فرمایا۔

مؤخات ترمیم

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر انصار و مہاجرین میں برادری قائم کی تو ابو مرثد غنوی کو ان کا بھائی تجویز فرمایا ابو مرثد نہایت قدیم الاسلام صحابی اور حمزہ رسول اللہ کے حلیف تھے، اس بنا پر ان کا تعلق خود خاندانِ رسالت سے تھا۔

غزوات ترمیم

میں غزوۂ بدر واقع ہوا، عبادہ بن صامت نے اس میں شرکت کی، اسی سنہ میں بنو قینقاع عبد اللہ بن ابی کے اشارے سے رسول اللہ سے بغاوت پر آمادہ ہوئے، دربار نبوت سے جلاوطنی کا فرمان صادر ہوا، عبادہ نے حلف کا دیرینہ تعلق ان لوگوں سے قطع کر دیا تھا، اخراج البلد کا کام بھی انہی کے متعلق ہوا، [4] قرآن کی یہ آیت ،"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى"اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ غزوات عہد نبوت میں بیعت الرضوان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، وہ اس بیعت میں بھی شریک تھے۔ حضرت عبادہؓ بن صامت کی زندگی ابتدا ہی سے ولولہ انگیز ہے مکہ سے مسلمان ہو کر پلٹے تو مکان پہنچتے ہی والدہ کو مشرف باسلام کیا، [5] کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ ایک دوست تھے اور ہنوز مسلمان نہ ہوئے تھے،ان کے گھر میں ایک بڑا سا بت رکھا تھا، حضرت عبادہؓ بن صامت کو فکر تھی کہ کسی صورت سے یہ گھر بھی شرک سے پاک ہو، موقع پاکر اندر گئے اور بت کو بسولے سے توڑ ڈالا ، کعب کو ہدایت غیبی ہوئی اور وہ جمیعت اسلام میں آملے۔ [6] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر انصار و مہاجرین میں برادری قائم کی تو ابو مرثد غنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا بھائی تجویز فرمایا حضرت ابو مرثدؓ نہایت قدیم الاسلام صحابی اور حضرت حمزہؓ رسول اللہ کے حلیف تھے، اس بنا پر ان کا تعلق خود خاندانِ رسالت سے تھا۔

میں غزوۂ بدر واقع ہوا ، حضرت عبادہؓ بن صامت نے اس میں شرکت کی، اسی سنہ میں بنو قینقاع عبداللہ بن ابی کے اشارے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت پر آمادہ ہوئے ، دربار نبوت سے جلاوطنی کا فرمان صادر ہوا، حضرت عبادہؓ بن صامت نے حلف کا دیرینہ تعلق ان لوگوں سے قطع کر دیا تھا، اخراج البلد کا کام بھی انہی کے متعلق ہوا، [7]قرآن کی یہ آیت ،"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى"اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ مشاہد عہد نبوت میں بیعت الرضوان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، وہ اس بیعت [8] میں بھی شریک تھے، خلافت صدیقی میں شام کی بعض لڑائیوں میں شریک تھے، خلافت فاروقی میں مصر کے فتح ہونے میں دیر ہوئی تو عمرو بن عاصؓ نے عمرؓ بن خطاب کو مزید کمک کے لیے خط لکھا، حضرت عمرؓ بن خطاب نے 4 ہزار فوج روانہ کی جس میں ایک ہزار فوج کے حضرت عبادہؓ بن صامت افسر تھے اور جواب میں لکھا کہ ان افسروں میں ہر شخص ایک ہزار آدمیوں [9] کے برابر ہے، یہ کمک مصر پہنچی تو عمرو بن عاصؓ نے تمام فوج کو یکجا کرکے ایک پراثر تقریر کی اور حضرت عبادہؓ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر کہا کہ اپنا نیزہ مجھ کو دیجئے، خود سر سے امامہ اتارا اور نیزہ پر لگا کر ان کے حوالہ کیا کہ یہ سپہ سالار کا علم ہے اور آج آپ سپہ سالار ہیں،خدا کی شان کہ پہلے ہی حملہ میں شہر فتح ہو گیا۔

جمع قرآن ترمیم

جمع قرآن کرنے والوں میں آپ بھی شامل تھے۔

ملکی خدمات ترمیم

خدمات ملکی کے سلسلہ میں تین چیزیں قابل ذکر ہیں صدقات کی افسری فلسطین کی قضاۃ اور حمص کی امارت۔ آنحضرت نے اپنے اخیر عہد میں صدقہ کے عمال تمام اضلاع عراق روانہ کیے تھے، حضرت عبادہؓ بن صامت کو بھی کسی مقام کا عامل بنایا تھا، وصیت کے طور پر فرمایا کہ خدا سے ڈرنا ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن چو پائے تک فریاد ہوکر آئیں انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم میں دو آدمیوں پر بھی عامل بننے کا خواہش مند نہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں فلسطین کا قاضی بنایا تھا اس زمانہ میں یہ صوبہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں تھا، کسی بات پر دونوں میں اختلاف ہو گیا جس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سخت کلامی کی تو انھوں نے کہا کہ آئندہ تم جہاں ہوگے میں نہ رہوں گا، ناراض ہوکر فلسطین سے مدینہ آئے،حضرت عمرؓ بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو پوچھا کیوں؟ انھوں نے سارا قصہ دہرایا فرمایا کہ آپ اپنی جگہ پر جایے دنیا آپ ہی جیسے لوگوں سے قائم ہے، جہاں آپ لوگ نہ ہوں گے خدا اس زمین کو خراب کر دے گا ، اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک خط لکھا کہ عبادہؓ بن صامت رضی اللہ عنہ کو تمھاری ماتحتی سے الگ کرتا ہوں، قضاۃ فلسطین کا یہ پہلا عہدہ تھا جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو تفویض ہوا اسی زمانہ میں حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح رضی اللہ عنہ نے کہ شام کے امیر تھے ان کو حمص کا نائب بنایا حمص کے زمانہ قیام میں انھوں نے لاذقیہ فتح کیا اور اس میں ایک خاص فوجی ایجاد کی یعنی بڑے بڑے گڈھے کھدوائے جن میں ایک شخص مع اپنے گھوڑے کے چھپ سکتا تھا یہ طریقہ آج یورپ میں بھی رائج ہے۔ [10]

وفات ترمیم

عہدِ فاروقی میں شام کے قاضی رہے،حمّص مقام تھا،فلسطین کے مقام رملہ میں 72 سال کی عمر پاکر 34ھ میں وفات پائی۔[11]حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ تادم مرگ شام میں سکونت پزیر رہے، 34ھ میں پیغام اجل آیا اس وقت ان کا سن 72 سال کا تھا وفات سے پہلے بیمار رہے ،لوگ عیادت کو آتے تھے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کچھ آدمیوں کے ساتھ ان کے مکان پر آئے پوچھا کیسا مزاج ہے، فرمایا خدا کے فضل سے اچھا ہوں۔ وفات کے قریب بیٹا آیا اور درخواست کی کہ وصیت کیجئے، فرمایا مجھے اٹھا کے بٹھلاؤ اس کے بعد کہا بیٹا! تقدیر پر یقین رکھنا ورنہ ایمان کی خیریت نہیں۔ [12] اسی حالت میں صنا بحی پہنچے، دیکھا تو استاد جاں بلب تھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور بیتاب ہوکر زار وقطار رونے لگے ،استاد شفیق نے رونے سے منع کیا اور کہا کہ ہر طرح سے راضی ہوں، شفاعت کی ضرورت ہوگی تو شفاعت کروں گا، شہادت کے لیے چاہو گے تو شہادت دونگا، غرض حتی الوسع تم کو نفع پہنچاؤں گا اس کے بعد فرمایا کہ جتنی حدیثیں ضروری تھیں تم لوگوں تک پہنچا چکا ، البتہ ایک حدیث باقی تھی، اس کو اب بیان کیے دیتا ہوں، [13] حدیث بیان کر چکے تو روح ،جسم کو وداع کہہ کر جو ار رحمت میں پرواز کر گئی یہ حضرت عثمانؓ بن عفان کے عہدِ خلافت کا واقعہ ہے۔ مدفن کے متعلق اختلاف ہے ،ابن سعد نے رملہ لکھا ہے ،دوسری روایتوں میں بیت المقدس کا نام آیا ہے اور لکھا کہ ان کی قبر وہاں اب تک مشہور ہے، امام بخاری نے فلسطین کو مدفن قرار دیا ہے، لیکن اصل یہ ہے کہ فلسطین ایک صوبہ تھا جس کے رملہ اور بیت المقدس اضلاع تھے۔

حلیہ ترمیم

حلیہ یہ تھا، قد دراز (10 بالش طول تھا) بدن دوہرا، رنگ ملیح، نہایت جمیل تھے ۔

اولاد ترمیم

اولاد کے نام یہ ہیں،ولید ، عبد اللہ ، داؤد ،ان میں سے ولید کے دو بیٹے ،عبادہ اور یحییٰ اور موخر الذکر کے لڑکے اسحاق حدیث کے مشہور راویوں میں سے ہیں۔

فضل و کمال ترمیم

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضلائے صحابہ میں تھے ، قرأت ان کا خاص فن تھا ، انھوں نے آنحضرت کے زمانہ میں پورا قرآن حفظ کر لیا تھا، اسلام کا پہلا مدرسۂ قرأت جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اصحابِ صفہ کے لیے قائم ہوا تھا انہی کے زیر ریاست تھا اہل صفہ وہ صحابہ کبار تھے ، ان سے تعلیم پاتے تھے یہاں قرآن کے ساتھ لکھنا بھی سکھایا جاتا تھا؛ چنانچہ بہت سے لوگ قرأت اور کتابت سیکھ کر یہاں سے نکلے تھے۔ [14] بعض تلامذہ کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا انتظام بھی استاد کے متعلق ہوتا تھا اس قسم کے بہت سے لوگ آتے تھے ، ایک شخص کی نسبت مذکور ہے کہ ان کے گھر میں رہتا تھا اور شام کا کھانا بھی ان کے ساتھ کھاتا تھا ، مکان جانے کا قصد کیا تھا تو ایک عمدہ کمان استاد کے نذر کی ، انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا ، آپ نے اس کے قبول کرنے سے منع فرمایا۔ [15] عہد نبوی کے بعد جب شام کے مسلمانوں کو تعلیم قرآن کی ضرورت ہوئی تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو شام روانہ کیا وہ پہلے حمص گئے لیکن کچھ زمانہ کے بعد فلسطین کو اپنا مستقر بنایا۔ حدیث میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعض اولیات کے موجد ہوئے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک سلسلۂ حدیث پہنچانے کا یہ طرز تھا کہ صحابی کہتا تھا کہ میں نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، لیکن بعض بزرگ ایسے بھی تھے ، جنھوں نے الفاظ روایت میں وہ مدارج قائم کیے جو بعد میں روایت حدیث کا جزء قرار پا گئے،عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ان الفاظ میں ایک اضافہ کیا ، ایک شخص سے حدیث بیان کی تو فرمایا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من فی الی فی لااقول حدثنی فلاں ولا فلاں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و نے میرے سامنے فرمایا، میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے فلاں فلاں لوگوں نے حدیث بیان کی۔ [16] اسی طرح ایک مجمع میں خطبہ دیا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک حدیث سے انکار ظاہر کیا تو فرمایا : اشھدانی سمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گواہ ہوں کہ میں نے آنحضرت سے سنا۔ اشاعتِ حدیث کا خاص اہتمام تھا مجامع وعظ مجالسِ علم، نجی مجالس ہر جگہ اس کا چرچا رہتا تھا، کبھی گرجے میں جاتے تو وہاں بھی رسول اللہ کا کلام مسلمانوں اور عیسائیوں کے گوش گزار کرتے تھے۔ [17]مرویات کی تعداد 181 تک پہنچتی ہے جس کے روایت کرنے والے اکابر صحابہ اور نبلاء تابعین ہیں،چنانچہ وابستگانِ نبوت میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت جابرؓ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضرت ابو امامہؓ حضرت سلمہؓ بن محیق،محمود بن ؓ ربیع ، مقدام بن ؓ معدیکرب، حضرت رفاعہؓ بن رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت اوس بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شرجیل بنؓ حسنہ اور تابعین میں عبد الرحمن بن عسیلہ صنابجی ، جطان بن عبد اللہ رقاشی، ابوالاشعث صفانی، جبیر بن نضیر جنادہ بن ابی امیہ اسود بن ثعلبہ، عبد اللہ بن محیریز ربیعہ بن ناجد، عطا بن یسار، قبیصہ بن ذویب، نافع بن محمود بن ربیعہ، یعلی بن شداد بن اوس، ابو مسلم خولانی، ابو ادریس خولانی، اس مخزن علم سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ فقہ میں کمال علمی مسلم تھا اور تمام صحابہؓ اس کا اعتراف کرتے تھے،شام کے مسلمانوں کو قرآن اور فقہ کی تعلیم کی ضرورت ہوئی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کام کے لیے انہی کا انتخاب کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طاعون عمواس کا خطبہ میں ذخر کیا تو کہا کہ مجھ سے اور عبادہ بن صامت سے اس مسئلہ میں گفتگو ہو چکی ہے، لیکن بات وہی ٹھیک تھی جو انھوں نے کہی تھی تم لوگ ان سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ فقیہ ہیں۔ جنادہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کو گئے تو بیان کرتے ہیں کہ: وکان قد تفقہ فی دین اللہ وہ دین الہی میں فقیہ تھے۔

اخلاق و عادات ترمیم

امرا کے مقابلہ میں حق گوئی: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے تاج فضیلت کا طرہ رہی ہے وہ نہایت جوش سے اس فرض کو ادا کرتے تھے، شام گئے اور وہاں بیع شراء میں شرعی خرابیاں دیکھیں تو ایک خطبہ دیا جس سے تمام مجمع میں ہلچل پڑ گئی ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے بولے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے آنحضرت نے یہ نہیں فرمایا تھا، اب ان کے طیش کو کون روک سکتا تھا فرمایا کہ مجھےامیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہنے کی بالکل پروا نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آنحضرت نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ [18] یہ حضرت عمرؓ بن خطاب کے عہد خلافت کا واقعہ تھا؛ لیکن عہد عثمانی میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دربار خلافت میں شکایت لکھی کہ عبادہ نے تمام شام بگاڑ رکھا ہے یا تو ان کو مدینہ بلائیے یا میں شام چھوڑ دوں گا، امیر المومنین نے جواب میں لکھا کہ ان کو یہاں روانہ کردو ،مدینہ پہنچ کر سیدھے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاشانہ میں پہنچے، جہاں صرف ایک شخص تھا جو مہاجر اور تابعی تھا، لیکن باہر بہت سے لوگ جمع تھے اندر جاکر ایک گوشہ یں بیٹھ گئے۔حضرت عثمانؓ بن عفان کی نظر اٹھی تو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے تھے، پوچھا کیا معاملہ ہے، پیکر حق اب بھی راست گوئی کا وہی جذبہ رکھتا تھا، کھڑے ہوکر مجمع سے مخاطب ہوا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد امرا منکر کو معروف اور معروف کو منکر سے بدل دیں گے،لیکن معصیت میں طاعت جائز نہیں، تم لوگ بدی میں ہر گز آلودہ نہ ہونا۔ [19] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی بات میں داخل دیا تو فرمایا کہ جب ہم نے آنحضرت سے بیعت کی تھی تم اس وقت موجود نہ تھے (پھر تم ناحق بیچ میں پڑتے ہو) ہم نے آنحضرت سے ان شرائط پر بیعت کی تھی کہ چستی اور کاہلی میں آپ کا کہنا مانیں گے فراخی اور تنگی میں مالی امداد دیں گے، اچھی باتیں پہنچائیں گے، بری باتوں سے روکیں گے سچ کہنے میں کسی سے نہ ڈریں گے،آنحضرت یثرب تشریف لائیں گے تو مدد کریں گے اور جان ومال اور اولاد کی طرح آپ کی نگہبانی کریں گے، ان سب باتوں کا صلہ جنت کی صورت میں دیا جائے گا، پس ہم کو ان باتوں پر پورے طور سے عمل کرنا چاہیے اور جو نہ کرے وہ اپنا آپ ذمہ دار ہے۔ [20] اس فرض امر معروف کو وہ راستہ چلتے بھی ادا کرتے تھے،ایک دفعہ کسی سمت جا رہے تھے عبد اللہ بن عباد زرقی کو دیکھا کہ چڑیاں پکڑ رہے ہیں،چڑیا ہاتھ سے چھین کر اڑادی اور کہا بیٹا یہ حرم میں داخل ہے یہاں شکار جائز نہیں۔ حب رسول کا یہ عالم تھا کہ بیعت کرنے کے بعد 2 مرتبہ مکہ مکرمہ جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی آنحضرت مدینہ تشریف لائے تو کوئی غزوہ اور واقعہ ایسا نہ تھا جس کی شرکت کا شرف انھیں حاصل نہ ہوا ہو، انہی وجوہ سے آنحضرت کو ان سے خاص محبت تھی۔ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَعُودُهُ فِي مَرَضِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَعْلَمُونَ مَنْ الشَّهِيدُ مِنْ أُمَّتِي فَأَرَمَّ الْقَوْمُ فَقَالَ عُبَادَةُ سَانِدُونِي فَأَسْنَدُوهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ الصَّابِرُ الْمُحْتَسِبُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ شَهَادَةٌ وَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ وَالنُّفَسَاءُ يَجُرُّهَا وَلَدُهَا بِسُرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ۔ [21] ایک مرتبہ وہ بیمار پڑے تو خود سردار دو عالم ﷺ عیادت کو آئے، انصار کے کچھ لوگ ہمرکاب تھے، فرمایا جانتے ہو شہید کون ہے؟ لوگ خاموش رہے،حضرت عبادہؓ نے اپنی بیوی سے کہا کہ ذرا مجھے تکیہ سے لگا کر بیٹھاؤ، بیٹھ کر رسول اللہ کے سوال کا جواب دیا کہ جو مسلمان ہو ہجرت کرے اور معرکہ میں قتل ہو ، آپ نے فرمایا نہیں ،اس صورت میں تو شہیدوں کی تعداد بہت کم ہوگی قتل ہونا، ہیضہ میں مرنا، غرق آب ہونا اور عورت کا زچگی میں مرجانا یہ سب شہادت میں داخل ہے۔ [22] رسول اللہ علیل ہوئے تو صبح و شام دیکھنے جاتے تھے ،آپ نے اسی حالت میں ان کو ایک دعا بتائی اور فرمایا کہ مجھ کو جبرئیل علیہ السلام نے تلقین کی تھی۔ [23]

حوالہ جات ترمیم

  1. فتح الباری:7/172
  2. (مسند احمد:5/323)
  3. (مسند:5/316)
  4. طبقات،صفحہ30،قسم اول،جزء2،حصہ مغازی
  5. (زرقانی:1/361)
  6. (نزہتہ الابرار فی الاسلامی ومناقب الاخیار قلمی ورق:163)
  7. (طبقات،صفحہ30،قسم اول،جزء2،حصہ مغازی)
  8. (مسند :5/319)
  9. (کنز العمال:2/151،بحوالہ ابن عبدالحکم)
  10. (بلاذری فتوح البلدان:139)
  11. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد1صفحہ33نعیمی کتب خانہ گجرات
  12. (مسند:5/317)
  13. (مسند:5/318)
  14. (مسند:5/215)
  15. (مسند:5/224)
  16. (مسند:5/224)
  17. (مسند:5/319،320)
  18. (مسند:5/319)
  19. (مسند:5/319)
  20. (مسند:5/325)
  21. (مسند احمد،حدیث راشد بن حبیش،حدیث نمبر:15426)
  22. (مسند:317)
  23. (مسند:323)