صفوی سلطنت کا سب سے عظیم بادشاہ، (پیدائش: 17 جنوری 1571ء، وفات: 19 جنوری 1629ء) اس کا دور خاندان صفویہ کا عہد زریں ہے۔

عباس اول
(فارسی میں: شاه عباس صفوی ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 27 جنوری 1571ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہرات  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 جنوری 1629ء (58 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ماژندران  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت صفویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد باقر مرزا  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد محمد خدابندہ  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ خیر النسا بیگم  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
حمزہ میرزا  ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان صفوی خاندان  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
فہرست شاہان صفوی (5 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1 اکتوبر 1588  – 19 جنوری 1629 
محمد خدابندہ 
شاہ صفی 
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان،  شاہی حکمران،  گورنر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان آذربائیجانی،  فارسی،  جارجیائی زبان  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد خدا بندہ کے بعد جب وہ ایران کے تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر صرف 17 سال تھی۔ ایران کے شمال مغربی حصوں پر عثمانی ترک قابض تھے اور مشرق میں خراسان ازبکوں کے قبضے میں تھا یا ان کی تاخت و تاراج کا ہدف بنا ہوا تھا۔ اندرون ملک بھی بے امنی تھی اور صوبوں کے امرا سرکشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ عباس نے اس صورت حال کا بڑے تدبر اور ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اس نے سب سے پہلے ترکوں سے معاہدہ کر لیا اور آذربائیجان، گرجستان اور لورستان کا ایک حصہ اُن کے حوالے کر دیا۔ شاہ اسماعیل کے زمانے میں ایران میں اصحاب کرام پر تبرا بھیجنے کی جو قبیح رسم چلی آ رہی تھی، اس کو بھی بند کرادیا اور اس طرح عثمانی ترکوں کو ایک حد تک مطمئن کر دیا۔ مغربی سرحد سے مطمئن ہونے کے بعد شاہ عباس نے خراسان کی طرف توجہ کی۔ ازبکوں کا طاقتور حکمران عبداللہ خان 1598ء میں مرچکا تھا۔ اس لیے شاہ عباس نے اسی سال آسانی سے ازبکوں کو خراسان سے نکال دیا اور صفوی سلطنت کی حدود ہرات اور مرو تک وسیع کر دیں۔

فتوحات ترمیم

مشرقی سرحدوں کو مستحکم کرنے کے بعد شاہ عباس نے ترکوں سے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں۔ اس نے ترکوں کی فوج ینی چری کے نمونے پر ایک فوج تیار کی جو "شاہ سورن" کہلاتی تھی اور گرجستان اور آرمینیا کے نو مسلموں پر مشتمل تھی لیکن ایرانیوں کی سب سے بڑی کمزوری توپ خانے کی عدم موجودگی تھی۔ اس وقت جبکہ ساری دنیا میں توپوں کا رواج ہو چکا تھا اور خود ایران کے مغرب میں عثمانی ترک اور مشرقی میں دہلی کے مغل سلاطین توپیں استعمال کر رہے تھے، ایرانی فوج ابھی تک اس اہم جنگی ہتھیار سے محروم تھی۔ مغربی قومیں صلیبی جنگوں کے زمانے سے اس پالیسی پر عمل پیرا تھیں کہ مشرق وسطیٰ کی طاقتور مسلمان حکومتوں کا زور توڑنے کے لیے دوسری مسلمان حکومتوں کا تعاون حاصل کریں۔ اس غرض سے انھوں نے مصر کے مملوکوں اور ترکی کے عثمانیوں کے خلاف منگولوں، باطنیوں اور آق قویونلو ترکمانوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی اور اب وہ عثمانی ترکوں کا زور توڑنے کے لیے ایران کی صفوی حکومت کا تعاون حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ طہماسپ کے زمانے میں ملکہ ایلزبتھ اس مقصد میں ناکام ہو گئی تھی لیکن شاہ عباس کے دور میں ان کو اس مقصد کے حصول میں خاصی کامیابی ہوئی۔

1599ء میں دو انگریز بھائی انتھونی شرلے اور رابرٹ لرشے ترکوں کے خلاف مسیحی اتحاد کے لیے ایران سے مدد حاصل کرنے کے لیے اور ایران اور یورپ کے درمیان تجارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے آئے۔ شاہ عباس نے ان سے کوئی معاہدہ تو نہیں کیا، لیکن ایرانی فوج کو جدید طرز پر مسلح کرنے میں ان سے مدد لی۔ ان انگریزوں نے ایران میں توپ سازی کی صنعت شروع کی اور ایرانی افواج کو توپ خانے سے مسلح کر دیا۔ جب ایرانی فوج جدید آتشیں ہتھیاروں اور توپوں سے مسلح ہو گئی تو شاہ عباس نے 1602ء میں عین اس وقت جب عثمانی ترک آسٹریا سے جنگ میں مصروف تھے، حملہ کر دیا اور تبریز، شیروان اور پرتگالیوں سے بندرگاہ ہرمز چھین لیا اور خلیج فارس کے ساحل پر ایک نئی بندرگاہ قائم کی جو آج تک بندر عباس کہلاتی ہے۔ اسی سال شاہ عباس نے دہلی کی تیموری سلطنت سے قندھار بھی چھین لیا۔

صفوی دور علمی لحاظ سے بنجر دور ہے لیکن شاہ عباس کے زمانے میں علم و ادب کے میدان میں تھوڑی سے زندگی نظر آتی ہے۔ اس کے درباری علما میں میر محمد باقر بن محمد داماد قابل ذکر ہیں۔ مطالعہ قدرت اور فلسفہ ان کا خاص موضوع تھا۔ بہاء الدین آملی اور صدر الدین شیرازی بھی جو ملا صدرا کے نام سے مشہور تھے، اس دور کی اہم علمی اور ادبی شخصیتیں ہیں۔ ملا صدرا کی فلسفے کی ضخیم کتاب "اسفار اربعہ" کا اردو میں 4 جلدوں میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن فلسفے کی ان کتب میں مغز کم اور پھوک زیادہ ہے۔

اصفہان ترمیم

شاہ عباس کے زمانے میں فنون لطیفہ نے خاص طور پر فن تعمیر اور فن مصوری نے بہت ترقی کی۔ دارالحکومت اصفہان کو بڑی ترقی دی گئی اور شاندار عمارتیں بنائی گئیں۔

شروع میں صفویوں کادارالحکومت تبریز تھا لیکن وہ ہمیشہ عثمانی ترکوں کی زد میں رہتا تھا۔ اس لیے عباس اعظم نے ایران کے وسط میں اصفہان کو دار السلطنت بنایا۔

عباس نے اصفہان کو اتنی ترقی دی کہ لوگ اس کو "اصفہان نصف جہان" کہنے لگے۔ اس زمانے میں اصفہان کی آبادی 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ یہاں ایسی شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی جو قسطنطنیہ اور قاہرہ کو چھوڑ کر اس زمانے کے کسی شہر میں نہیں تھیں۔ لاہور، دہلی اور آگرہ کی شاندار عمارات ابھی تعمیر ہی نہیں ہوئی تھیں۔ عباس نے اصفہان میں جو عمارتیں بنوائیں ان میں جامع مسجد، قصر چہل ستون، زندہ رود ندی کے دو پل اور چہار باغ بہت مشہور ہیں۔ یہ عمارتیں آج بھی اصفہان کی سب سے پرشکوہ عمارتیں ہیں۔

شخصیت ترمیم

شاہ عباس اگرچہ ایک کامیاب اور سمجھدار حکمران تھا لیکن اعظم کا لقب اس کو زیب نہیں دیتا۔ وہ انتہائی ظالم اور شکی مزاج تھا اس نے محض شک کی بنیاد پر اپنے ایک لڑکے کو قتل اور دو کو اندھا کر دیا تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس کے دور میں 500 جلاد لوگوں کو قتل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، وہ بدترین مستبد حکمران تھا۔

عباس کے بعد صفوی خاندان میں 4 حکمران ہوئے۔

پیشرو:
محمد خدا بندہ
صفوی سلطنت حکمران
1587ء تا 1629ء
جانشیں:
شاہ صفی
  1. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/abbas-abbas-i — بنام: Abbas (Abbas I.) — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. Proleksis enciklopedija ID: https://proleksis.lzmk.hr/6553 — بنام: Veliki Abas I. — عنوان : Proleksis enciklopedija