عبد الغنی ازہری
عبد الغنی ازہری (جو عبد الغنی شاہ الشاشی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں [2] ۔1914ء – 2023ء) ایک بھارتی مسلمان عالم و مؤرخ تھے، جنھوں نے جامعہ کشمیر کے عربی شعبہ کے صدر پروفیسر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور اور جامعہ الازہر کے فاضل تھے۔ انھوں نے "قدیم تاریخ گجر" کے نام سے ایک کتاب لکھی، جو گجروں کی تاریخ بیان کرتی ہے۔
مفتی[1] عبد الغنی ازہری | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | 1922ء |
وفات | (عمر 100) سہارنپور، اترپردیش، بھارت |
مذہب | اسلام |
فرقہ | سنی |
تحریک | دیوبندی |
بانئ | دار العلوم نظامیہ مدینۃ الاسلام |
سوانح
ترمیمحضرت مولانا مفتی عبد الغنی ازہری 1914ء میں پونچھ، جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔[3] انھوں نے دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور اور جامعہ الازہر سے تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے امامِ مسلم پر الامام المسلم و منھجہ فی الحدیث روایۃً و درایۃً کے نام سے اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔[3] ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں حسین احمد مدنی، محمد ابراہیم بلیاوی، اعزاز علی امروہی، محمد طیب قاسمی اور سید فخر الدین احمد اور اساتذۂ مظاہر علوم سہارنپور میں محمد زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔[4] جامعہ الازہر میں، انھوں نے عبد الحلیم محمود سمیت دیگر علما سے اکتسابِ فیض کیا۔[4]
ازہری ایک کشمیری گجر تھے اور وہ اپنے گجر ہونے پر فخر کرتے تھے۔[5] انھوں نے گجر بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 1980 میں پہلا مدرسہ دارالعلوم ازہریہ مرکز اہلسنت والجماعت وہاب نگر پلوامہ کشمیر میں قائم کیا اس کے بعد بادشاہی باغ (نزد سہارنپور) میں دار العلوم نظامیہ مگن پورہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔[6] انھوں نے کشمیر میں بھی بعض دینی مدارس قائم کیے، جن میں مکتبہ انوار العلوم، کوکر ناگ اور دار العلوم کوثریہ، نزد داچھی گام نیشنل پارک شامل ہیں۔[7] ،حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے [[ضلع اننت ناگ اوراسکےعلاوہ مختلف علاقوں میں] میں بھی دیگر کئی مدارس قائم فرمائے ۔[4] شیخ محمد عبد اللہ کی دعوت پر، ازہری صاحب رح نے کشمیر یونیورسٹی میں آنے سے پہلے مدینۃ العلوم، حضرت بل، سری نگر میں عربی کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔[8]
ازہری کشمیر میں ایک سینئر عالم دین کی حیثیت سے معروف ہیں۔ انھوں نے کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں صدر پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔[9] وہ تصوف میں قادریہ سلسلہ کے بزرگ تھے مگر انھوں نے نقشبندیہ سلسلے پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔[5] ان کا انتقال 19 جنوری 2023ء کو سہارنپور میں ہوا۔[10] ان کی وفات پر جموں و کشمیر کے موجودہ ریاستی مفتی اعظم ناصر الاسلام نے تعزیت پیش کی۔[11] وائس چانسلر نیلوفر خان اور رجسٹرار نثار اے میر سمیت کشمیر یونیورسٹی کے ماہرین تعلیم نے ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا۔[12] یونیورسٹی نے اپنے شعبہ عربی میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا، جس میں شعبہ کے موجودہ صدر پروفیسر صلاح الدین ٹاک نے ازہری کو ’’ایک نامور استاد، ایک عظیم ماہر تعلیم اور مذہبی علوم میں اعلیٰ مہارت رکھنے والا‘‘ قرار دیا۔[12] ان کی وفات پر الطاف بخاری سمیت کئی سیاست دانوں نے رنج کا اظہار کیا۔[12] علامہ مفتی عبد الغنی ازہری رح کے پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں جو الحمد للہ سب مدارس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں الحمد للہ پانچوں عالم دین ہیں1۔نظام الدین رفاعی ندوی2۔عبد الحلیم ضیاءمظاہری3۔فرید محمود قاسمی4۔محمد طیب قاسمی5۔علی صابر شاشی نظامی
قلمی خدمات
ترمیمازہری کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:[13][14][15]
- نور عرفان
- مالا بد منہ (فارسی سے اردو)
- مکتوبات نقشبندیہ
- قدیم تاریخِ گجر، گجروں کی تاریخ پر ایک تفصیلی کتاب۔[13][16]
- گجر تاریخ تے صداقت، ازہری کے مضامین کا مجموعہ، مرتب: جاوید راہی۔[17]
حوالہ جات
ترمیممآخذ
ترمیم- ↑ "Anjuman Nusrat-ul-Islam condoles demise of Mufti Abdul Ghani Azhari, pays glowing tribute" [انجمن نصرت الاسلام کا مفتی عبدالغنی ازہری کے انتقال پر اظہار تعزیت، شاندار خراج عقیدت]۔ کشمیر نیوز سروس۔ 19 جنوری 2023ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2023ء
- ↑ سنگھ 2012, p. 149.
- ^ ا ب احمد 2022, p. 995.
- ^ ا ب پ احمد 2022, p. 996.
- ^ ا ب سنگھ 2012, p. 151.
- ↑ سنگھ 2012, pp. 149–150.
- ↑ احمد 2022, p. 997.
- ↑ "ماہرین تعلیم و سیاسی رہنماؤں نے مفتی عبدالغنی الازہری کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا"۔ ای ٹی وی بھارت۔ 19 جنوری 2023ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جنوری 2023ء
- ↑ "AAC expresses condolences with journalist Abid Bashir, Moulana Azhari" [اے اے سی کے صحافی عابد بشیر کی والدہ کی وفات پر مولانا ازہری کا اظہار تعزیت]۔ کشمیر ریڈر۔ 5 جولائی 2022ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2023ء
- ↑ حسینہ ایوب (19 جنوری 2022ء)۔ "Renowned scholar from Jammu Abdul Ghani Azhari passes away" [جموں کے معروف عالم عبد الغنی ازہری انتقال کر گئے۔]۔ چناب ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2023ء
- ↑ "J&K Grand Mufti condoles Mufti Abdul Ghani Azhari's demise" [جموں و کشمیر مفتی اعظم نے مفتی عبدالغنی ازہری کے انتقال پر تعزیت کی۔]۔ پریشز کشمیر۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2023ء
- ^ ا ب پ "Academics, politicians condole demise of prominent scholar Abdul Ghani Al-Azhari" [ممتاز عالم عبد الغنی الازہری کے انتقال پر ماہرین تعلیم اور سیاستدانوں کی تعزیت]۔ گریٹر کشمیر۔ 19 جنوری 2022ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2023ء
- ^ ا ب احمد 2022, p. 999.
- ↑ "معروف عالم دین مفتی عبدالغنی الازہری انتقال کر گئے"۔ etvbharat.com۔ ای ٹی وی بھارت۔ 19 جنوری 2023ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2023ء
- ↑ "معروف عالم دین مفتی عبدالغنی الازہری سہارنپور میں انتقال کرگئے" [Famous Islamic scholar Abdul Ghani Azhari passed a way in Saharanpur]۔ کشمیر عظمیٰ۔ 20 جنوری 2023ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جنوری 2023ء
- ↑ "قديم تاريخ گجر / Qadīm tārīk̲h̲-i Gujar"۔ ورلڈ کیٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جنوری 2023ء
- ↑ "Mian Altaf releases latest Gojri publications"۔ Scoop News۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جنوری 2023
عام کتابیات
ترمیم- نائیک زادہ محمود احمد (نومبر 2022ء)۔ "The Untold legacy of Professor Mufti Abdul Ghani Al Azhari" [پروفیسر مفتی عبد الغنی الازہری کی ان کہی میراث]۔ Journal of Emerging Technologies and Innovative Research (بزبان انگریزی)۔ 9 (11)۔ ISSN 2349-5162
- ڈیوڈ امینیول سنگھ (2012)۔ Islamization in Modern South Asia: Deobandi Reform and the Gujjar Response (بزبان انگریزی)۔ ڈی گروئٹر۔ صفحہ: 149–152