عطارد
}}
یہ تصویر ناسا کے میسنجر خلائی جہاز نے لی ہے۔ | |||||||||||||
تعین کاری | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
تلفُّظ | /ˈmɜːrkjəri/ ( سنیے) | ||||||||||||
صفات | عطاردی[1] | ||||||||||||
محوری خصوصیات[4] | |||||||||||||
مفروضہ وقت J2000 | |||||||||||||
اوج شمسی |
| ||||||||||||
حضیض شمسی |
| ||||||||||||
| |||||||||||||
انحراف | 0.205 630[2] | ||||||||||||
| |||||||||||||
115.88 d[2] | |||||||||||||
اوسط گردشی رفتار | 47.87 km/s[2] | ||||||||||||
174.796° | |||||||||||||
میلانیت |
| ||||||||||||
48.331° | |||||||||||||
29.124° | |||||||||||||
معلوم قدرتی سیارچہ | نہیں | ||||||||||||
طبیعی خصوصیات | |||||||||||||
اوسط رداس | |||||||||||||
چپٹا پن | 0[6] | ||||||||||||
| |||||||||||||
حجم |
| ||||||||||||
کمیت |
| ||||||||||||
اوسط کثافت | 5.427 g/cm3[5] | ||||||||||||
4.25 km/s[5] | |||||||||||||
فلکی محوری گردش | |||||||||||||
استوائی گردشی_رفتار | 10.892 کلومیٹر/گھنٹہ (3.026 میٹر/سیکنڈ) | ||||||||||||
2.11′ ± 0.1′[7] | |||||||||||||
North_pole right ascension |
| ||||||||||||
North_pole declination | 61.45°[2] | ||||||||||||
Albedo | |||||||||||||
| |||||||||||||
−2.6[10] to 5.7[2][11] | |||||||||||||
4.5" – 13"[2] | |||||||||||||
فضا[2] | |||||||||||||
سطحی ہوا کا دباؤ | trace | ||||||||||||
عطارد (Mercury)ہمارے نظام شمسی کا سب سے اندرونی سیارہ ہے جو سورج کے گرد ایک چکر زمینی اعتبار سے 87.969 دنوں میں پورا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سورج کے گرد لگنے والے ہر دو چکروں میں عطارد اپنے محور کے گرد تین بار گردش کرتا ہے۔ چونکہ زمین سے عطارد ہمیشہ سورج کے قریب دکھائی دیتا ہے اس لیے عطارد کا مشاہدہ عموماً سورج گرہن کے دوران ہی کیا جاتا ہے۔ شمالی نصف کرے پر عطارد کو دیکھنے کے لیے غروب آفتاب کے فوراً بعد یا طلوعِ آفتاب سے ذرا قبل کا وقت مناسب ہوتا ہے۔
عطارد کے بارے نسبتاً بہت کم معلومات موجود ہیں۔ زمین سے دوربین سے کیے جانے والے مشاہدات سے ہلال کی شکل کا عطارد دکھائی دیتا ہے تاہم زیادہ تفصیل نہیں دکھائی دیتی۔ عطارد کو جانے والے دو خلائی جہازوں میں سے پہلا جہاز میرینر دہم تھا جس نے 1974 سے 1975 کے دوران عطارد کے 45 فیصد حصے کی نقشہ کشی کی تھی۔ دوسرا جہاز میسنجر تھا جو عطارد کے مدار میں 17 مارچ 2011 کو داخل ہوا اور بقیہ حصے کی نقشہ کشی میں مصروف ہو گیا ہے۔
عطارد شکل میں ہمارے چاند سے مشابہہ ہے اور شہابیوں کے گرنے سے پیدا ہونے والے گڑھے یہاں بے شمار ہیں۔ اس کا اپنا کوئی قدرتی چاند نہیں اور نہ کوئی خاص فضاء ہے۔ تاہم چاند کے برعکس اس کے اندر بہت بڑی مقدار میں لوہا پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا مقناطیسی میدان زمین کے مقناطیسی میدان کا محض ایک فیصد ہے۔اپنے چھوٹے حجم اور لوہے کے اندرونی ڈھانچے کے باعث عطارد بہت کثیف ہے۔ سطح کا درجہ حرارت منفی 183 سے 427 درجے تک رہتا ہے۔ سورج کی دھوپ والے حصے سب سے زیادہ گرم جبکہ قطبین کے نزدیک والے گڑھے سب سے سرد مقام ہیں۔
عطارد کے مشاہدات کے بارے ہمیں پہلی دستاویزات قبل از مسیح زمانے سے ملتی ہیں۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں یونانی ماہرینِ فلکیات کا خیال تھا کہ یہ سیارہ دراصل دو مختلف اجرامِ فلکی ہیں۔ایک جرمِ فلکی صرف سورج نکلنے اور دوسرا سورج کے غروب ہونے پر دکھائی دیتا ہے۔ عطارد کا انگریزی نام مرکری ہے جو یونانی تہذیب سے مستعار لیا ہوا ہے۔
اندرونی ڈھانچہ
عطارد ہمارے نظام شمسی کے چار اندرونی سیاروں میں سے ایک ہے جو ارضی سیارے (terrestrial planets) کہلاتے ہیں۔اس کی ساخت پتھریلی ہے جو زمین سے مشابہ ہے۔ ہمارے نظام شمسی کا یہ سب سے چھوٹا سیارہ ہے اور اس کا استوائی رداس 2,439.7 کلومیٹر (1,516.0 میل) ہے۔ اس کا 70 فیصد حصہ دھاتی جبکہ 30 فیصد سلیکیٹ سے بنا ہے۔ عطارد کی کثافت 5.427 گرام فی مکعب میٹر ہے جو زمین کی کثافت (5.515 گرام فی معکب میٹر) سے ذرا سی کم اور نظام شمسی میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے۔ اگر عطارد اور زمین دونوں سے ثقلی دباؤ (gravitational compression) کے اثر کو ختم کر دیا جائے تو عطارد کا مادہ زمین کے مادے سے زیادہ کثیف ہوگا. عطارد کی کثافت کی مدد سے ہم اس کے اندرونی ساخت کے بارے جان سکتے ہیں۔ زمین کی کثافت کی سب سے بڑی وجہ اس کی کششِ ثقل کے دباؤ سے اس کا سکڑنا ہے۔ اسی وجہ سے زمین کا انتہائی کثیف مرکزہ (Core) وجود میں آیا ہے۔ زمین کی نسبت عطارد کا حجم انتہائی مختصر ہے اور اس کے اندرونی اجزاء اتنے سکڑے ہوئے نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اس کے کثیف ہونے کا سبب اس کا بڑا مرکزہ اور اس میں لوہے کی کثرت ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق عطارد کا مرکزہ اس کے کل حجم کا 55 فیصد گھیرتا ہے۔ جبکہ زمین میں یہ شرح 17 فیصد ہے۔ 2007 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عطارد کا مرکزہ مائع حالت میں ہے۔ مرکزے کے گرد 500 سے 700 کلومیٹر چوڑی تہ ہے جسے غلاف (mantle) کہتے ہیں۔ یہ تہ سیلیکٹس سے بنی ہے۔ میرنیر دہم سے حاصل ہونے والی معلومات اور زمین سے کیے گئے مشاہدات کی بنا پر یہ مانا جاتا ہے کہ عطارد کا قشر (crust) کلومیٹر تک چوڑا ہے۔ عطارد کی سطح کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس پر کئی تنگ ناہموار سطحیں ہیں جو کئی سو کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جب عطارد کا مرکزہ اور غلاف سرد ہونے شروع ہوئے تو بیرونی سطح پہلے سے ٹھنڈی ہو کر ٹھوس ہو چکی تھی اور اس کے سکڑنے کی وجہ سے اس طرح کی سطح وجود میں آئی۔ عطارد کے مرکزے میں ہمارے نظام شمسی کے دیگر اہم سیاروں کی نسبت بہت زیادہ لوہا پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کئی نظریات بھی پیش کیے گئے ہیں۔ سب سے عام مانا جانے والے نظریے کے مطابق عطارد میں دھات اور سیلیکٹ کی شرح ویسی ہے جیسی کونڈرائیٹ شہابیوں کی ہوتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ایک بہت بڑا شہابیہ عطارد سے ٹکرایا جس سے اس کے قشر اور غلاف کا بہت بڑا حصہ دھول بن کر اڑ گیا اور مرکزہ اس کی جسامت کے حساب سے بہت بڑا باقی رہ گیا ہے۔ زمین کے چاند سے متعلق بھی اسی طرح کا نظریہ پایا جاتا ہے۔ ایک اور نظریے کے مطابق عطارد کا جنم شمشی سحابیہ (solar nebula) سے ہوا تھا جب سورج کی توانائی کے اخراج کی شرح مستحکم نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت عطارد کی کیمیت آج سے دو گنا زیادہ تھی۔ تاہم جب سورج سکڑنا شروع ہوا تو عطارد کا درجہ حرارت 2٫500 سے 3٫500 کیلون (سینٹی گریڈ میں کیلون منفی 273 ڈگری) تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ درجہ حرارت 10٫000 ڈگری کیلون رہا ہو۔ اس انتہائی بلند درجہ حرارت سے عطارد کی چٹانی سطح پگھل کر بخارات بن گئیں ان بخارات نے چٹانی کرہ ہوا بنایا جنہیں شمسی ہوا (solar wind) اڑا لے گی۔ تیسرے نظریے کے مطابق شمسی سحابیے (solar nebula) سے پیدا ہونے والی کشش کی وجہ سے عطارد کی سطح پر موجود ہلکے ذرات عطارد سے نکل گئے۔ اس طرح ہر نظریہ عطارد کے بارے نیا خیال پیش کرتا ہے۔ اگلے دو خلائی مشن میسنجر اور بیپی کولمبو انھیں نظریات کی تصدیق کریں گے۔
سطحی جغرافیہ
بحیثیتِ مجموعی عطارد کی سطح ہمارے چاند سے بہت مماثل ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مریخ جیسے بہت بڑے میدان اور کھائیاں موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہین کہ ارضیاتی اعتبار سے عطارد کئی ارب سالوں سے ساکن ہے۔ چونکہ عطارد کے بارے ہماری معلومات 1975 میں میرینر خلائی جہاز کے اس کے پاس سے گذرنے اور اس کی سطح کے مشاہدے تک محدود ہے جس کی وجہ سے ارضی سیاروں میں عطارد کے بارے ہماری معلومات سب سے کم ہیں۔ حال ہی میں میسنجر نامی خلائی جہاز اس کے قرب سے گذرا ہے جس سے امید ہے کہ ہماری معلومات کافی بڑھ جائیں گی۔
البیڈو کی خصوصیات مختلف جگہوں پر روشنی کے انعکاس کی مختلف مقداروں کو ظاہر کرتی ہیں۔ عطارد پر چاند کی طرح بلند میدان، کٹی پھٹی سطحیں، پہاڑ، میدان اور وادیاں وغیرہ پائی جاتی ہیں۔
4 اعشاریہ 6 ارب سال قبل عطارد کی پیدائش کے بعد سے اس پر شہابیوں اور دمدار ستاروں کی بہت بڑی مقدار گرتی رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ یہ عمل کوئی 3 اعشاریہ 8 ارب سال قبل دہرایا گیا تھا۔ اس عرصے میں بہت بڑی مقدار میں کھائیاں بنیں اور سیارے کی پوری سطح پر شہابیے گرے کیونکہ عطارد پر فضاء موجود نہیں جو رگڑ کی وجہ سے شہابیوں کی رفتار کو کم کر سکے۔ اس عرصے میں عطارد پر آتش فشانی عمل بھی زور و شور سے جاری تھا۔ میسنجر نامی خلائی جہاز جب اکتوبر 2008 میں اس کے قریب سے گذرا تو ہمیں عطارد کی سطح کے بارے مزید معلومات ملیں۔ عطارد کی سطح چاند یا مریخ کی نسبت زیادہ مختلف ہے۔
امپیکٹ بیسن اور گڑھے
عطارد پر گڑھوں کا حجم ایک پیالہ نما گڑھے سے لے کر کئی گڑھوں کے مجموعے تک ہو سکتا ہے جو کئی سو کلومیٹر طویل ہیں۔ یہ گڑھے ہر طرح کی حالت میں ملتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو بالکل تازہ ہیں جبکہ کچھ گڑھے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر تقریباً گم ہو چکے ہیں۔ عطارد کے گڑھے چاند کے گڑھوں سے اس وجہ سے فرق ہیں کہ عطارد کی کشش ثقل کی وجہ سے یہاں ان گڑھوں سے کم مواد نکلتا ہے۔
کلوریس بیسن عطارد پر موجود سب سے بڑا گڑھا ہے جو 1٫550 کلومیٹر قطر پر مشتمل ہے۔ اس گڑھے کے بننے کا عمل اتنا زبردست تھا کہ نہ صرف لاوا نکلا بلکہ بیرونی کنارہ دو کلومیٹر اونچا ہو گیا۔
مجموعی طور پر عطارد کی تصاویر سے ہمیں 15 ایسے گڑھے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم گڑھا 400 کلومیٹر چوڑا ہے اور اس سے نکلنے والا لاوا 500 کلومیٹر دور تک پھیلا ہوا ہے۔
میدان
عطارد پر ہمیں دو مختلف اقسام کے میدانی علاقے ملتے ہیں۔
عطارد پر پائی جانے والی ایک اور اہم خاصیت یہ ہے کہ یہاں میدانوں میں دباؤ سے بننے والی لہریں نما سطحیں موجود ہیں۔ جوں جوں عطارد کا مرکزہ سرد ہونے لگا تو بیرونی سطح کی شکل بگڑنے لگی جس سے یہ لہریں نما سطحیں بنیں۔ یہ سطحیں میدانوں اور گڑھوں کی سطح پر بھی موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لہریں بہت بعد میں بنی تھیں۔
سطحی حالتیں اور فضا
عطارد کی سطح کا اوسط درجہ حرارت 442,5 ڈگری کیلون ہے۔ تاہم یہ درجہ حرارت دراصل 100 ڈگری کیلون سے 700 ڈگری کیلون تک ہو سکتا ہے کیونکہ عطارد کی اپنی کوئی فضاء نہیں اور قطبین اور خط استوا پر درجہ حرارت میں بہت فرق ہے۔ روشن سطح پر درجہ حرارت 550 سے 700 کیلون تک اور تاریک سطح پر درجہ حرارت تقریباً 110 ڈگری کیلون رہتا ہے۔
اگرچہ عطارد پر دن کے وقت درجہ حرارت انتہائی بلند ہوتا ہے تاہم اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ عطارد کی سطح پر برف پائی جاتی ہے۔ گہرے گڑھوں کی تہ جہاں تک سورج کی روشنی براہ راست نہیں پہنچ سکتی، میں درجہ حرارت 102 کیلون سے نیچے رہتا ہے۔ آبی برف ریڈار پر چمکتی ہے۔ 70 میٹر والی گولڈ سٹون دوربین کی مدد سے اور وی ایل اے کی مدد سے عطارد کے قطبین کے قریب بہت ہی چمکدار سطحیں دکھائی دی تھیں۔ اگرچہ ان چمکدار سطحوں کا واحد سبب برف ہی نہیں ہے تاہم برف کے امکانات زیادہ ہیں۔
ان برفانی مقامات پر برف کی مقدار کا اندازہ 1014 تا1015 کلوگرام لگایا گیا ہے۔ زمین پر موجود قطب جنوبی کی برفانی تہ کا وزن 4X1018 کلو لگایا گیا ہے۔ مریخ کے جنوبی قطب پر پانی کی مقدار کا اندازہ 1018 کلو لگایا گیا ہے۔ عطارد پر موجود برف کے ماخذ کے بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم دو وجوہات ممکن ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ عطارد کی سطح سے پانی کا اخراج اور دوسری وجہ شہابی ٹکراؤ سے حاصل ہونے والی برف ہے۔
عطارد کا حجم بہت مختصر اور گرم ہے اور اس کی کشش ثقل اتنی نہیں کہ لمبے عرصے تک فضاء کو قابو میں رکھ سکے تاہم اس کی "فضاء" میں ہائیڈروجن، ہیلیم، آکسیجن، سوڈیم، کیلشیم، پوٹاشیم اور دیگر عناصر پائے جاتے ہیں۔ تاہم یہ فضاء مستحکم نہیں اور ایٹم مسلسل خلاء میں گم ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی جگہ مختلف ماخذوں سے مزید ایٹم آتے رہتے ہیں۔ ہائیڈروجن اور ہیلیم کے ایٹم شمسی ہواؤں سے آتے ہیں اور عطارد کی فضاء کا حصہ بننے کے بعد پھر سے بخارات بن کر اڑ جاتے ہیں۔ عطارد کی بیرونی سطح میں ہونے والی تابکاری کی وجہ سے بھی ہیلئم کے علاوہ پوٹاشیم اور سوڈیم کے ایٹم بھی آتے ہیں۔ میسنجر خلائی جہاز کو عطارد پر بہت بڑی مقدار میں کیلشیم، ہیلیم، ہائیڈرو آکسائیڈ، میگنشیم، آکسیجن، پوٹاشیم، سیلیکان اور سوڈیم کے ثبوت ملے تھے۔ آبی بخارات بھی مختلف ذرائع سے آتے رہتے ہیں جیسا کہ شہابیوں کا ٹکراؤ، شمسی ہواؤں سے آنے والی ہائیڈروجن اور عطارد کی آکسیجن کے ملاپ سے بننے والے آبی بخارات، قطبین پر موجود جمی ہوئی برفیں وغیرہ اہم ہیں۔
سوڈیم، پوٹاشیم اور کیلشیم 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں دریافت ہو گئے تھے اور خیال کیا جاتا ہے کہ چھوٹے شہابیوں کے ٹکراؤ سے یہ پیدا ہوئے ہوں گے۔ 2008 میں اسی عمل سے عطارد پر آنے والی میگنیشیم بھی دریافت ہوئی ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سوڈیم بھی مقناطیسی قطبین پر موجود تھی۔
مقناطیسی قطبین اور مقناطیسی کرہ
اپنے چھوٹے حجم اور سست 59 دن کے چکر کے باوجود عطارد پر تقریباً یکساں اور کافی طاقتور مقناطیسی میدان موجود ہے۔ میرنیر دہم کی پیمائشوں سے پتہ چلتا ہے کہ عطارد کا مقناطیسی میدان زمین کے مقناطیسی میدان کی نسبت محض ایک اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ عطارد پر مقناطیسی میدان دو قطبی ہے۔ تاہم عطارد کے مقناطیسی قطبین اس کے محوری سروں پر واقع ہیں۔ میرنیر دہم اور میسنجر خلائی جہازوں کے مشاہدات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عطارد کی مقناطیسی طاقت اور مقناطیسی میدان مستحکم ہیں۔
عطارد کا مقناطیسی میدان اتنا طاقتور ہے کہ شمسی ہواؤں کو آنے سے روکتا ہے۔ اس طرح اس میدان نے عطارد کے گرد مقناطیسی کرہ بنایا ہوا ہے۔ یہ مقناطیسی کرہ اگرچہ اتنا چھوٹا ہے کہ زمین کے اندر سما سکتا ہے تاہم شمسی ہوا کے پلازمے کو جکڑ لیتا ہے۔ اس طرح عطارد کی سطح پر سپیس ویدرنگ ہوتی رہتی ہے۔
6 اکتوبر 2008 کو دوسرے چکر کے دوران میسنجر نے عطارد کے مقناطیسی میدان میں سوراخ تلاش کیے۔ مقناطیسی ٹارنیڈو بھی دیکھے گئے جن کا قطر 800 کلومیٹر پر محیط تھا جو عطارد کے قطر کا ایک تہائی ہے۔ اس طرح کے سوراخوں سے گذر کر سورج سے آنے والے ذرات براہ راست عطارد کی سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔
مدار اور گردش
عطارد کا مدار
دیگر تمام سیاروں کے برعکس عطارد کا مدار منفرد ہے اور اسی وجہ سے سورج سے اس کا درمیانی فاصلہ چار کروڑ ساٹھ لاکھ سے لے کر سات کروڑ کلومیٹر تک رہتا ہے۔ اسے اپنے مدار میں ایک چکر پورا کرنے پر اٹھاسی دن لگتے ہیں۔ سورج سے گھٹتے بڑھتے فاصلے کی وجہ سے عطارد کا ایک دن اس کے دو سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ زمینی اعتبار سے 176 دن لگتے ہیں۔
زمین کی نسبت عطارد کا مدار سات ڈگری جھکا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے عطارد اوسطاً ہر سات سال بعد زمین اور سورج کے درمیان سے گزرتا ہے۔
عطارد کا محوری جھکاؤ تقریباً صفر ہے جس کی وجہ سے قطبین پر کھڑے ہوئے بندے کو سورج ہمیشہ افق کے پاس گردش کرتا دکھائی دے گا۔
بعض مقامات سے تو ایک ہی دن میں سورج طلوع ہو کر پھر واپس اسی جگہ غروب ہوتا اور طلوع ہوتا دکھائی دے سکتا ہے۔
مدار پر گمک
بہت عرصے تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ عطارد سورج کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے کہ جیسے زمینی چاند ہمیشہ زمین کی طرف ایک رخ کیے رہتا ہے، ویسے ہی عطارد کی ایک سمت سورج کی سمت رہتی ہے۔ تاہم 1965 میں ریڈار کے مشاہدے سے پتہ چلا ہے کہ یہ تین نسبت دو ہے۔ یعنی سورج کے گرد لگنے والے ہر دو چکر میں عطارد تین بار گھومتا ہے۔ یعنی عطارد کے دو سال عطارد کے تین دنوں کے برابر ہوتے ہیں۔ ماہرین فلکیات کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ تھی کہ جب بھی عطارد کے مشاہدے کا بہترین وقت آتا، عطارد ہمیشہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی رخ پر دکھائی دیتا تھا۔
کمپیوٹر پر تیار کیے گئے ماڈل سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر سیاروں کی کشش کے باعث عطارد اپنے مدار پر تقریباً صفر (گول) سے 0.45 فیصد (بیضوی) میں کروڑوں سالوں میں گھومتا ہے۔ یہ اندازہ بھی لگایا گیا ہے کہ اگلے پانچ ارب سال کے دوران ایک فیصد امکان ہے کہ عطارد زہرہ سے ٹکرا جائے۔
حضیض
1859 میں فرانسیسی ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات اربین لی وریئر نے بتایا کہ سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے عطارد کے مدار کی تبدیلی کی وضاحت نیوٹن میکانیات سے نہیں ہو سکتی۔ اس نے دیگر ممکنہ نظریات کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ شاید کسی دوسرے سیارے کی کشش اس پر اثر ڈال رہی ہو اور یہ سیارہ سورج سے عطارد کی نسبت قریب تر ہو۔ اس وجہ سے ماہرینِ فلکیات نے اندازہ لگایا کہ ایسا سیارہ اگر ہوا تو اسے وُلکن کہا جائے گا۔ تاہم ایسا کوئی سیارہ دریافت نہیں ہو سکا۔
متناسق نظام
عطارد پر طول بلد مغرب کی سمت بڑھتے ہیں۔ ہُن کل نامی شہابی گڑھے کو حوالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مرکزی مقام 20 ڈگری مغرب طول بلد پر ہے۔
مشاہدہ
عطارد کی ظاہری روشنی منفی 2.6 (سب سے روشن سیارے سیریئس سے بھی زیادہ روشن) سے لے کر +5.7 تک ہو سکتی ہے۔ اتنا زیادہ فرق سورج کے گرد گردش کے دوران اس کے مقام پر ہوتا ہے۔ عطارد کا مشاہدہ سورج کی وجہ سے ہمیشہ مشکل ہوتا ہے کہ زیادہ تر وقت سورج کی دمک سے یہ دکھائی نہیں دیتا۔ سو اس کے مشاہدے کا مختصر وقت طلوعِ آفتاب سے ذرا قبل یا غروب آفتاب کے تھوڑا بعد ہوتا ہے۔ خلائی دور بین ہبل اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتی کیونکہ حفاظتی نکتہ نظر سے اس کا رخ سورج سے زیادہ قریب نہیں کیا جا سکتا۔
چاند کی مانند عطارد بھی ہلال سے بدرِ کامل اور پھر ہلال کی طرح دکھائی دیتا ہے۔
عطارد کی زمین سے قریب ترین آمد 7 کروڑ 73 لاکھ کلومیٹر تک دیکھی گئی ہے۔
عطارد کو شمالی نصف کرے کی بجائے جنوبی نصف کرے سے زیادہ آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سورج گرہن کے وقت بھی عطارد کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
مطالعہ
قدیم فلکیات دان
عطارد کے مشاہدے کی قدیم ترین معلومات ہمیں عہدِ بابل سے ملنے والی تختیوں سے ملتی ہے۔ یہ مشاہدے 14ویں صدی قبل مسیح میں عاشوری فلکیات دان نے کیے تھے۔ بابلی اسے نابو کہتے تھے۔
قدیم یونانی بھی اس سے واقف تھے اور اسے پہلے سٹلبون اور بعد ازاں صبح دکھائی دینے پر اپالو اور رات کو دکھائی دینے پر ہرمیس کہتے تھے۔ رومیوں نے اسے قاصد دیوتا کے نام پر مرکری کہا جو یونانی ہرمیس کے برابر تھا کہ آسمان پر اس کی حرکت کسی بھی دوسرے سیارے سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ مصری-رومی فلکیات دان بطلیموس نے سورج کے سامنے عطارد کے گزرنے کے بارے پہلی بار لکھا اور بتایا کہ ایسا مشاہدہ نہ ہو سکنے کی وجہ یا تو اس سیارے کا بہت چھوٹا ہونا ہے یا پھر کبھی کبھار سورج کے قریب سے ہی گذرنا تھا۔
قدیم چین میں عطارد کو چِن ژنگ یعنی گھنٹہ ستارہ کہا جا جاتا تھا اور اسے شمال کی سمت سے منسوب کیا گیا۔ تاہم جدید چینی، کورین، جاپانی اور ویت نامی ثقافتوں میں اسے آبی ستارہ کہا جاتا ہے۔ ہندو دیومالا میں اسے بدھا کہا گیا اور بدھ کے روز کا حکمران مانا جاتا ہے۔ جرمن مظاہر پرستوں میں عطارد اور بدھ کو اوڈن دیوتا سے جوڑا جاتا ہے۔ مایا لوگ عطارد کو اُلو سے ظاہر کرتے تھے (کبھی چار الو بھی استعمال ہوتے تھے جن میں سے دو صبح اور دو شام کو دکھائی دینے والے عطارد سے منسوب کرتے تھے) جو زیرِ زمین دنیا کا پیغام رساں کیا جاتا تھا۔
قدیم ہندوستانی فلکیات میں پانچویں صدی کے متن میں سریا سندھانتا نے عطارد کا قطر 3٫008 میل بتایا جو موجودہ پیمائش 3٫032 میل سے ایک فیصد سے بھی کم فرق ہے۔
قرونِ وسطیٰ کے اندلسی مسلمان ماہرِ فلکیات ابو اسحاق ابراہیم الذرقالی نے گیارہوین صدی میں عطارد کے مدار کو بیضوی بیان کیا جیسے انڈہ ہوتا ہے تاہم اس سے متعلقہ پیمائشیں اس سے متاثر نہیں ہوئیں۔ بارہویں صدی میں ابن باجا نے سورج پر بننے والے دو دھبوں کو سورج کے سامنے سے گزرنے والے دو سیارے قرار دیا۔ تیرہویں صدی میں مراغہ کے ماہرِ فلکیات قطب الدین شیرازی نے امکان ظاہر کیا کہ یہ شاید عطارد اور یا زہرہ کی وجہ سے دھبے بنے ہوں گے (یاد رہے کہ اب ایسے قدیم مشاہدات کو شمسی دھبے قرار دیے جاتے ہیں)۔
بھارت میں پندرہویں صدی کے کیرالا اسکول کے ماہرِ فلکیات نیلا کنٹھا سومیاجی نے ایک سیاراتی نمونہ پیش کیا جس کے مطابق عطارد سورج کے گرد اور پھر سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا نظام سولہویں صدی میں ٹائکو براہی نے بھی پیش کیا۔
ارضی دوربین سے تحقیق
دوربین سے پہلی بار عطارد کا مشاہدہ سولہویں صدی میں گلیلیو نے کیا۔ اگرچہ اس نے زہرہ کے مختلف مراحل کو تو دیکھا مگر عطارد کے ایسے مشاہدے کے لیے اس کی دوربین مناسب نہیں تھی۔ 1631 میں پیئر گسنڈی نے دوربین سے عطارد کو سورج کے سامنے سے گزرتے دیکھا۔ اس کی پیش گوئی جوہانس کپلر کر چکا تھا۔ 1639 میں جیوانی زوپی نے دوربین کی مدد سے زہرہ اور چاند کی مانند عطارد کو بھی گھٹتے بڑھتے دیکھا۔ اس مشاہدے سے ثابت ہوا کہ عطارد سورج کے گرد گھومتا ہے۔
اختفا
فلکیات میں ایک نایاب واقعہ اختفا کہلاتا ہے جس میں زمین سے مشاہدے کے وقت ایک جرمِ فلکی دوسرے کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ عطارد اور زہرہ ہر چند صدی بعد ایک دوسرے کے سامنے سے گزرتے ہیں اور اس کا واحد مشاہدہ ابھی تک 28 مئی 1737 کو گرین وچ کی شاہی رصدگاہ میں جان بیوس نے کیا۔ اگلی مرتبہ زہرہ عطارد کے سامنے 3 دسمبر 2133 کو ہوگا۔
کم مشاہدات کی وجہ سے دیگر سیاروں کی نسبت عطارد کا مطالعہ بہت کم کیا گیا ہے۔
1962 میں روس کے سائنس دانوں نے ولادی میر کوٹیلنکیوو کی سربراہی میں یو ایس ایس آر اکیڈمی آف سائنسز کے ذیلی ادارہ برائے ریڈیو انجینیرنگ سے عطارد پر ریڈار کے سگنل بھیج کر واپس موصول بھی کیے اور اس طرح عطارد کا ریڈار سے مشاہدہ شروع ہو گیا۔ تین سال بعد امریکی گورڈن پیٹنگل اور آر ڈائس نے پورٹوریکو میں 300 میٹر ریڈیائی دوربین سے سیارے کا ریڈیائی مشاہدہ شروع کیا اور تصدیق کی کہ سیارہ 59 روز میں ایک گردش پوری کرتا ہے۔ اُس وقت تک یہ بات عام طور پر قبول کی جا چکی تھی کہ عطارد سورج کی طرف ہمیشہ ایک ہی سمت رکھتا ہے اور جب ریڈار سے ملنے والی معلومات سے پتہ چلا کہ تاریک سمت کا درجہ حرارت توقع سے کہیں زیادہ ہے تو فلکیات دانوں کو بہت حیرت ہوئی۔
اطالوی فلکیات دان جیوسپو کولومبو نے دیکھا کہ محور اور مدار پر گردش کا تناسب دو اور تین کا ہے۔ میرینر دہم نے بعد میں اس کی تصدیق کی۔
ارضی بصری مشاہدوں سے عطارد کے بارے کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں مگر ریڈیو فلکیات دان خورد موجی طولِ موج کو استعمال کرتے ہوئے عطارد کی سطح سے کئی میٹر نیچے تک کی کیمیائی اور طبعی خصوصیات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور یہ سورج سے آنے والی ریڈی ایشن سے متاثر نہیں ہوتیں۔ تاہم پہلے خلائی جہاز کی آمد سے قبل یہاں کی طبعی خصوصیات کے بارے ہمیں زیادہ علم نہیں ہو پایا۔ حالیہ تکنیکی جدتوں کے باعث ارضی مشاہدے بہتر ہوئے ہیں۔ لکی امیجنگ تکنیک کی مدد سے 2000 میں کیے گئے مشاہدات سے عطارد کی ایسی خصوصیات کا پتہ چلا ہے جو میرینر مشن سے بھی نہ پتہ چل پائی تھیں۔
خلائی جہازوں سے کی گئی تحقیقات
زمین سے عطارد کو خلائی جہاز بھیجنا جانا تکنیکی اعتبار سے کافی مشکل ہے کیونکہ خلائی جہاز کو سورج کی انتہائی زیادہ کشش پر قابو پانا پڑتا ہے۔ عطارد کو جانے والے خلائی جہاز کو 9 کروڑ 10 لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے دوران سورج کی کشش پر بھی قابو پانا پڑتا ہے۔ عطارد کی محوری گردش کی رفتار 48 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جو زمین کی 30 کلومیٹر فی سیکنڈ سے زیادہ ہے۔ اس لیے جہاز کو اپنی رفتار میں کافی بڑی تبدیلی لانی پڑتی ہے جو کسی بھی دوسرے سیارے کو جانے والے جہاز سے زیادہ ہوتی ہے۔
سورج کی کشش کی وجہ سے خلائی جہاز کی رفتار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اسے عطارد کے گرد مدار میں داخلے یا عطارد پر اترنے کے لیے کافی زیادہ ایندھن جلانا پڑتا ہے تاکہ اترنے کی رفتار مناسب حد تک کم ہو جائے۔ چونکہ عطارد کی فضا نہ ہونے کے برابر ہے، سو پیراشوٹ وغیرہ کا استعمال ممکن نہیں۔ اس لیے عطارد پر جانے کے لیے درکار ایندھن کی مقدار پورے نظامِ شمسی سے باہر نکلنے کے لیے درکار ایندھن سے زیادہ ہے۔
میرینر دہم
عطارد کا چکر لگانے والا پہلا خلائی جہاز ناسا کا میرینر دہم تھا جو 1974-75 میں بھیجا گیا۔ اس جہاز نے زہرہ کی کششِ ثقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی رفتار کو عطارد کے ساتھ جوڑا۔ اس طرح یہ جہاز پہلی بار ثقلی مدد استعمال کرنے والا اور ایک سے زیادہ سیاروں کو جانے والا جہاز قرار پایا۔ میرینر دہم نے پہلی بار عطارد کی سطح کی نزدیک سے تصاویر لے کر بھیجیں جس سے پتہ چلا کہ اس میں بہت زیادہ شہابی گڑھے اور جھریاں سی پائی جاتی ہیں جو شاید لوہے کے مرکزے کے ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے سے بنی ہوں گی۔ بدقسمتی سے میرینر دہم کی گردش کچھ اس نوعیت کی تھی کہ ہر مرتبہ ایک ہی پہلو روشن دکھائی دیا جس کی وجہ سے محض 45 فیصد حصے کی نقشہ بندی ممکن ہو پائی تھی۔
27 مارچ 1974 کو پہلی بار قریب سے گزرنے سے دو روز قبل میرینر دہم نے عطارد کے قریب غیر متوقع بالائے بنفشی شعاعیں ریکارڈ کرنا شروع کر دی تھیں۔ اس کا سبب پہلے عطارد کا فرضی چاند سمجھا گیا مگر بعد میں یہ پتہ چلا کہ دور واقع دہرے ستاروں کے نظام سے یہ شعاعیں آ رہی ہیں اور عطارد کا فرضی چاند ماضی کا قصہ بن گیا۔
خلائی جہاز تین مرتبہ عطارد کے قریب سے گذرا اور ایک مرتبہ اس کا فاصلہ عطارد کی سطح سے 327 کلومیٹر تھا۔ پہلے چکر پر آلات نے مقناطیسی میدان محسوس کیا۔ دوسرے چکر پر زیادہ توجہ تصاویر پر ہی رکھی گئی اور تیسرے چکر پر زیادہ سے زیادہ مقناطیسی پیمائش کی گئی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ عطارد کا مقناطیسی میدان زمین سے مماثل ہے اور شمسی ہواؤں کو اطراف میں پھینکتا ہے۔ تاہم اس مقناطیسی میدان کی ابتدا کے بارے کئی متبادل نظریات ملتے ہیں۔ 24 مارچ 1975 کو عطارد کے قریب سے گزرنے کے آٹھ روز بعد میرینر کا ایندھن ختم ہو گیا۔ چونکہ اب اس کے مدار کو درست طور سے قابو نہ کیا جا سکتا تھا، سو حکام نے اس کو کام روک دینے کا حکم بھیج دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ میرینر دہم اب بھی سورج کے گرد چکر لگاتا ہوا ہر چند ماہ بعد عطارد کے پاس سے گزرتا ہے۔
میسنجر
عطارد کی جانب ناسا کا دوسرا مشن میسنجر 3 اگست 2004 کو کیپ کینورل سے بوئنگ ڈیلٹا 2 راکٹ سے بھیجا گیا۔ اس نے اگست 2005 میں زمین، اکتوبر 2006 اور جون 2007 کو زہرہ کے چکر لگاتے ہوئے عطارد کے گرد اپنے مدار کی تصحیح کی۔ اس کا عطارد کے قریب سے پہلا چکر 14 جنوری 2008، دوسرا 6 اکتوبر 2008 کو اور تیسرا 29 ستمبر 2009 کو لگا۔ میرینر دہم سے پوشیدہ بقیہ نصف کرے کی نقشہ کشی میسنجر نے کی۔ 18 مارچ 2001 کو میسنجر خلائی جہاز نے عطارد کے گرد کامیابی سے بیضوی مدار اختیار کر لیا۔
اس مشن سے چھ بنیادی باتیں واضح ہونی تھیں: عطارد کی کثافت، اس کی جغرافیائی تاریخ، مقناطیسی میدان کی نوعیت، مرکزے کی بناوٹ، اس کے قطبین پر برف ہے یا نہیں اور اس کی معمولی سی فضا کہاں سے آئی۔ ان سوالات کے جوابات کے لیے میسنجر پر مطلوبہ آلات موجود ہیں۔
بپی کولمبو
یورپی خلائی ایجنسی جاپان کے تعاون سے بپی کولمبو نامی ایک مشترکہ مشن تیار کر ہی ہے جس میں عطارد کے گرد دو خلائی جہاز ہوں گے، ایک کا کام سیارے کا نقشہ تیار کرنا ہوگا اور دوسرا مقناطیسی کرے کا مطالعہ کرے گا۔ روانگی کے بعد اندازہ ہے کہ 2019 تک یہ عطارد تک پہنچ جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ عطارد کے مشاہدے کے لیے زیریں سرخ، بالائے بنفشی، ایکس رے اور گیما رے کا استعمال بھی کرے گا۔
حوالہ جات
- ↑
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ
- ↑
- ↑
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ
- ^ ا ب
- ↑
- ^ ا ب
- ^ ا ب Ashwin R. Vasavada، David A. Paige، Stephen E. Wood (19 February 1999)۔ "Near-Surface Temperatures on Mercury and the Moon and the Stability of Polar Ice Deposits" (PDF)۔ Icarus۔ 141: 179–193۔ Bibcode:1999Icar..141..179V۔ ISSN 0019-1035۔ doi:10.1006/icar.1999.6175۔ Figure 3 with the "TWO model"; Figure 5 for pole۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2012
- ↑
- ↑
لوا خطا ماڈیول:Navbox_with_columns میں 228 سطر پر: bad argument #1 to 'inArray' (table expected, got nil)۔