علم رمل خفیہ علوم میں سے مشہور علم ہے۔ یہ ان خطوط اور نقطوں کی اشکال کا علم ہے جس سے قواعد معلومہ کے تحت حروف نکالے جاتے ہیں(جمع کیے جاتے ہیں)اور پھر ایسا جملہ نکالا جاتا ہے جو امور کے انجام پر دلالت کرتا ہے اسے علم خطوط و نقوط بھی کہا جاتا ہے جس میں اشکال کے ذریعے آئندہ پیش آنے والے حالات و واقعات دریافت کیے جاتے ہیں۔ رمل کے زائچے میں سولہ اشکال ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ تمام سولہ اشکال ہی زائچے میں آ جائیں بعض اوقات اس میں کئی اشکال ناپید ہوتی ہیں۔ اور کئی مکرر آ جاتی ہیں۔

موضوع ترمیم

اس کا موضوع وہ خطوط اور نقاط ہیں جن سے معاملات کے انجام کی معرفت حاصل ہو۔

غرض ترمیم

اس کی غرض معاملات کے آخر کار انجام کو جاننا ہے۔

مذہب اور رمل ترمیم

اسلام ترمیم

اس علم کی اصل حضرت ادریس علیہ السلام ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی نے رمل کے خطوط کے متعلق سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :’’ یہ علم ایک نبی کو دیا گیا تھا۔ اگر کسی شخص کے نقوش اس کے مطابق ہوجاتے ہیں تو اندازہ صحیح نکلتا ہے ورنہ نہیں۔‘‘[1]
ایک اور حدیث میں ہے
بعض انبیا علیہم الصلٰوۃ والسلام کچھ خط کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں ان کے خطوں سے موافق ہوں وہ ٹھیک ہے۔[2]

اس کا حکم ترمیم

ابن حجر مکی نے لکھا ہے کہ اس علم کا سیکھنا اور سکھانا سخت حرام ہے کیونکہ اس سے عوام کو وہم ہوتا ہے کہ اس کا فاعل اللہ تعالیٰ کے ساتھ علم غیب میں شریک ہے۔[3] یہ خط یالکیریں کھینچنے سے مراد علم رمل ہے جس میں خطوط کے ذریعہ غیبی بات معلوم کی جاتی ہے جیسے علم جفر میں عددوں سے ،علم رمل حضرت دانیال کا معجزہ تھا اور علم جفر حضرت ادریس علیہ السلام کا جس کو ان بزرگوں کی خطوط یا اعداد سے مناسبت ہوگی،اس کا درست ہوگا ورنہ غلط۔ بعض علما نے اس حدیث سے دلیل پکڑی کہ عمل رمل اور جفر جائز ہے لیکن بغیر کمال اس پر اعتماد نہیں کرسکتے۔[4] جبکہ احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:

اب اس حدیث سے ٹھہرادینا کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے رمل پھینکنے کی اجازت دی ہے حالانکہ حدیث صراحۃ مفید ممانعت ہے کہ جب حضورا قدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کا جواز مواقف خط انبیا علیہم الصلٰوۃ والسلام سے مشروط فرمایا اور وہ معلوم نہیں تو جواز بھی نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب الصلٰوۃ باب تحریم الکلام میں زیر حدیث مذکور فرماتے ہیں : معناہ من وافق خطہ فھو مباح لہ ولکن لاطریق لنا الی العلم الیقینی بالموافقۃ فلا یباح والمقصود انہ حرام لانہ لایباح الابیقین بالموافقۃ ولیس لنا یقین بھا[5]

حدیث پاک کا مفہو م اور مراد یہ ہے جس آدمی کی لکیریں بعض انبیا کرام کی لکیروں کے موافق ہوجائیں تو اس کے لیے (علم رمل) مباح ہے لیکن حصول موافقت کے لیے ہمارے پاس یقینی علم تک رسائی کاکوئی راستہ نہیں لیکن علم مذکور (ہمارے لیے) مباح نہیں اور مقصد یہ ہے کہ وہ حرام ہے کیونکہ یقینی موافقت کے بغیر وہ مباح نہیں ہو سکتا اور یقنی موافقت کا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں"۔[6] قطن بن قبیصہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمل (لکیریں کھینچ کر غیب کا حال معلوم معلوم کرنا) اور بد شگونی لینا اور فال نکالنے کے لیے پرندے کو اڑانا شیطانی اعمال سے ہیں۔[7]

حوالہ جات ترمیم

  1. مسلم،باب تحریم الکہانۃ واتیان الکہان
  2. صحیح مسلم،کتاب المساجد باب تحریم الکلام فی الصلٰوۃ
  3. تعریفات علوم درسیہ،صفحہ 231،مفتی محمد عبد اللہ قادری،والضحیٰ پبلیکیشنز لاہور
  4. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد دوم صفحہ203،مفتی احمد یار خان نعیمی،نعیمی کتب خانہ گجرات
  5. شرح صحیح البخاری للنووی مع صحیح مسلم، کتا ب المساجد باب تحریم الکلام فی الصلٰوۃ
  6. فتاویٰ رضویہ جلد 23، احمد رضا خان بریلوی کتاب الخطر والاباحۃ
  7. سنن ابوداؤدرقم الحدیث : 3907