علی بن عبد اللہ بن عباس

آپ کا نام علی، کنیت ابو الحسن اور ابو محمد اور لقب سجاد ہے۔ آپ حضرت عبد اللہ بن عباس کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔آپ کی ولادت 40ھ میں علی بن ابی طالب کی شہادت کے دن ہوئی۔ اس لیے آپ کا نام علی اور کنیت ابو الحسن رکھی گئی۔آپ کے والد نبی کریم کے چچا ذاد بھائی اور صحابی رسول تھے۔علی دولت عباسیہ کے بانی سفاح کے دادا تھے۔

علی بن عبد اللہ بن عباس
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 691ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 736ء (44–45 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش حمیمہ
مذہب اسلام
اولاد محمد بن علی بن عبد اللہ ، عبد الصمد بن علی
والد عبد اللہ بن عباس
والدہ زرعہ بنت مشرح بن معدی کرب
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سلسلہ نسب ترمیم

آپ کا سلسلہ نسب والد کی جانب سے یہ ہے علی ابن عبد اللہ بن عباس ابن عباس بن عبد المطلب ابن عبد المطلب الہاشمی القریشی

آپ کا سلسلہ نسب والدہ کی جانب سے یہ ہے زرعہ بنت مشرح بن معدی کرب بن ولیعہ بن شرجیل[1]

پیدائش ترمیم

حضرت علیؓ کی شب شہادت کو رمضان 40 میں پیدا ہوئے،اس لیے یاد گارکے طور پر انہی کے نام پر علی نام اورابوالحسن کنیت رکھی گئی، لیکن عبد الملک نے اپنے زمانہ میں کہا کہ میں علی کا نام اورکنیت دونوں ایک ساتھ برداشت نہیں کرسکتا ان میں سے ایک کو بدلو،اس لیے ابو الحسن چھوڑ کر ابو محمد کنیت اختیار کی۔ [2]

فضل و کمال ترمیم

علمی اعتبار سے آپ کوئی قابل ذکر شخصیت نہ رکھتے تھے ، درحقیقت آپ کے عمل نے آپ کے علم کو دبا دیا تھا۔ پھر بھی آپ حضرت عبد اللہ بن عباس کے فرزند تھے اس لیے علم کی دولت آپ سے تہی دامن دامن نہ تھے ، احادیث نبوی کا ایک حصہ اپ کے حفظہ میں محفوظ تھا ، ابن سعد نے آپ کو قلیل الحدیث تابعین میں لکھتے ہیں۔ احادیث میں آپ نے اپنے والد عبد اللہ بن عباس، ابو ہریرہ ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص ، عبد اللہ بن جبیر اور عبد الملک سے استفادہ کیا۔ آپ کے صاحبزادہ محمد ، عیسی ، عبد الصمد ، سلیمان ، داؤد اور منہال بن عمرو سعد بن ابراہیم ، امام زہری ، حبیب بن ابی ثابت ، آبان بن صالح ، عبد اللہ بن طاؤس اور منصور بن معتمر وغیرہ آپ کے خوشہ چینوں میں تھے۔[3]

زہد و عبادت ترمیم

آپ کا میدان عمل حجرہ عبادت تھا اپنے زمانے کے بہت بڑے عابد بزرگ تھے ایک دن میں ایک ہزار رکعتیں پڑھتے تھے اسی وجہ سے آپ ”سجاد“ کے لقب سے مشہور ہو گئے۔[4] پہلے آپ کا کاروبار حرم شریف میں تھا۔ آپ کی مالکیت میں زیتون کے پانچ سو درخت تھے اور ہر درخت کے نیچے آپ نے دو رکعت نفل ادا کیے۔ [5] ابتدا میں آپ کوئی زاہد و عابد نہ تھے ، آبان بن عثمان کے لڑکے عبد الرحمن کی عبادت و ریاضت کو دیکھ کر آپ کے دل پر گہرا اثرا پڑا ، آپ نے کہا میں ان سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کا قریب و عزیز ہوں اس لیے مجھے ان سے زیادہ زیادہ عبادت کرنے کا حق ہے ، چنانچہ اس وقت سے ہمہ تن عبادت میں لگ گئے۔ آپ کا عبادت کا یہ ذوق آخری لمحہ حیات تک قائم رہا۔ زبیر ابن بکار کا بیان ہے کہ موت کے وقت تک آپ کی عبادت و ریاضت میں فرق نہ آیا۔[6]

قریش میں فضیلت و عظمت ترمیم

اپنے مذہبی کمالات کی وجہ سے قریش میں ان کی بڑی عظمت تھی جب آپ مکہ جاتے تو سارا خاندان جمع ہو جاتا تھا۔[7]

حلیہ ترمیم

نہایت حسین و جمیل تھے علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ ان جیسا روئے زمین پر حسین و جمیل قریشی نہیں تھا قد نہایت بلند و بالا تھا۔[8] لوگوں میں چلتے وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی سواری پر جا رہے ہیں۔ آپ کے والد عبد اللہ بن عباس آپ کے کاندھوں تک آتے تھے اور عبد اللہ اپنے والد عباس بن عبد المطلب کے کاندھوں تک آتے تھے اور عباس اپنے والد عبد المطلب کے کاندھوں تک آتے تھے۔[9]

اموی خلفاء سے تعلقات ترمیم

ایک دن آپ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دربار پہنچے اس نے آپ کا نام اور کنیت پوچھی۔ آپ نے اپنا نام علی اور کنیت ابو الحسن بتائی۔ عبد الملک بن مروان نے کہا میں یہ کنیت اور نام ایک ساتھ برداشت نہیں کرسکتا کیا تمھارا کوئی بیٹا ہے؟ آپ نے بتایا ہے میرا ایک بیٹا محمد بن علی بن عبد اللہ ہے۔ عبد الملک بن مروان نے آپ کو ابو محمد کی کنیت دی ساتھ میں انعامات سے بھی نوازا۔

ابن خلکان نے لکھا ہے کہ علی بن عبد اللہ نے جب لبابہ بنت عبد اللہ بن جعفر سے نکاح کیا تھا جو عبد الملک بن مروان کی بیوی رہ چکی تھی جس نے اس کو طلاق دے دی تھی جس کی وجہ یہ بنی تھی ایک روز عبد الملک بن مروان نے سیب کو کاٹا اور لبابہ کی طرف پھینک دیا تو اس نے اس جگہ کو چھری سے کاٹ دیا جہاں عبد الملک بن مروان کا منہ لگا تھا کیونکہ اس کے منہ سے بہت بدبو آتی تھی عبد الملک کے پوچھنے پر اس نے کہا الفکش سے بچنے کے لیے ایسا کیا جس پر اس نے اسے طلاق دے دی۔

جب اس سے علی بن عبد اللہ نے نکاح کیا تو ولید بن عبد الملک نے اسی باعث آپ سے انتقام لیا اور آپ کو کوڑوں سے پٹوایا اور یہ بھی کہا گیا کہ تم خلیفہ کی اولاد کو ذلیل کرتے ہو؟ جس پر آپ کو دوبارہ کوڑے لگوائے گئے کیونکہ آپ کے مطلق مشہور ھوگیا تھا کہ آپ کہتے ہیں عنقریب خلافت ان کے گھرانے میں آنے والی ہے۔

مبرو نے لکھا ہے ایک دن آپ ہشام کے پاس گئے ساتھ میں آپ کے بیٹے محمد بن علی کے بیٹے ابو العباس السفاح اور ابو جعفر المنصور بھی تھے ہشام نے آپ کی آؤ بھگت کی اور ان کو اپنے ساتھ بٹھایا اور ان کو ایک سو تیس دینار بھی دیےـ[10]

وفات ترمیم

آپ کی وفات بلقاء کی زمین میں واقعہ جہمہ کے مقام پر 118ھ میں ہوئی اس وقت آپ کی عمر 78 سال تھی۔[11] ابو معشر وغیرہ نے کہا ہے کہ ان کی وفات ملک شام میں 117 ہجری میں ہوئی[12]

اولاد ترمیم

آپ کی بہت سی اولادیں تھیں۔ جن میں بیٹے یہ ہیں۔

محمد بن علی ، عبد الصمد بن علی داؤد ، عیسٰی ، احمد ، مبشر ، بشر ، اسماعیل ، عبد اللہ الاکبر ، عبد اللہ الاصغر ، عبید اللہ ، عبد الملک ، عثمان ، سلیمان ، صالح ، عبد الرحمٰن ، عبد اللہ الاوسط ، یحیٰی اور اسحاق بیٹیاں یہ ہیں۔ فاطمہ ، ام عیسٰی کبرٰی ، ام عیسٰی صغرٰی ، لبابہ ، بریہہ کبرٰی ، بریہہ صغرٰی ، میمونہ ، ام علی ، عالیہ اور ام حبیب[13]

محمد بن علی کی والدہ عالیہ بنت عبید اللہ بن عباس تھیں۔ داؤد اور عیسٰی دونوں کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔ سلیمان اور صالح دونوں کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔ احمد ، مبشر اور بشر جن سے کسی کی بقیہ اولاد نہ تھی اور اسماعیل اور عبد الصمد یہ سب کے سب ایک ام ولد سے تھے۔ عبد اللہ الاکبر جن کی اولاد باقی نہیں رہی اور ایک بیٹی ام حبیب بنت علی ان دونوں کی والدہ ام ابیہا بنت عبد اللہ بن جعفر تھیں۔ عبید اللہ جن کی اولاد بقیہ نہ تھی ان کی والدہ بنی الحریش کی خاتون تھیں۔ عبد الملک ، عثمان ، عبد الرحمٰن اور عبد اللہ الاصغر جو ملک شام چلے گئے تھے اور یحیٰی ، یعقوب ، عبد العزیز ، اسماعیل اصغر اور عبد اللہ الاوسط ان کی بقیہ اولاد نہ تھی مختلف ام ولد سے تھے۔ فاطمہ ، ام عیسٰی کبرٰی ، ام عیسٰی صغرٰی ، لبابہ ، بریہہ کبرٰی ، بریہہ صغرٰی ، میمونہ ، ام علی اور عالیہ دختران علی سب مختلف ام ولد سے تھیں۔[14]

حوالہ جات ترمیم

  1. تابعین از شاہ معین الدین احمد ندوی صفحہ 308
  2. (ابن سعد:5/162)
  3. تابعین از شاہ معین الدین احمد ندوی صفحہ 308 اور 309
  4. تابعین از شاہ معین الدین احمد ندوی صفحہ 309
  5. افضل الانساب الحدیث والکتاب صفحہ 149
  6. تابعین از شاہ معین الدین احمد ندوی صفحہ 309
  7. تابعین از شاہ معین الدین احمد ندوی صفحہ 309
  8. تابعین از شاہ معین الدین احمد ندوی صفحہ 310
  9. البدایۃ اولنھایۃ از علامہ حافظ ابو الفدا عمادالدین ابن کثیر دمشقی اردو مترجم حافظ سید عبد الرشید ندوی جلد نہم صفحہ 274
  10. البدایۃ اولنھایۃ از علامہ حافظ ابو الفدا عمادالدین ابن کثیر دمشقی اردو مترجم حافظ سید عبد الرشید ندوی جلد نہم صفحہ 273 اور 274
  11. البدایۃ اولنھایۃ از علامہ حافظ ابو الفدا عمادالدین ابن کثیر دمشقی اردو مترجم حافظ سید عبد الرشید ندوی جلد نہم صفحہ 273
  12. طبقات ابن سعد مصنف محمد بن سعد اردو ترجمہ علامہ عبد اللہ العمادی جلد سوم حصہ پنجم صفحہ 238
  13. تابعین از شاہ معین الدین احمد ندوی صفحہ 310
  14. طبقات ابن سعد مصنف محمد بن سعد اردو ترجمہ علامہ عبد اللہ العمادی جلد سوم حصہ پنجم صفحہ 237