عنایت اللہ دہلوی

ہندوستانی مترجم، مورخ، سوانح نگار

عنایت اللہ دہلوی (پیدائش: 10 شعبان، 1286ھ بمطابق 15 نومبر، 1869ء - وفات: 24 اکتوبر، 1943ء) اردو زبان کے معروف مصنف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار تھے۔ وہ کثیر التصانیف مصنف، مترجم، انشا پرداز اور مورخ شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ دہلوی کے فرزند تھے۔ عنایت اللہ دہلوی کو اردو زبان کا بہترین مترجم سمجھا جاتا ہے۔

عنایت اللہ دہلوی
معلومات شخصیت
پیدائش 15 نومبر 1869ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 24 اکتوبر 1943ء (74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہرہ دون،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ یونیورسٹی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مترجم،  مورخ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تاریخ،  ترجمہ،  ناول  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ عثمانیہ،  ریاست گوالیر  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک علی گڑھ تحریک  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی ترمیم

عنایت اللہ دہلوی 10 شعبان 1286ھ بمطابق 15 نومبر، 1869ء میں دہلی کے محلہ قاضی واڑہ میں مشہور مترجم، انشا پرداز و مورخ مولوی ذکاء اللہ دہلوی کے گھر پیدا ہوئے۔[1] ابتدائی تعلیم دہلی میں ایک اتالیق سے حاصل کی۔ پھر شاہ جی کے چھتے میں واقع ایک گورنمنٹ اسکول سے اور اس کے بعد عربک اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ تیسری جماعت میں تھے کہ ان کے والد مولوی ذکاء اللہ انھیں اپنے ساتھ الہ آباد لے گئے۔ یہ جولائی 1878ء کا زمانہ تھا جب مولوی ذکاء اللہ میور کالج الہ آباد میں پروفیسر تھے۔ اس سفر میں عنایت اللہ کو پہلی بار سر سید احمد خان سے ملاقات کا موقع میسر آیا جو مولوی ذکاء اللہ کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ گویا سر سید کی شخصیت کا نقش بچپن ہی سے عنایت اللہ پر چھا گیا تھا۔[2]

وہ الہ آباد میں 1880ء تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ کے اسکول میں داخل ہوئے۔ یہاں سے 1885ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1887ء میں ایف اے اور 1891ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کے بعد صحت کی خرابی کے باعث مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور 1892ء میں واپس دہلی چلے آئے۔ علی گڑھ میں تعلیم کے دوران میں سر سید کی توجہ کا مرکز رہے اور یہ تعلق آخری دم تک قائم رہا۔چنانچہ ان کے نام سر سید کے خطوط اس بات کی دلیل ہیں۔ 1892ء میں سرسید کی فرمائش پر ابو ریحان البیرونی کی مختصر سوانح عمری لکھ کر تصنیفی کام کا آغاز کیا اور سر سید سے داد پائی۔ 1893ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے اور سرسید نے کالج کی لائبریری کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ وہ کچھ عرصے کالج میں ریاضی کے اعزازی پروفیسر بھی رہے، اس کے بعد دہلی چلے آئے۔ اپریل 1894ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے اور 60 روپے ماہوار پر سر سید کے ماہنامہ تہذیب الاخلاق کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ یہ سلسلہ کچھ کم ایک سال تک جاری رہا۔ 1897ء میں سر سید کے ایما پر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام کا دعوتِ اسلام کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جس کے کئی باب سر سید نے سنے اور داد دی۔ 1898ء میں سر سید کے انتقال کے بعد وہ دل گرفتگی کے عالم میں اکثر گھر پر ہی رہتے تھے۔[2]

1901ء سے انھوں نے باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا۔ اس سال وہ ڈسٹرکٹ و سیشن جج جون پور کے منصرم (یعنی چیف سپرٹینڈنٹ) مقرر ہوئے۔ 1914ء میں ان کا تبادلہ جون پور سے بریلی ہو گیا جہاں وہ صرف نو ماہ رہے۔ 1915ء میں ریاست گوالیر نے حکومت ہند سے ان کی خدمات مستعار لے لیں اور وہ انڈر سیکریٹری فنانس مقرر ہو کر گوالیر چلے گئے جہاں وہ بعد میں سیکریٹری اپیل ڈیپارٹمنٹ بھی رہے۔ ملازمت کا یہ سلسلہ چھ سال تک جاری رہا۔[2]

دار الترجمہ حیدرآباد کے قیام کے بعد 20 جنوری 1921ء کو وہ سر راس مسعود اور سر اکبر حیدری کی کوششوں سے گوالیر کو خیرباد کہہ کر حیدرآباد دکن آ گئے اور ناظم دار الترجمہ کا عہدہ سنبھالا۔ دار الترجمہ کے لیے بھی ان کی خدمات انگریز حکومت سے مستعار لی گئیں تھیں۔ چنانچہ 1925ء میں جب انھوں نے برطانوی حکومت ہند کی ملازمت سے پینشن حاصل کی تو خالص ملازمتِ سرکار حیدرآباد میں آ گئے اور پچاس روپے سالانہ ترقیاں ملنی لگیں، حتیٰ کہ تنخواہ ایک ہزار روپے ماہوار ہو گئی۔ ناظم دار الترجمہ حیدرآباد کے عہدے پر وہ تقریباً 14 سال تک فائز رہے۔ بالآخر نومبر 1934ء کو تین ماہ کی بیماری رخصت لے کر حیدرآباد سے چلے گئے لیکن آب و ہوا کی خوبی کی بنا پر دہلی کی بجائے ڈہرہ دون کا رخ کیا۔ جہاں انھوں نے اپنی رہائش کے لیے چھوٹا سا بنگلہ خرید لیا تھا۔ عنایت اللہ دہلوی نے تمام عمر شادی نہیں کی اور آخری دم تک اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دیتے رہے۔[2]

ان کی تصانیف و تراجم کی تعداد 57 کے قریب ہے۔ ان میں تذکرہ ابو ریحان البیرونی ،خواب پریشاں، امپیریل رول ان انڈیا، دعوت اسلام، انگریزی نظائر قانون کا ترجمہ، جاپان کا تعلیمی نظم و نسق، صلاح الدین اعظم، یونانی شہنشاہیت، عرب قدیم کا تمدن، تاریخ ادبیات عرب، چنگیز خان، امیر تیمور، عبرت نامہ اندلس، تاریخ مغل، اندلس کا تاریخی جغرافیہ، سلامبو، تائیس، نجم السحر وغیرہ شامل ہیں۔[2]

تصانیف ترمیم

تراجم ترمیم

  • میکبتھ (شیکسپئر، ڈراما)
  • شاہ لیر (شیکسپئر، ڈراما)
  • ہیملٹ (شیکسپئر، ڈراما)
  • انطونی کلوپترہ (شیکسپئر، ڈراما)
  • چنگیز خاں (ہیرلڈ لیمب، ناول)
  • امیر تیمور (ہیرلڈ لیمب، ناول)
  • افتتاحِ اندلس
  • نجم السحر (ہنری رائڈر ہیگرڈ، ناول)
  • تائیس (اناطول فرانس، ناول)
  • سلامبو
  • عبرت نامہ اندلس اول (رائن ہارٹ ڈوزی، تاریخ )
  • عبرت نامہ اندلس دوم (رائن ہارٹ ڈوزی ، تاریخ)
  • ہردو یاس (گستاف فلابیر، طویل افسانہ)
  • ہمزاد کا عشق (ناول)
  • خوابِ پریشاں
  • عرب قدیم کا تمدن
  • تاریخ ادبیات عرب

تاریخ و جغرافیہ ترمیم

  • اندلس کا تاریخی جغرافیہ

سوانح ترمیم

  • تذکرہ ابو ریحان البیرونی

وفات ترمیم

عنایت اللہ دہلوی نے 24 اکتوبر 1943ء کو برطانوی ہند کے شہر ڈیرہ دون میں وفات پائی۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب مولوی عنایت اللہ، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ڈاکٹر گوہر نو شاہی، تعارف،مشمولہ: اندلس کا تاریخی جغرافیہ، محمد عنایت اللہ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، جون 1986ء