غلام دستگیر شاہ
غلام دستگیر شاہ گیلانی کا تعلق عیسی خیل کے سادات خانودہ سے تھا۔ آپ سیال شریف کے جانشین خواجہ ضیاءالدین سیالوی کے خلیفہ تھے۔ وڑچھہ شریف کے دوران آپ نے بہت سی خدمات سر انجام دی جن میں والد ماجد کے مزار پر روضہ کی تعمیر اور مدرسہ اسلامیہ کا قیام سب سے اہم ہے۔
خواجہ غلام دستگیر شاہ گیلانی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | (1903ء) |
وفات | (6 مئی 1965ء) (62 سال) |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
سلسلہ | چشتیہ |
مرتبہ | |
مقام | وڑچھہ شریف خوشاب |
دور | بیسویں صدی |
پیشرو | خواجہ ضیاءالدین سیالوی |
جانشین | غلام حبیب شاہ |
ولادت
ترمیمخواجہ غلام دستگیر شاہ کی ولادت 1903ء میں ضلع میانوالی کے علاقے عیسی خیل میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم کا نام حافظ سدید الدین المعروف پیر جندوڈا شاہ تھا جو پیر سیال خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ [1]
سلسلہ نسب
ترمیمخواجہ غلام دستگیر شاہ کا تعلق شیخ عبد القادر جیلانی کے اخلاف میں سے ہے۔ آپ کا شیخ عبد القادر جیلانی تک شجرہ نسب کچھ یوں ہے۔
- خواجہ غلام دستگیر شاہ بن سید خواجہ پیر جندوڈا شاہ (سدید الدین) بن سید معظم شاہ بن سید دولت شاہ بن غوث زماں سید پیر شاہ زماں بن سید حضور شاہ بن سید کریم شاہ بن سید محمد شاہ بن سید عبد اللہ شاہ بن سید رجب شاہ بن سید حبیب شاہ بن سید پیر عبد الرحمن شاہ دہلوی بن سید عبد الطیف شاہ بن سید عبد القادر ثانی بن سید احمد شاہ بن سید یاسین شاہ بن سید شمس الدین شاہ بن سید ابو الصالح نصر شاہ بن سید عبد الرزاق شاہ بن محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی [2]
تعلیم و تربیت
ترمیمخواجہ غلام دستگیر شاہ کے والد ماجد پیر جندوڈا شاہ خود وقت کے بہت بڑے ولی اللہ اور عالم دین تھے۔ آپ نے خود اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا۔ چنانچہ آپ نے عیسی خیل میں قاضی صاحبان کے مدرسے میں قرآن پاک حفظ کیا اور پھر کتابیں پڑھتے رہے۔ [3]
والد ماجد کی وفات
ترمیمغلام دستگیرہ شاہ کے والد ماجد پیر جندوڈا شاہ نے بروز 7 ربیع الثانی 1334ھ بمطابق 12 فروری 1916ء میں وڑچھ شریف ضلع خوشاب میں وفات ہوئی۔ [4] اس وقت آپ کی عمر صرف تیرہ برس تھی۔ آپ کے یتیم ہو جانے بعد آپ کی پرورش آپ کے نانا جان سید عالم شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے کی۔
بیعت و خلافت
ترمیمغلام دستگیر شاہ کے نانا جان سید عالم شاه آپ کو سیال شریف لے گئے۔ خواجہ خواجگان خواجہ ضیاءالدین سیالوی کے سامنے بٹھا کر عرض کی قبلہ! ان کے والد گرامی جہان فانی سے رحلت فرما گئے ہیں انھیں یتیمی کی پگڑی باندھ کر ان کے حق میں دعائے خیرفرمائیں۔ خواجہ ضیاءالدین سیالوی تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ اٹھ بیٹھے، جلال آگیا اور فرمایا ! شاه صاحب خواجہ جندوڈا شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے صاحبزادہ کوخلعت شاہی سے سرفراز کروں یا یتیمی کی پگڑی سے۔ خواجہ ضیاءالدین سیالوی نے اپنے پیارے غلام نصیر الدین کو ارشاد فرمایا کہ میرا خاص بکس ادھر لاؤ۔ وہ جب لائے تو آپ نے اس میں سے طلائی کلاه اور بہترین پشاوری مشہدی لنگی نکالی۔ غلام دستگیر شاہ کے سر پر باندھی اور فرمایا ! جاؤ آج سے تجھے ہر شاہ و گدا سے بے نیاز کر دیا ہے۔ خواجہ ضیاءالدین سیالوی نے آپ کو خرقہ خلافت سے متماز فرما کر تمام وظائف اور ختم خواجگان کی اجازت مرحمت فرمائی۔
وڑچهہ شریف میں مستقل سکونت
ترمیمتعلیم سے فراغت کے بعد مر شد کمال حافظ خواجہ ضیاءالدین سیالوی نے غلام دستگیر شاہ کو اپنے والد ماجد کے مزار وڑچھہ شریف پر قیام کا حکم ارشاد فرمایا۔ جب وڑچھہ شریف میں غلام دستگیر شاہ گیلانی نے اقامت کا مستقل ارادہ کر لیا تو وہاں اپنے لیے ایک خانقاہ کی بنیاد ڈالی جو بہت جلد مرجع خلائق بن گئی۔ آپ کے خلوص اور حقانیت کا اثر یہ ہوا کہ بہت جلد خلقت کا ہجوم ہونے لگا۔ خانقاہ معلی میں ہزاروں عقیدت مند حاضر ہونے لگے۔
تعمیرات
ترمیمغلام دستگیر شاہ نے اپنے والد ماجد کے مزار وڑچھہ شریف پر خوبصورت روضہ تعمیر کرایا۔ اس کے علاوہ لنگر خانہ، مسجد، مجلس خانہ، درویشوں کے لیے کمرے، مسافروں کے لیے مسافرخانے اور مستورات کے لیے الگ حویلی بنائی۔ سب سے اہم کارنامہ مدرسہ اسلامیہ کا اجرا تھا جس میں بے شمار مشاہیر اور علمائے دین زیر تعلیم رہے۔
سیرت
ترمیمغلام دستگیر شاہ کی زبان اورتعلیم میں اس قدر تاثیر تھی کہ جو آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ، از حد متاثر ہوتا تھا۔ آپ کے دست مبارک پر بیعت ہونے والوں کی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی آجاتی تھی۔ آپ زیادہ وقت تلقین و ارشاد اور وعظ ونصیحت میں صرف کرتے تھے۔ ہر وقت آپ کی مجلس گرم رہتی تھی۔ کسی شخص کی گفتگو سے قطعا مکدر خاطر نہ ہوتے تھے۔ ہر کسی کے سوال کا شافی جواب عطا فرماتے تھے۔ خانقاہ میں امیر غریب، دیہاتی و شہری، جاہل و عالم اور عام و خواص ہر قسم کے لوگ آتے تھے اور آپ ہر آدمی کے مرتبہ ومقام اور حیثیت کے مطابق برتاؤ اور گفتگو فرماتے تھے۔ اتباع شریعت اور اخلاق کی درستی کی خاص تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپ کے ارشاد و تلقین کا مریدین پر بہت گہرا اثر ہوتا تھا۔ آپ کی صورت و سیرت میں بلا کی کشش تھی۔ جو خوش نصیب اورفرخنده بخت آپ کی ایک بار زیارت کر لیتا تھا وہ آپ کا غلام بے دام بن جاتا تھا۔ آپ کے دروازے سے کوئی سائل خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔
وصال
ترمیمغلام دستگیر شاہ گیلانی نے 6 مئی 1965ء کو وڑچھہ شریف میں وصال فرمایا۔ آپ کی تدفین والد ماجد کے پہلو میں کی گئی۔ آپ کا عرس ہر سال 12 اور 13 اکتوبر کو وڑچھہ شریف میں عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
اولاد
ترمیمغلام دستگیر شاہ گیلانی کے چار بیٹے تھے۔
- حضرت پیر سید مولانا غلام ربانی شاہ گیلانی قمر آباد شریف(عیسی خیل)[5]
- حضرت سیدغلام فخر الدین شاہ گیلانی
- حضرت سید غلام حبیب شاہ گیلانی (سجادہ نشین)
- حضرت سید غلام محمد شاہ گیلانی
حوالہ جات
ترمیم- ↑ سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 178
- ↑ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 200
- ↑ سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 178
- ↑ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 205
- ↑ سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 178 تا 180