فاطمہ ثریا بجیا (ولادت: 1 ستمبر 1930ء – وفات: 10 فروری 2016ء) پاکستان ٹیلی وژن اور ادبی دنیا کی معروف شخصیت تھیں جو ناول نگاری، ڈراما نگاری اور اردو ناولوں کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ [1] انھوں نے ٹیلی وژن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کام کیا۔ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی ان کے کام قابل قدر ہیں۔ محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ انھیں متعدد ملکی اور غیر ملکی ایوارڈ سے نوازا گیا جس میں جاپان کا اعلی ترین سول اعزاز بھی شامل ہے۔ فاطمہ ثریا بجیا پاکستان کے صوبہ سندھ کے وزیر اعلی کی مشیر بھی رہیں، وہ آرٹس کونسل پاکستان کی انتظامی کمیٹی کی بھی رکن تھیں۔ فاطمہ ثریا بجیا 10 فروری، 2016ء کو کراچی میں طویل علالت کے بعد 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

فاطمہ ثریا بجیا
معلومات شخصیت
پیدائش 1 ستمبر 1922ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 فروری 2016ء (94 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سرطان   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ ناول نگار ،  ڈراما نگار ،  منظر نویس ،  مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

فاطمہ ثریا بجیا نے رسمی اسکول کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر اس کے باوجود انھوں نے ادب اور تحریر کی دنیا میں بڑا نام پیدا کیا۔ وہ ریڈیو، ٹی وی ، اسٹیج، سماجی خدمات کے حوالے سے جانی پہچانی شخصیت تھیں۔ لاہور اور اسلام آزاد پی ٹی وی مرکز کے لیے انھوں نے ابتدا سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ اپنا پہلا طویل ڈراما مہمان لکھا۔ انھوں نے کئی ادبی پروگراموں میں بھی شرکت جن میں آرائش خام کاکل نمایاں ہے۔ فاطمہ ثریا بجیا نے بچوں کے لیے بھی بہت سے پروگرام کیے [1] اور وہ حقوق نسواں کی علمبردار تھیں۔ [2]

ابتدائی حالات

وہ یکم ستمبر، 1929ء کو بھارتی ریاست حیدرآباد کے ضلع رائچور (موجودہ کرناٹک ریاست) میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم کے فوراً بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئیں ۔ [3]

خاندان

ان کے خاندان میں اور بھی مشہور شخصیات ادبی دنیا میں مصروف عمل ہیں جیسے کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود، بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق بھی بہت مشہور ہیں۔

نمایاں کام

بجیا کی وجہ شہرت وہ ڈرامے ہیں جو پی ٹی وی نے پیش کیے۔

شروعات

ٹیلی وژن کی دنیا میں بجیا کی آمد محض اتفاقاً ہوئی تھی جب 1966ء میں کراچی جانے کے لیے ان کی فلائٹ تعطل کا شکار ہوئی تو وہ اسلام آباد پی ٹی وی سینٹر کسی کام سے گئیں وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر آغا ناصر نے اداکاری کے ذریعے ان سے پہلا کام کروایا۔ اس کے بعد انھوں نے ڈراما نگاری کے ذریعے اس ادارے سے اپنا تعلق مضبوط کیا۔ آغا ناصر کے مطابق فاطمہ جب ٹی وی اسٹیشن آ جاتیں تو وہاں ان کی مکمل حاکمیت ہوتی، اگر کسی کو کوئی مشکل ہوتی تو وہ ادارے کے سربراہ کے پاس جانے کی بجائے فاطمہ ثریا بجیا کے پاس جاتا۔ [4]

ڈرامے

ماخوذ

تخلیق

  • انا
  • آگاہی
  • آبگینے
  • بابر
  • تاریخ و تمثیل
  • گھر ایک نگر
  • فرض ایک قرض
  • پھول رہی سرسوں
  • تصویر کائنات
  • اساوری
  • سسّی پنّوں
  • انارکلی
  • اوراق

بجیا نے بچوں کے پروگرام کے لیے بھی کام کیا ۔

ایوارڈ اور

اعزازات

1996ء میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انھیں کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں جاپان کا اعلیٰ سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔2012ء میں ان کو صدرِ پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔

1996 میں انھیں تمغا حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ جاپان کے اعلی ترین سول اعزاز سے نوازا گیا۔ 2013 میں انھیں صدر پاکستان کی طرف سے ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ [5]

دیگر کا رہائے نمایاں

فاطمہ ثریا بجیا نے صوبائی حکومت سندھ میں مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں ۔ 22 مئی 2012 میں فاطمہ ثریا بجیا کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب "آپ کی بجیا" شائع ہوئی جسے سیدہ عفت حسن رضوی نے چھ سال کی تحقیق کے بعد شائع کیا۔ [4] 01 ستمبر 2018 کے دن گوگل نے ان کی 88ویں سالگرہ کے دن گوگل ڈوڈل ریلیز کیا۔

وفات

فاطمہ ثریا 10 فروری 2016ء کو کراچی میں طویل علالت کے بعد 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ [6]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. ^ ا ب "Fatima Suraiya Bajia profile"۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2018 
  2. "Fatima Surayya Bajia: Urdu novelist dies aged 85"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 2016-02-10۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2020 
  3. Profile of Fatima Suriyya Bajiya Retrieved 12 November 2018
  4. ^ ا ب "Meteors in comet-filled skies: Fatima Surayya Bajia's biography launched"۔ The Express Tribune (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2018 
  5. "Civilian awards: Presidency issues list of 192 recipients"۔ The Express Tribune (newspaper)۔ 13 August 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2018 
  6. Peerzada Salman (12 February 2016)۔ "Bajia's admirers pay tribute: 'We can say that we have lost our mother'"۔ Dawn (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2018 

وفیات پاکستانی اہل قلم خواتین از خالد مصطفی