فاطمہ شیخ

ایک ہندوستانی معلمہ و مربیہ اور مشہور سماجی مصلح

فاطمہ شیخ ایک ہندوستانی معلمہ و مربیہ اور مشہور سماجی مصلح جیوتی راؤ پھلے اور ساوتری بائی پھلے کی ساتھی تھیں۔[2] فاطمہ شیخ میاں عمر شیخ کی ہمشیرہ تھیں جن کے گھر میں جیوتی با اور ساوتری نے قیام کیا تھا۔ وہ جدید ہندوستان کی اولین قادیانی معلمات میں سے ایک ہیں ( قادیانی افراد کو مسلمان نا لکھا جائے نا پڑھا جائے ) ۔ انھوں نے پھلے کے اسکول میں دلت بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ جیوتی با اور ساوتری نے فاطمہ کے ساتھ مل کر نچلے طبقے میں تعلیم کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

فاطمہ شیخ
معلومات شخصیت
پیدائش 9 جنوری 1831ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پونے[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 9 اکتوبر 1900ء (69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سماجی کارکن،  معلمہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فاطمہ شیخ اور ساوتری بائی نے عورتوں، نچلے اور دبے ہوئے طبقے کے لوگوں کو تعلیم دینا شروع کی تو ان کو مقامی افراد کی جانب سے دھمکیاں ملیں، ان کے خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ آیا وہ لوگوں کو پڑھانا چھوڑ دیں یا پھر گھر بدر ہو جائیں۔ انھوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔

ان کے اس عزم میں نہ تو ان کا خاندان اور نہ ہی قبیلہ ان کی مدد کو آگے آیا۔ دونوں نے اپنے لیے جائے پناہ تلاش کی اور دبے کچلے لوگوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جائے پناہ تلاش کرتے ہوئے ان کو ایک مسلم شخص عثمان شیخ کا پتہ ملا جو پونہ کے گجن پیٹ علاقہ میں رہتے تھے۔ عثمان شیخ پھلے بہنوں کو اپنا گھر دینے پر راضی ہو گئے اور احاطہ میں ایک اسکول بھی کھول دیا۔ سنہ 1848ء میں عثمان شیخ اور ان کی بہن فاطمہ شیخ کے گھر میں ایک اسکول کھل گیا۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ اعلیٰ طبقے کے تقریباً تمام افراد ان دونوں کی اس حرکت سے ناراض تھے اور ان لوگوں نے سماجی طور پر پریشان کرکے ان کو روکنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن ایسے وقت میں فاطمہ شیخ آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں اور ساوتری بائی کی ہر ممکن مدد کی۔ فاطمہ شیخ نے بھی ساوتری کے ساتھ اسی اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔ ان دونوں کو سگونہ بائی کا ساتھ ملا اور بعد میں چل کر تعلیمی میدان کی ایک اور رہنما ثابت ہوئیں۔ فاطمہ شیخ کے بھائی عثمان شیخ بھی اس تحریک سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے۔ اس دور کے دستاویزوں کے مطابق عثمان شیخ نے ہی فاطمہ شیخ کو تعلیمی میدان میں کام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

جب فاطمہ اور ساوتری بائی نے جیوتی با کے اسکول میں جانا شروع کیا تو لوگ ان کو ستاتے تھے اور روکتے تھے۔ ان کو سنگسار تک کیا گیا اور گوبر آلود بھی کیا گیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب https://www.google.com/doodles/fatima-sheikhs-191st-birthday — اخذ شدہ بتاریخ: 9 جنوری 2022
  2. Susie J. Tharu، K. Lalita (1991)۔ Women Writing in India: 600 B.C. to the early twentieth century۔ Feminist Press at CUNY۔ صفحہ: 162۔ ISBN 978-1-55861-027-9۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اکتوبر 2018