فرض : وہ کام جس کا کرنا ضروری ہو اور اس کا ترک کرنا لازماً منع ہو اس کا ثبوت بھی قطعی ہو اور اس کے فعل کے لزوم پر دلالت بھی قطعی ہو، اس کا انکار کفر اور اور اس کا ترک کرنے والا عذاب کا مستحق ہو خواہ دائما ترک کیا جائے یا احیاناً (کبھی کبھی) [1]

اصطلاح شریعت

ترمیم

شریعت اسلامی کی اصطلاح میں فرض وہ حکم شرعی ہوتا جو دلیل قطعی (قرآنی حکم اور حدیث متواتر) سے ثابت ہو، یعنی ایسی دلیل جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ وہ حکم جو قطعی اور یقینی دلیل سے ثابت ہو اور اس میں میں کوئی دوسرا احتمال نہ ہو اس کا منکر کافر ہوتا اور بغیر عذر چھوڑنے والا فاسق ہوتا ہے [2] جودلیل قطعی سے ثابت ہویعنی ایسی دلیل جس میں کوئی شُبہ نہ ہو۔[3]

دلیل قطعی

ترمیم

مثلا نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ۔ وہ بنیادی ارکان ہیں جن کا ادا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور ادا کرنے والا ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ قرآن مجید قطعی الثبوت ہے اور اس کی لزوم پر دلالت بھی قطعی ہے کیونکہ نماز اور زکوۃ کا تارک عذاب کا مستحق ہے۔

فرض کا حکم

ترمیم

اسلامی فقہ میں فرض کی اصطلاح حرام کے بالعکس ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کی فرضیت کا انکار کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے جبکہ بلا شرعی عذر ترک کرنے والا فاسق اور سزا کا مستحق ہوتا ہے۔

اقسام

ترمیم

بلحاظ تکلیف فرض کی دو قسم ہے:

  • فرض کفایہ۔ جس میں عامل کی بجائے عمل مطلوب ہوتا ہے، اگر کسی کے جانب سے یہ فرض ادا ہو جائے تو سب کے ذمہ سے عمل کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ جیسے: نماز جنازہ، امر بالمعروف، علوم شرعیہ کا حصول وغیرہ۔[4]
  • فرض عین۔ جس میں عامل مطلوب ہوتا ہے۔ جس کا کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اور جس پر وہ لازم ہے اسی کے ادا کرنے سے ادا ہو گا دوسرے کے کرنے سے اس کے ذمہ سے نہیں اترتا [2] جیسے: پانچ وقت کی نماز، روزہ، اسطاعت رکھنے والوں پر زکوۃ اور حج وغیرہ۔

وضاحت

ترمیم

اکثر فقہا واجب کو بھی فرض ہی کے معنی میں لیتے ہیں۔ تاہم حنفی فقہا کے نزدیک واجب کا لفظ ان امور کے لیے آتا ہے جو فرض اور مستحب کے درمیان ہوں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ردا المختارج 1 ص 186
  2. ^ ا ب زبدۃ الفقہ جلد اول صفحہ 72 سید زوار حسین زوار اکیڈمی پبلیکیشنز
  3. (فتاوی فقیہ ملت، ج1،ص203
  4. (وقارالفتاوی، ج 2، ص 57