فیض الحسن سہارنپوری

اردو مصنف، طبیب، مددس اور عالم دین

مولانا فیض الحسن شاہ (پیدائش 1816ء - 6 فروری 1887ء )[1] ہندوستانی سنی عالم، مصنف، استاد اور طبیب تھے۔ فیض الحسن شاہ جامعہ پنجاب اور اورینٹل کالج لاہور کے سب سے پہلے صدر شعبۂ عربی تھے۔[2]

فیض الحسن سہارنپوری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1816ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سہارنپور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 6 فروری 1887ء (70–71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عملی زندگی
پیشہ طبیب،  مترجم،  معلم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسبت ترمیم

سہارنپور کے محلہ شاہ ولایت کے رہنے والے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد خلیفہ علی بخش، دادا خدا بخش اور پردادا قلندر بخش تھے۔ آپ کی والدہ کا نام فیض النسا تھا، علم دوستی کی وجہ سے ان کا خاندان خلیفہ کہلاتا تھا۔ آپ نسبا قرشی تھے۔[3] آپ کے والد خلیفہ علی بخش کتابت کرتے تھے، حافظ قرآن اور عربی و فارسی کے قابل فاضل تھے۔

پیدائش و بچپن ترمیم

فیض الحسن شاہ 1232ھ بمطابق 1816ء میں، مغلیہ سہارنپور (اب بھارت کا حصہ ہے) میں پیدا ہوئے۔[4] بچپن میں سر ہلانے کی عادت تھی، جس وجہ سے دیگر بچے تنگ کرتے۔ لڑکپن کھیل کوڈ اور پتنگ بازی میں گزارا۔ آغاز شباب میں پہلوانی کا شوق ہو گیا۔ اور پہلوانی کرتے رہے۔ اس کے بعد تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے تو اپنے والد سے عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بیس سال کی عمر میں آپ کو فیض الحسن منطقی کہا جانے لگا۔

تعلیم و تدریس ترمیم

دہلی، رام پور اور لکھنئو کے علما و مدارس سے تعلیم پائی۔ واپس دہلی آ کر درس و تدریس شروع کی۔ 1846ء میں جب سر سید احمد خان صدر امین کی حیثیت سے فتح پور سکیری سے بدل کر دہلی آئے تو انھوں نے مناجات حریری کے چند مقالے اور چند قصیدے مولان سے پڑھے۔ اس وقت فیض الحسن کی عمر تیس سال تھی۔

فیض الحسن نے علوم ادب، فقہ، اصول فقہ، حدیث اور طب کی کامل مہارت حاصل کی۔ حماسہ کا درس پہلے پہل آپ نے ہی شروع کیا اور حماسہ کی شرح فیضی کے نام سے لکھی۔ 1857ء کی بغاوت کے وقت دہلی سے سہارنپور چلے گئے اور وہاں جا کر مطب شروع کر دیا، طب کی آمدنی سے بسر اوقات کی مگر کسی نے آپ کی قدر نہ کی۔ 1870ء میں علی گڑھ میں عربی سے اردو ترجمہ پر مامور ہوئے اور کچھ عربی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ اس کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں عربی کے پروفیسر مقرر ہو گئے۔

اساتذہ ترمیم

اسی زمانے میں محلہ شاہ ولایت کے ایک معزز گھرانے میں آپ کی شادی ہوئی مگر عروس ادب کا خیال بہرعنوان غالب رہا۔ گھر بارچھوڑکردہلی گئے کچھ عرصہ مفتی صدرالدین 1؂ آزردہ صدرالصدور دہلی سے اکتساب کیا قدرے حدیث شاہ احمدسعید مجددی دہلوی سے پڑھی 2؂۔پھرآخون صاحب ولایتی سے حدیث کی سند فراغ حاصل کی اور آخر میں مولانا فضل حق خیرآبادی3؂ سے معقولات اورادب کی کتابیں پڑھیں اورفلسفہ کی تکمیل کی۔اب آپ فیض الحسن ادیب کے نام ذسے مشہور ہوئے متذکرۃ الصدر چاروں استاد اپنے وقت کے جلیل القدر عالم تھے جن کے درس کاشہرہ دُور دور تک پھیلا ہوا تھا مشق سخن مولوی امام بخش صہبائی سے کی۔شیفتہ،مومن،ذوق اورغالب سے صحبت رہی طب حکیم امام الدین شاہی طبیب سے سیکھی۔

سلسلۂ ملازمت ترمیم

1857ء کے پُرآشوب زمانے میں مولانا فیض الحسن دہلی سے بچتے بچاتے سہارنپور پہنچے اور آتے وقت اپنی کتابوں کاذخیرہ اپنے استاذ مفتی صدرالدین آزردہ کے سپرد کرآئے جواُن کے اپنے قیمتی کتب خانے کے ساتھ تباہ ہو گیا مولانا کی طاقت اورہمت کے بھروسے پرکچھ لوگ اوربھی آپ کے ہمراہ ہو گئے اوریہ بھروسا بجابھی تھاکیونکہ مولانا پہلوانی اور بنوٹ وغیرہ کے فن میں ماہرتھے اوران کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ لوہے کی زنجیر کوپکڑ کر توڑدیتے تھے۔راستے میں دوایک موقعوں پر تکرارکی صورت بھی پیش آئی مولانا کی تلوار کا تسمہ کھل چکاتھا کہ گاؤں کے چودھری نے بیچ بچاؤ کردیااورصلح وآشتی سے کام بن گیا۔

سہارنپور پہنچ کر اسی لگی آگ میں اپنی زوجۂ ثانی کو لینے انبیٹہ گئے جووہاں سے دس بارہ میل کے فاصلے پرایک چھوٹا ساقصبہ ہے،وہاں سے بیوی کولیکر آئے۔بیوی بہلی میں تھیں اورخود تلوار ہاتھ میں لیے آگے آگے چلے آ رہے تھے۔ہرطرف قتل وغارت کابازارگرم تھا مگرکسی کو ان سے آنکھ ملانے کی جرأت نہ ہوئی۔

قیامِ سہارنپور میں کچھ عرصہ طب کی آمدنی سے بسراوقات کی مگرکسی نے آپ کی شایان شان قدر نہ کی ایک نودولتیے رئیس نے سترروپیہ ماہوار پربحیثیت طبیب خاص ملازم رکھ لیا ایک روز نواب صاحب کوزُکام ہوا مولانا نے گل بنفشہ ،تخم خطمی اورسپستاں وغیرہ دوائیں تجویز کیں خوشامدی مصاحبوں کی بن آئی انھوں نے نواب صاحب کے کان بھرے کہ حکیم مزاج شناس نہیں۔نواب صاحب نے نسخہ دیکھا تو کہا!حکیم صاحب اس میں مروارید ناسفتہ توہے ہی نہیں اوراق طلاء اور مشک وعنبر کے بغیر فائدہ کیا خاک ہوگا؟۔

مولانا دل برداشتہ ہوکرچلے آئے اورچند روزعلی گڑھ میں عربی کی بعض کتابوں کا ترجمہ اُردو میں کرنے پرمامور ہوئے مگران کا مرغ ہمت کسی بلند آشیانے کا طالب تھا آخر کار 17؍اکتوبر 1870ء کولاہور اورینٹل کالج میں عربی کے پروفیسر مقرر ہو گئے۔[5]

تصانیف ترمیم

  • تعلیقات علی تفسیر الجلالین ،
  • حل ابیات بیضاوی،
  • تحفۂ صدیقیہ( شرح حدیث اُمّ زرع)
  • فیضیہ (درفن مناظرہ)
  • الفیضی (شرح دیوانِ حماسہ)
  • ریاض الفیض(شرح سبع معلقات، عربی، فارسی،اُردو)
  • حاشیہ عروج المفتاح،
  • دیوان الفیض (عربی،
  • نسیم فیض(دیوانِ فارسی)،
  • گلزار فیض (دیوان اُردو)
  • قرابادین فیضی،
  • فیض القاموس،
  • شرح تاریخ تیموری،
  • ضوء المشکاۃ اختیار ایلاتی
  • دیوان حسان بن ثابت کی ترتیب

مزید دیکھیے ترمیم

اورینٹل کالج لاہور

حوالہ جات ترمیم

  1. تذکرہ علمائے اہلسنت و جماعت، علامہ اقبال احمد فاروقی، صفحہ168، 190۔ مکتبہ نبویہ، لاہور۔ بار دوم 1987ء
  2. مولانا فیض الحسن قرشی سہار نپوری علمی و ادبی کارنامے۔ 30 اگست 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اکتوبر 2022 
  3. نسیم فیض صفحہ 24، فیص عام، لاہور، 1321ھ
  4. سید عابد علی عابد (1922)۔ "مولانا فیض الحسن"۔ ثبات اردو: 68 
  5. https://quranwahadith.com/maulana-faiz-ul-hasan-saharanpuri/