قیام پاکستان کے وقت پاکستان کا آئین نہیں تھا آئین 1935ء میں ترامیم کرکے عبوری آئین کے طور پر نافذ کیا گیا پاکستان اس وقت لاتعداد مسائل میں گھرا ہوا تھا لاکھوں مہاجرین ہندوستان سے پاکستان میں پناہ لے رہے تھے ان کی رہائش اور خوراک کا بندوبست ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ مغربی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد تقریباً 3 فی صد جبکہ مشرقی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد 22 فی صد تھی اس لیے بہت سے ایسے سیاست دان تھے جو 25 فی صد غیر مسلم آبادی والا ملک کہتے ہوئے ایسے آئین کا مطالبہ کر رہے تھے جو سیکولر ہو جبکہ علمائے کرام کا ایک گروہ اس نقطہ پر زور دے رہا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا لہٰذا پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا نواب زادہ لیاقت علی خان ان حالات سے آگاہ اور باخبر تھے وہ بھی علما کے خیالات سے متفق تھے اس لیے انھوں نے علمائے کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی جسے قرارداد مقاصد کا نام دیا گیا قراردادِ مقاصد ایک قرارداد تھی جسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949ء کو منظور کیا۔ یہ قرارداد 7 مارچ 1949ء کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی۔ اس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا، بلکہ اس کی بنیاد اسلامی جمہوریت و نظریات پر ہوگی۔

لیاقت علی خان

قراردار مقاصد کا متن ترمیم

  • اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
  • مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے ،آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
  • جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
  • جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت،حریت،مساوات،رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
  • جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
  • جس کی رو سے اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں،اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے،عمل کر نے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
  • جس کی رو سے وہ علاقے جو اب تک پا کستان میں داخل یا شامل ہو جا ئیں،ایک وفاق بنا ئیں گے *
  • جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات واقتدار کی حدتک خود مختاری حاصل ہو گی۔
  • جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا ئے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون واخلاق اجازت دیں، مساوات،حیثیت ومواقع کی نظر میں برابری،عمرانی،اقتصادی اور سیاسی انساف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔
  • جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
  • جس کی رو سے نظام ِعدل گستری کی آزادی پو ری طرح محفوظ ہوگی۔
  • جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت،آزادی اور جملہ حقوق ،بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ تاکہ اہل ِپاکستان فلاح وبہبود کی منزل پا سکیں اور قوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی تر قی و خوش حالی کے لیے اپنا بھر پور کر دار ادا کر سکیں۔[1]

قراردادِ مقاصد آئین پاکستان میں ترمیم

2 مارچ 1985ء کو صدر پاکستان محمد ضیاء الحق کے صدارتی فرمان کے ذریعہ آئین پاکستان میں آٹھویں ترمیم کی گئی جس کے مطابق قراردادِ مقاصد کو آئین پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔ صدارتی فرمان 14 کے تحت آئین پاکستان کی دفعہ نمبر 2 کے بعد اُس کے ضمیمہ کے طور پر Article 2-A کے نام سے شامل کر لیا گیا۔ اِس صدارتی فرمان کے آخر میں ضمیمہ کے مطابق کہا گیا تھا کہ قراردادِ مقاصد آئین پاکستان کے متن میں شامل سمجھی جائے گی۔[1]

آئین پاکستان مجریہ 1973ء کی دفعہ نمبر 2  کے مطابق اسلام مملکتی مذہب ہوگا جبکہ دفعہ نمبر 2 کے ضمیمہ میں قراردادِ مقاصد کو آٹھویں ترمیم صدارتی فرمان 2 مارچ 1985ءکے مطابق شامل کر لیا گیا ہے جو یوں ہے:

  • "ضمیمہ میں نقل کردہ قراردادِ مقاصد میں بیان کردہ اُصول اور احکام کو بذریعہ ہذا دستور کا مستقل حصہ قرار دیا جاتا ہے اور وہ بحسبہ مؤثر ہوں گے۔" [1]

قراردادِ مقاصد سے متعلق آراء و بیانات ترمیم

جسٹس حمود الرحمٰن نے قراردادِ مقاصد کے متعلق کہا تھا کہ:

  • اِسے ابھی تک کسی نے منسوخ نہیں کیا، نہ کسی عہدِ حکومت، فوجی یا سول میں اِس سے اِنحراف کیا گیا۔ بلاشبہ یہ ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ اُن اساسی اُصولوں میں سے ایک ہے جنہیں قرآن میں تقدس حاصل ہے۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب آئین پاکستان مجریہ 1973ء: ابتدائیہ، صفحہ 3، دفعہ نمبر2 اور ضمیمہ دفعہ نمبر 2،  مطبوعہ 31 جولائی 2004ء، اسلام آباد، پاکستان
  2. ریاست بنام دو سود غیر ہ PLD 1958 SC 533،  صفحہ 569۔