قلعہ روات
روات شاہی قلعہ جسے قلعہ روات بھی کہتے ہیں۔ تزک بابری میں اس کے بارے میں کوئی واضح ذکر نہیں ملتا۔ لیکن دوسرے مغل بادشاہ ہمایوں کو پوٹھوہار کے گگھڑ قبائل نے دور جلاوطنی میں عسکری مدد کی جس کی پاداش میں شیر شاہ سوری جو مغلوں کا مخالف تھا گکھڑ قبائل کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اپنے دوسرے دور اقتدار میں مغل شہنشاہ ہمایوں نے اپنے وفادار دوستوں کو نوازا۔ اور انھیں قلعہ روات تعمیر کر کے دیا۔
قلعے کے مرکزی دروازے کا ایک منظر | |
قسم | قلعہ |
---|---|
متناسقات | 33°29′53.16″N 73°11′39.12″E / 33.4981000°N 73.1942000°E |
تعمیر | پندرہویں صدی عیسوی |
پرنگہ روات پرنگہ پھر والا پرنگہ دھان گلی کا ذکر ہمایوں نامہ میں ملتا ہے ۔ جب ہمایوں کا بیٹا جلال الدین محمد اکبربادشاہ بنا تو اس کے دور میں پہلے بارہ صوبے اور پھر بعد میں پندرہ صوبے ہوئے صوبے کے انتظامات منصب دار کے ذمے تھے۔ امورسلطنت میں میں صوبے کے نیچیے سرکار آتی تھی آج کا ڈسٹرکٹ یا تحصیل تحصیل میں مختلف پر نگہ تھے۔فوجداری کے نظام تین حصوں پر تقسیم تھا۔مختلف دیہاتوں کے جس ذمہ دار شخص کو پر بگہ دیا جاتا تھا۔گھڑسوار سپاہی اسی نے بھرتی کر نہے ہوتے۔قلعہ روات بھی ایک پرنگہ تھا جس کے لیے مختلف دیہادت دیے گئے تھے بادشاہ براہ راست کوئی فوج بھرتی نہیں کرتا تھا۔پوٹھوہار کی عسکری تقسیم کے روح رواں شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے سپہ سالار مہاراجا مان سنگھ نے گکھڑ راجپوت اور دیگر جنگجو قبائل کو جاگیریں دے کر مغل فوج کا نظام درست کیا جاگیر تقسیم کی اور فوج کو منظم کیا ۔
روات کے معنی
ترمیمروات عربی زبان کے لفظ ربات کی بگڑی ہوئی شکل ہے ربات کے لغوی معانی سرائے کے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ قلعہ درحقیقت ایک قدیم کاروان سرائے تھا جو جرنیلی روڈ کے ساتھ مسافروں کی سہولت یا سرکاری اہلکاروں کے ٹھہرنے کے لیے بنائی گئی تھی اس کا فن تعمیر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ قلعہ نماسرائے پندرہویں صدی کے اوائل میں سلاطین دہلی کے زمانے میں تعمیر ہوتی تھی لیکن اس قلعے کو سلطان محمود غزنوی کے بیٹے مسعود کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے جس کا زمانہ 1036ء ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے لشکر کے باغی سپاہیوں نے اسے اس قلعے میں گرفتار کیا اور بعد میں ٹیکسلا کے نزدیک گڑی کے قلعے میں لے جا کر قتل کر دیا یہ قلعہ بعد میں گکھڑ قبیلے کے سردار سارنگ خان کے قبضے میں آیا جو اپنے سولہ بیٹوں کے ساتھ شیر شاہ سوری کے ہاتھوں قتل ہوا اور اسی قلعے میں دفن کیا گیا۔
محل وقوع
ترمیمراولپنڈی سے مشرق کی طرف جرنیلی سڑک پر سفر کرتے ہوئے سترہ کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک گاؤں آتا ہے جسے ’’روات‘‘ کہتے ہیں ایک شاندار تاریخی قلعہ روات شاہی قلعہ آ جاتا ہے یہ ’’قلعہ روات‘‘ ہے گاؤں کا نام بھی اسی مناسبت سے ہے۔ جو سولہویں صدی کے اوائل میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ گکھڑوں کے سربراہ سلطان سارنگ خان اور شیر شاہ سوری کے درمیان ایک جنگ کی یاد دلاتا ہے جو 1546ء میں اس مقام پر لڑی گئی۔
قلعہ کا منظر
ترمیمقلعہ تقریباً مربع شکل میں ہے اور اس کے دو بڑے دروازے ہیں اور ایک مسجد کے تین بڑے کمرے گنبد کی شکل میں نظر آتے ہیں اور یہ تقریباً بہتر حالت میں ہے۔ ایک گنبد کے ساتھ ایک چوکور عمارت ہے دیوار وں کے ساتھ ساتھ چھوٹے کمرے ہیں۔ اس کی فصیل کے ساتھ ساتھ بہت سے چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں جو دفاعی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں قلعہ کے مرکز میں کئی قبریں ہیں۔ ان میں سے ایک سلطان سارنگ خان کی ہے۔ ان کے سولہ بیٹوں کی قبریں بھی ہیں جو 1540 میں یہاں جنگ کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔ ہمایوں کے دور کے دوران، سلطان سارنگ خان نے زیادہ شہرت حاصل کی وہ اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ اس نے شیر شاہ سوری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھا ان کے اس انکار سے شیر شاہ سوری نے اس پر چڑھائی کر دی جس کے نتیجے میں وہ اور اس کے سولہ بیٹے مارے گئے تھے۔
موجودہ حالت
ترمیماکبر کے سپہ سالار راجا مان سنگھ نے دفاعی نقطہ نظر کے تحت اپنے سب سے قریبی اتحادیوں گکھڑ قبائل کو پرنگہ قلعہ روات جس کا ذکر مقامی مورخ نمبردار ارتاصب آف گرنوٹا میں اپنی کتاب وجہ تسمیہ دیہات پوٹھوہار میں بھی کیا ہے دیا ۔ قیام پاکستان کے بعد قلعہ کو محکمہ اوقاف کی نگرانی میں دے دیا گیا اور اس کا نام شاہی قلعہ رکھ دیا گیا جس میں ایک مسجد بھی واقع ہے جو آج بھی آباد ہے اور قدیم دور کی یاد دلاتی ہے قلعے کے ارد گرد مضبوط فصیل ہے جو اسے بیرونی دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ تھی مگر اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کے علاوہ اس کی دیواروں کو اہل روات نے بھی نقصان پہنچایا ہے انھوں نے گھروں کی تعمیر کے لیے اس کی دیواروں کو گرانا شروع کر دیا تھا اب حکومت نے اس کے ارد گرد دیواروں کے ساتھ تعمیرات پر پابندی لگا دی ہے اور قلعے کے دونوں اطراف میں خوبصورت لان بنا دیے گئے ہیں۔ تاہم ان کی تعمیرات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔
سیاحتی مقام
ترمیمیہاں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور اگر حکومت ذرا سی توجہ دے تو اس کو سیاحت کے لیے حوصلہ افزا مقام بنایا جا سکتا ہے اونچائی پر واقع ہونے کی وجہ سے دفاعی اعتبار سے بھی یہ قلعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہاں سے اسلام آباد اور راولپنڈی اور ارد گردکے بڑے علاقے پر موثر کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے تاہم اس تاریخی مقام پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آنیوالی نسلوں میں یہ ورثہ منتقل ہو سکے ۔
موجودہ حالت
ترمیمموجودہ قلعہ فصیل اور دو دروازوں پر مشتمل ہے صدر دروازے کا رخ مشرق کی جانب ہے جبکہ عقبی دروازہ شمال کی طرف کھلتا ہے۔ فصیل کے اندر چاروں اطراف میں حجرے بنے ہوئے ہیں۔ فصیل کے اندر دیگر تاریخی عمارتوں میں ایک ہشت پہلو مقبرہ، ایک مسجد اور چند قبریں ہیں۔[1]
حوالہ جات
ترمیمہمایوں نامہ
آئین اکبری
تزک جہانگیری
تاریخ فرشتہ
راج ترنگی